پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جھگڑا مجھ سے ہے، لیکن میرے دوستوں کو پکڑا جا رہا ہے۔ معاملہ ٹریڈنگ اکائونٹس کا نہیں، سارا جھگڑا اٹھارہویں ترمیم کا ہے، جسے ختم کرانے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ میری حراست کی خبر کوئی نئی بات نہیں ہو گی۔ حکومت کو گرا کر مسائل اپنے گلے ڈالنا نہیں چاہتے۔ ہم دوسروں سے کہیں زیادہ محب وطن ہیں۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ تیس سال سے میری کردار کشی ہو رہی ہے۔ سندھ کو ہم سے چھیننے کی کوشش کی گئی، جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ نواز شریف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کو میری ضرورت ہے اور نہ مجھے ان کی۔ دونوں کی اپنی اپنی جماعتیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کوشش کر رہے ہیں کہ اس ماہ کی اکتیس تاریخ کو کل جماعتی کانفرنس بلائیں۔ اگر اس میں نواز شریف شریک ہوئے تو شاید ملاقات بھی ہو جائے۔ پیپلز پارٹی کا بنیادی مسئلہ یہ ہے اس کے اصل چیئرمین کون ہیں۔ آصف علی زرداری یا ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری؟ آصف زرداری کو ایک زیرک اور مفاہمت پسند سیاستدان کہا جاتا ہے، لیکن ان کے بارے میں یہ رائے زیادہ حقیقت پسندانہ ہے کہ وہ مفاہمت پسند نہیں، بلکہ مفاد پسند سیاستدان ہیں۔ وقت، حالات اور لوگ دیکھ کر وہ فیصلے کرتے ہیں، جسے بے اصولی کی سیاست کہا جائے تو یہ زیادہ حسب حال ہو گا۔ اس کے لئے چالاکی جیسی صفت جتنی ضروری ہے، اس سے زیادہ موقع پرستی کی صلاحیت درکار ہے اور یہ صفت پاکستان کے اکثر سیاستدانوں میں اس بلندی پر نہیں پائی جاتی جتنی آصف علی زرداری میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ باقی رہے ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری تو انہیں اپنی جگہ کبھی آگے بڑھانا اور کبھی پیچھے ہٹانا آصف علی زرداری کی مجبوری ہے۔ وہ اپنے اقتدار اور قوم کی لوٹی ہوئی رقوم کو بچانے اور انہیں آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے بلاول بھٹو کو سیاست کے میدان میں لائے تھے، لیکن بلاول کے آتے ہی ملک کے حالات تیزی سے بدلنا شروع ہو گئے اور احتساب کا آغاز ہو گیا، جس سے فوری طور پر تو بلاول بھٹو زرداری پر کوئی اثر نہیں پڑا، لیکن اپنے والد کے سیاسی اعمال ان کا مسلسل تعاقب کر رہے ہیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب قانون اور قدرت کی گرفت میں آجائیں اور ان کے لئے یہ بتانا مشکل ہو جائے کہ عیش و عشرت سے آگے بڑھ کر عیاشی کی جو زندگی گزار رہے ہیں، اس کے وسائل و اسباب کہاں سے اور کن ذرائع سے حاصل ہوئے۔ بلاول بھٹو زرداری کا ایک مخمصہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ننھیال اور ددھیال کے خاندانوں سے وابستگی میں کس کو کس پر فوقیت دیں۔ اپنے والد آصف علی زرداری کے خلاف وہ جا نہیں سکتے اور بھٹو کا نام وہ چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ پیپلز پارٹی کی تمام سیاست کا دارومدار سندھ کارڈ اور بھٹو کے نام پر ہے۔ شومئی قسمت سے اب ان کا استعمال بھی زیادہ مفید نہیں رہا اور خود بلاول بھٹو کو اپنی پارٹی کے گڑھ لیاری سے شکست کھانی پڑی۔ سندھ کے دوسرے علاقوں میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حالیہ انتخابات میں زبردست ناکامی سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے اور جس پر آصف علی زرداری واویلا کر رہے ہیں کہ ’’ سندھ کو ہم سے چھیننے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی‘‘۔ ان کا اشارہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب ہے۔ تاہم احتساب کا بلا امتیاز عمل چند روز میں اس غبارے سے بھی ہوا نکال دے گا۔
آصف علی زرداری کے اس شکوے میں عوام بھی شریک ہیں کہ جھگڑا مجھ سے ہے، لیکن میرے دوستوں کو پکڑا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف عدالتی کارروائی اور انہیں تاحیات نااہل قرار دینے کے بعد قوم انتظار کر رہی تھی کہ آصف علی زرداری کے خلاف نہایت سنگین اور مختلف النوع الزامات کی فہرست طویل ہونے کے باعث وہ بھی جلد اور سخت گرفت میں آئیں گے، لیکن وہ اب تک آزادی کے ساتھ سیاست کرتے ہوئے اپنی گرفتاری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم ختم کرانے کے لئے ان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ زرداری صاحب یہ نہیں بتاتے کہ یہ دبائو کون اور کیوں ڈال رہا ہے؟ معاملہ سیدھا سادا قانون کا ہے، جس کے مطابق عدالتیں کارروائی کر رہی ہیں۔ اس وقت پرویز مشرف کی حکومت ہے نہ میاں نواز شریف کی۔ فوج کی غیر جانبداری اور عدلیہ کی آزادی مسلمہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود اور ان کے کئی ساتھی احتساب کی زد میں ہیں۔ لہٰذا وہ زرداری جیسے لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں۔ آصف علی زرداری کو خوش فہمی ہے کہ ان کی گرفتاری کی خبر کوئی نئی بات نہیں ہوگی اور اس سے ان کی، ان کے خاندان کی، ان کی پارٹی اور سندھ میں حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ سیاسی حکومتوں کے دور میں انہوں نے حکمرانوں کے گٹھ جوڑ سے گیارہ سال جیل کاٹنے کا جو ڈراما رچایا تھا، اس سے ذرائع ابلاغ اور اہل وطن ناواقف ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ انہیں جیل میں اور وہاں سے بیماری کے بہانے نکل کر ڈاکٹر عاصم حسین کے ضیاء الدین اسپتال میں عیش و عشرت کے تمام لوازمات میسر تھے۔ وہ خود بھی شہرت کے لالچ اور ناگہانی موت کے خوف سے باہر آنا نہیں چاہتے تھے، یہ تمام حقائق ساری دنیا جانتی ہے۔ شریف اور زرداری خاندانوں کے لئے اب یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے حکومتیں بنانے اور گرانے کا کھیل جاری رکھ سکیں۔ چنانچہ زرداری صاحب کہتے ہیں کہ حکومت کو گرا کر مسائل ہم اپنے گلے ڈالنا نہیں چاہتے۔ کون کتنا محب وطن ہے، اس کا اندازہ مقتدر و متمول طبقات کے ٹھاٹ باٹ اور ان کے پاس موجود لوٹی ہوئی بے انتہا دولت سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے عوض انہوں نے عوام کو مفلسی و ناداری کی زندگی گزارنے پر مجبور کر کے جو قومی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی، معاشی اور قانونی ظلم کیا ہے، اس کا دنیاوی مواخذہ سست رفتاری سے سہی، بہر حال شروع ہو چکا ہے۔ آخرت کی فکر ہو تو وہ اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے وطن اور اہل وطن کو ان کی تمام امانتیں لوٹا دیں۔ میاں نواز شریف بوجوہ آصف علی زرداری سے دو بدو ملاقات اور گفتگو کے لئے تیار نہیں تو آصف علی زرداری کی یہ بات درست ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اب کوئی کسی کی مدد اور آپس میں مک مکا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ مولانا فضل الرحمان ساری عمر دونوں ہاتھوں میں ایک ایک جماعت کے لڈو رکھ کر سیاست کرتے رہے، جس کے نتیجے میں 2018ء کے انتخابات میں وہ خود بھی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے اور دونوں جماعتوں کی لٹیا بھی ڈبو دی۔ اب ان کا اے پی سی کے لئے بھاگ دوڑ کرنا اور پھر دونوں بڑی جماعتوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر فخر کا اظہار کرنا اس بندر کی طرح ہو گا، جس نے جنگل کے ایک بیمار جانور کا علاج کرنے کے لئے درختوں پر خوب چھلانگیں ماریں اور جب وہ جانور مر گیا تو بندرنے کہا: جنگل کے باسیو! موت اس کا مقدر تھی، لہٰذا وہ مر گیا، لیکن تم سب گواہ ہو کہ میں نے اپنی بھاگ دوڑ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔