مئی 2018ء میں امریکہ نے ایران کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد بھی وقتاً فوقتاً اس معاہدے پر تنقید کرنا اور دھمکانہ شروع کر دیا تھا کہ امریکہ اس معاہدے سے نکل جائے گا۔ ٹرمپ نے ایران پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے بھی الزامات عائد کئے جو کہ بے بنیاد تھے اور جس کے بارے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے بھی واضح کیا تھا کہ ایران نے اس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ وہ خلوص نیت سے اس معاہدے پر عمل کر رہا ہے، لیکن ٹرمپ نے محض اسرائیل کو مطمئن کرنے کیلئے اس عالمی معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اختیار کر کے ایک نہایت غلط مثال قائم کی۔ ٹرمپ کو اس معاہدے سے نکل جانے کیلئے ان کے مشیر قومی سلامتی جان لوئس کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جو روز اول سے اسرائیل کی محبت اور ایران کی دشمنی میں اندھے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے اس معاہدے سے نہ نکلنے سے پہلے اس معاہدے میں ضروری ترامیم کا شوشہ چھوڑا اور ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو اس معاہدے سے مشروط کرنے کی بات کرتے رہے، لیکن ایران کی جانب سے اس معاہدے میں کسی بھی ترمیم اور خاص کر اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو اس معاہدے سے نتھی کئے جانے سے صاف انکار کے بعد امریکہ نے اس معاہدے سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔ اب امریکہ اسرائیل اور یورپی یونین ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو غیر موثر کرنے کیلئے اس پر مسلسل دبائو ڈال رہے ہیں، لیکن ایران نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کسی قسم کی سودے بازی اور مذاکرات سے صاف انکار کر دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر نہ کوئی مذاکرات کرے گا نہ کوئی قدغن قبول کرے گا، کیونکہ اول تو ایران کا میزائل پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے اور دوم اس کا براہ راست ایران کی سلامتی سے تعلق ہے، جس پر کسی قسم کی بات چیت کا مطلب ایران کی سلامتی پر معاہدہ کرنا ہو گا۔ امریکہ اور اسرائیل ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو کافی عرصے سے ہدف تنقید بناتے چلے آ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو بھی ایران کے میزائل پروگرام پر سخت تشویش ہے۔ امریکہ نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے بیلسٹک میزائل کے خوف کو اجاگر کرتے ہوئے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو اربوں ڈالر مالیت کے میزائل ڈیفنس سسٹم فروخت کئے ہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ اور خلیج میں بیلسٹک میزائلوں کے پھیلائو پر نظر ڈالی جائے تو صرف ایران کے پاس ہی بیلسٹک میزائل نہیں اسرائیل، سعودی عرب اور مصر کے پاس بھی بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ ایڈوانسڈ اور طویل رینج کے حامل بیلسٹک میزائل اسرائیل کے پاس ہیں، جن کی رینج 5500 کلو میٹرز تک ہے، لیکن امریکہ اور یورپ کو صرف ایران کا میزائل پروگرام نظر آتا ہے۔ اسرائیل کے بیلسٹک میزائل تو اس حوالے سے بھی خطرناک ہیں کہ اس کے پاس ایٹمی وار ہیڈز بھی موجود ہیں، چنانچہ اسرائیل اپنے میزائلوں کو ایٹمی وارہیڈز سے لیس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن امریکہ اور یورپ اس کو دانستہ طور پر نظر انداز کر کے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے درپے ہیں۔ ایران کے بیلسٹک میزائل پر امریکہ اور اسرائیل کی تنقید کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے زیادہ عرصے تک روکا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ اگر ابھی ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو نہ روکا گیا تو اس کے بیلسٹک میزائل ایٹمی وار ہیڈز سے لیس کئے جا سکتے ہیں، لیکن دوسری طرف خود اسرائیل کے جیریکو نامی بیلسٹک میزائل ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل کو جیریکو میزائلوں کی تیاری کی ٹیکنالوجی فرانس نے 1960ء کی دہائی میں فراہم کی تھی اور اب وہی فرانس ڈھٹائی کے ساتھ ایران کے بیلسٹک میزائلوں کو محدود کرنے کے لئے ایران پر دبائو ڈال رہا ہے۔ فرانس نے اسرائیل کو نہ صرف بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی بلکہ اس کو ایٹمی ری ایکٹر بھی تعمیر کر کے دیا، لیکن اسے ایران کے بیلسٹک میزائلوں پر تنقید کرتے ہوئے کسی قسم کی شرم نہیں آ رہی۔ گو ایرانی حکومت بڑے واضح انداز میں کہہ چکی ہے کہ وہ 2000 کلو میٹر سے زیادہ رینج کے حامل میزائل ڈیولپ نہیں کرے گا، لیکن اس کے باوجود امریکہ اسرائیل اور یورپ کی تسلی نہیں ہو رہی، کیونکہ ان کو اچھی طرح سے علم ہے کہ 2000 کلو میٹر کی رینج کے حامل میزائلوں کی زد میں پورا اسرائیل اور مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی فوجی اڈے آتے ہیں، چنانچہ اگر اسرائیل یا امریکہ نے ایران کے خلاف کسی فوجی ایکشن کی کوشش کی تو ایران بھرپور جوابی کارروائی کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایران کی اس صلاحیت کو ختم کرنا یا پھر انتہائی محدود کرنا ہی امریکہ اسرائیل اور یورپ کا مشترکہ مقصد ہے۔ ایران اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بہت حساس ہے اور اپنے میزائل پروگرام کو اپنی سلامتی کا جزو لاینفک تصور کرتا ہے، کیونکہ ایران پر عائد پابندیوں کے باعث اس کی ایئر فورس بری طرح متاثر ہوئی ہے، اس کے طیارے خاصے پرانے اور محدود صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ ایران اسرائیل یا امریکہ کو اپنی ایئرفورس کے ذریعے کوئی معقول جواب نہیں دے سکتا، چنانچہ اس نے اپنی اس کمزوری پر قابو پانے کیلئے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بھرپور توجہ دی ہے اور یہ صلاحیت حاصل کی ہے کہ اپنے خلاف حملہ کرنے والوں کو بھرپور جواب دے سکے۔ ایران آج نہیں بھولا کہ عراق کے ساتھ ہونے والی جنگ میں کس طرح عراقی ایئر فورس نے ایران کو نہ صرف Series of systemotic Air Raids کا نشانہ بنایا تھا، بلکہ اپنے بیلسٹک میزائلوں سے ایرانی شہروں تہران، تبریز، شیراز اور اصفہان کو نشانہ بنایا تھا۔ جس سے سویلین ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جون 1987ء میں عراق نے ایران کے سرحدی قصبے سردشت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کیا، جس میں 113 افراد ہلاک اور لاتعداد زخمی ہوئے۔ اس دوران عراق نے ایران پر میزائل حملے بھی جاری رکھے۔ ایرانی ایئرفورس نے محدود پیمانے پر جوابی حملے کئے، لیکن بعد میں پابندیوں کے باعث ایران کو طیاروں کی کمی کا سامنا ہوا اور اسے ایئر ڈیفنس پر توجہ مرکوز کرنا پڑی۔ ایران کے پاس اس وقت بیلسٹک میزائل نہیں تھے اور بین الاقوامی پابندیوں کے باعث کوئی ملک ایران کو میزائل فراہم کرنے پر تیار نہ تھا۔ چنانچہ ایران نے طے کیا کہ وہ مقامی طور پر بیلسٹک میزائل تیار کرے گا اور ایران نے بیلسٹک میزائل پروگرام شروع کیا، جو اب خاصے ایڈوانسڈ اسٹیج پر جا چکا ہے۔ ایران نے امریکہ اور یورپ کا مخاصمانہ رویہ کئی دہائیوں تک دیکھا ہے، جس کے بعد ایران نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ ایران کے ڈپٹی وزیر خارجہ عباس ارمچی نے فروری 2018ء میں بی بی سی کو دیئے جانے والے اپنے انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ ’’ایران اپنے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کر چکا ہے جس کے بعد 2015ء میں ایٹمی معاہدے پر دستخط ہوئے، لیکن وہ اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کسی قسم کی بات چیت نہیں کرے گا، کیونکہ ہمارے بیلسٹک میزائل کا تعلق ہمارے ایٹمی پروگرام سے نہیں، یہ پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے، جس پر کسی قسم کی بات چیت نہیں کی جا سکتی‘‘۔ اصولی طور پر ایران کا یہ مؤقف بالکل درست اور اصولوں پر مبنی ہے، کیونکہ اسرائیل کے ایڈوانسڈ بیلسٹک میزائل پر بات کئے بغیر ایران کے میزائل پروگرام پر قدغن لگانا سراسر ناانصافی ہے۔ چنانچہ ایران بیلسٹک میزائل پروگرام پر بات کرنے کو قطعاً تیار نہیں، خواہ اس پر کتنا ہی دبائو کیوں نہ ڈالا جائے۔ دوم یہ کہ ایران اسرائیل کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے، چنانچہ ایسی صلاحیت رکھنا اپنا حق سمجھتا ہے کہ اگر کل کو اسرائیل ایران کو کسی فوجی آپریشن کا نشانہ بنائے تو ایران اسرائیل کو بھرپور طور پر جواب دے سکے۔ امریکہ اور اسرائیل ایران کو اسی جوابی صلاحیت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو ایران کے میزائل پروگرام سے اتنی ہی تکلیف ہے تو وہ پہلے اسرائیل کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے خاتمے کیلئے اسرائیل سے بات چیت کریں، اس کے بعد ایران کی طرف توجہ دیں، لیکن ان تمام ممالک کا دامن خود انتہائی داغ دار اور معیار دوہرا ہے، کیونکہ انہی ممالک نے اسرائیل کو فوجی امداد اور ٹیکناجی فراہم کی ہے، جس کی بنیاد پر آج اسرائیل مشرق وسطیٰ کا ایک رستا ناسور بنا ہوا ہے۔