وزیراعظم عمران خان نے ابتدائی سو دنوں میں اپنی حکومت کو بہتر کارکردگی کا ثبوت پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مدت تو حکومت کے بنیادی امور بھی سمجھنے کے لیے ناکافی ہیں، تاہم کام کے آغاز سے کسی حکومت کی درست سمت اور اس جانب پیش قدمی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پچھلی تمام حکومتوں کی طرح تحریک انصاف کے حکمران ٹولے کے لوگ بھی یہی رٹ لگا رہے ہیں کہ وطن عزیز شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے اور بے پناہ قرضوں کے بوجھ میں گھرا ہوا ہے، چنانچہ انہوں نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب، ملائیشیا اور چین سمیت مختلف ممالک کے سامنے کشکول گدائی یہ کہہ کر بڑھا دیا کہ اس کے بعد ملک کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس سے قبل بیرونی قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے اور نہ جانے کی بار بار قلابازیاں کھائی جاتی رہیں۔ اب بھی حکومت کی جانب سے یہ واضح پیغام سامنے نہیں آیا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جائے گا یا نہیں؟ اس طرح قوم کو غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار کر کے معیشت کی بحالی کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، جن کا اب تک صرف پروپیگنڈا ہی قوم کے سامنے آیا ہے۔ عوامی زندگی میں ان کے مظاہر دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اتوار کو وزیراعظم عمران خان نے اپنے دفتر میں مختلف محکموں، وزارتوں اور دفاتر سے متعلقہ شکایات کے اندراج اور ان کے ’’فوری حل‘‘ کے لیے وضع کئے گئے نظام ’’پاکستان سٹیزن پورٹل‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی جانب سے حکومت کو اپنا سمجھنے سے نیا پاکستان بنے گا۔ ابھی تو ہم نے کچھ کیا ہی نہیں۔ جب ہم کچھ کریں گے تو شکایت ہو گی کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ پاکستان سٹیزن پورٹل کے نظام کو نئے پاکستان کی علامت قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پرانے پاکستان میں عوام کو غلام سمجھا جاتا تھا اور باہر سے آکر حکمرانی کرنے کا تصور تھا۔ عوام دفاتر میں دھکے کھاتے تھے۔ پیسے اور طاقت کے زور پر ناجائز کام بھی ہو جاتے تھے، لیکن کمزور شہریوں کے جائز کام بھی نہیں ہوتے تھے۔ نئے وزیراعظم سے نئے اور تبدیل شدہ پاکستان کی جانب سفر کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ کام کا یہ کوہ گراں یقیناً ایک آن میں سر نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن ابتدائی ستر دنوں میں تبدیلی کی معمولی لہر بھی نظر نہ آئے تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پانچ برسوں میں کیا کچھ ہو گا؟ پاکستان میں ایک سے ایک اچھا قانون موجود ہے، لیکن عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے اب قوانین کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی۔ شہریوں کی جانب سے حکومت کو اپنا سمجھنے کی صورت میں نئے پاکستان کا وعدہ پورا کرنے کی شرط عائد کرنے والے عمران خان سے عوام کو یہ توقع تھی کہ پہلے ان کی حکومت ملک کے بیس کروڑ باشندوں اور ان کے کم از کم بنیادی مسائل کو اپنا سمجھ کر ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی جانب بڑھے گی۔ بعد میں عوام اس سے چار قدم آگے بڑھ کر اس کے ساتھ تعاون کریں گے۔
وزیراعظم اس کے بالکل برعکس خیالات کا اظہار کر کے لوگوں سے یہ توقع کررہے ہیں کہ پہل وہ کریں، جن کے پاس دینے کے لیے اب دعائیں بھی باقی نہیں رہی ہیں تو ملک کیسے آگے بڑھے گا اور اس طرح جو نیا پاکستان وجود میں آئے گا، وہ پرانے پاکستان سے اچھا ہو گا یا برا؟ گزشتہ حکومت کے دور سے دنیا دیکھ رہی ہے کہ بدعنوان سیاست دانوں کو برا بھلا کہنا اور لتاڑنا عمران خان کا شیوہ اور وتیرہ رہا ہے، جس پر انہیں عوام کی بھی حمایت اور تائید حاصل رہی۔ تاہم برسراقتدار آتے ہی انہوں نے گیند اپنے کورٹ سے اچھال کر عام شہریوں کی جانب پھینک دی ہے تو ان سے لوگوں کی مایوسی بڑھنے لگی ہے۔ اول تو عوام کے مسائل حاصل شدہ اختیارات اور قانون کے تحت جلد از جلد حل کرنے کے بجائے انہیں ’’پاکستان سٹیزن پورٹل‘‘جیسے نامانوس گورکھ دھندوں میں پھنسانے کو عوام دوستی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عام لوگوں کو تو یہ سمجھانا بھی مشکل ہے کہ سٹیزن پورٹل کیا بلا ہے۔ شہریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان جو چوکھٹ، بابے، آستانہ یا پھاٹک کھول رہے ہیں، اس پر قدم قدم پر کتنے محافظ اور مجاور بیٹھے ہوں گے اور وہ کتنے عرصے میں مثبت نتائج دکھا سکیں گے۔ ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری دور کرنے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے سابقہ حکومتوں نے نت نئے اعلانات اور اقدامات کئے، مثلاً کہیں سستی روٹی، پلانٹ لگائے، کہیں انکم سپورٹ پروگرام شروع کئے، کبھی مخصوص علاقوں میں لوگوں کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کئے اور کبھی لیپ ٹاپ تقسیم کئے۔ ان میں سے اکثر پروگرام بعد میں فراڈ اور لوٹ کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ ایسے علیحدہ علیحدہ ڈراما نما پروگراموں کے بجائے وطن عزیز کی اصل ضرورت یہ ہے کہ لٹیروں سے لوٹی ہوئی رقم بزور طاقت چھین لی جائے اور آئندہ لوٹ کھسوٹ کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں۔ اس کے بعد تمام شہریوں کے لیے ملک بھر میں سستی اشیا، صاف پانی اور صحت و تعلیم کی سہولتیں یکساں اور مسلسل فراہم کی جائیں تو ہر جگہ خوش حالی نظر آئے گی۔ اور دنیا نئے پاکستان سے آشنا ہو گی۔ پرانے پاکستان میں اگر عوام کو غلام سمجھا جاتا تھا تو نئے پاکستان کے دعوے کرنے والوں نے عوام کی حاکمیت کی اب تک معمولی جھلک بھی نہیں دکھائی ہے۔ راعی اور رعایا کا فرق بنی گالہ سے لے کر ایک عام وزیر یا رکن پارلیمان اور ہر شعبہ زندگی میں دھکے اور جھڑکیاں کھاتے لوگوں کے موازنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی سے تو وہ یوں بھی محروم ہیں۔ ہم ان کالموں میں حکومت پر زور دیتے چلے آئے ہیں کہ وہ دعوئوں اور اقدامات سے پہلے ترجیحات کا تعین کرے۔ کئی دہائیوں سے خستہ حالی کے شکار عام شہریوں کے لیے سب سے پہلے پیٹ بھر روٹی، صاف پانی، اور معیاری تعلیم و علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور یہ کام مہینوں اور برسوں میں نہیں، ہفتوں اور دنوں میں شروع ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ اس کے بعد ہی عوام کو اچھی حکمرانی اور زندگی میں مثبت تبدیلی کے ساتھ نیا پاکستان دکھائی دے گا۔ ٭