جس طرح خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر، نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ چھری کو کچھ نہیں ہوتا اور خربوزے کا کچھ نہیں بچتا، کچھ ایسا ہی معاملہ سعودی منحرف اور سیکولر صحافی جمال خشوگی کے قتل کا ہے، اس میں چھری امریکہ ہے اور خربوزہ سعودیہ۔ ترکی کا بھی اس میں کردار ہے، اس لئے وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زیادہ کون کٹے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن ایک بات طے ہے کہ اس جھگڑے میں نقصان ان دونوں بڑے مسلم ممالک کا ہی ہونا ہے، امریکہ کی تو چاروں انگلیاں گھی میں ہیں، اس نے بڑی ہوشیاری سے کھیل کھیلا ہے اور دو بڑے مسلم ممالک میں گہری خلیج قائم کردی ہے، اب دونوں کے بازو مروڑنے کا عمل شروع کرے گا، بلکہ کر چکا ہے، اس وقت بڑے نشانے پر سعودیہ ہے، ساتھ میں ترکی کے لئے ڈو مور کی آواز بھی لگا دی گئی ہے۔
ترک صدر طیب اردگان بلاشبہ مسلم دنیا کی امیدوں کا مرکز ہیں، مسلم امہ کے مسائل پر سب سے توانا آواز ہیں، اسی لئے وہ اسلامی دنیا میں بہت مقبول ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان سے حالیہ ہفتوں میں دو غلطیاں ہوئی ہیں، جن کے اثرات ترکی اور ان کی ذات پر پڑے ہیں اور آگے جاکر مزید بھی پڑ سکتے ہیں، سب سے پہلے تو انہوں نے امریکی پادری کے معاملے پر اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا، امریکہ سے ہمیں لاکھ اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ وہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے، دفاعی ہی نہیں بلکہ سب سے بڑی معاشی طاقت بھی ہے، دنیا کی مارکیٹوں کو کنٹرول کرتا ہے، جب اور جس وقت چاہے کسی کی معیشت کو بٹھا دیتا ہے، ریٹنگ ایجنسیاں اس کا بڑا ہتھیار ہیں، ڈالر اس کے لئے بین
البراعظمی میزائلوں سے بھی زیادہ کام کرتا ہے۔ روس اور یورپی یونین اس کی معاشی طاقت کے آگے نہیں ٹھہر پاتے، چین جو دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے، اسے بھی اس نے پریشان کرکے رکھ دیا ہے، ایک اعلیٰ چینی عہدیدار کا یہ جملہ امریکہ کی معاشی طاقت کی درست عکاسی کرتا ہے، جس میں انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے مصنوعات پر ٹیکس لگانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے خنجر ہماری شہ رگ پر رکھ دیا ہے، اس جملے سے چین کی پریشانی کی سطح آپ سمجھ سکتے ہیں اور یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ چند برس قبل ایک امریکی طیارہ چین میں گھس گیا تھا، اس دوران وہ طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا اور پائلٹ پیرا شوٹ کی وجہ سے چین میں اترنے میں کامیاب ہوگیا، اس معاملے پر چین نے کتنے روز تک امریکہ سے معافی کا مطالبہ کیا تھا، لیکن امریکی ٹس سے مس نہیں ہوئے تھے اور بالآخر چین کو امریکی پائلٹ معافی منگوائے بغیر چھوڑنا پڑگیا تھا، کیوں کہ چینیوں کو اپنی اور امریکہ کی طاقت کا درست اندازہ تھا۔ اس لئے انہوں نے درست فیصلہ کیا تھا۔
پنجابی کی کہاوت ہے ’’چوکھے ویکھ کے نس جاناں ای دلیری اے‘‘ یعنی زیادہ اور طاقتور دشمن دیکھ کر لڑنا نہیں، بلکہ بھاگ جانا بہادری ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ اردگان جیسے دور اندیش رہنما نے اس کے باوجود امریکی پادری کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ چنا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ تین ماہ میں امریکہ نے ترک معیشت پر ہر طرف سے وار کئے، لیرا کو بے قدر کر دیا، اردگان سود کے سخت خلاف تھے، لیکن انہیں شرح سود بہت زیادہ بڑھانا پڑگئی، ملک کساد بازاری کا شکار ہونے لگا، مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ پہلے تو اردگان نے ترک نیشنلزم کے ذریعے اس سے مقابلے کی کوشش کی، ہم نے وہ تصاویر دیکھیں، جن میں ترک شہری ڈالر کو جلاتے ہوئے پائے گئے، امریکہ کے پرچم جلائے جاتے رہے، لیکن آخر میں ہوا وہی کہ ترک صدر کو امریکی پادری کو رہا کرنا پڑگیا اور وہ بھی کسی شرط
کے بغیر، اس رہائی سے ایک طرف تو اردگان کی اپنی پیدا کردہ نیشنلزم کی لہر سے وہ خود ہی متاثر ہوئے ہیں، کیوں کہ جن شہریوں میں انہوں نے امریکہ مخالف جذبات جگائے تھے، ان کے لئے عالمی نزاکتوں کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے، وہ تو یہی سمجھے ہوں گے کہ ان کی حکومت نے امریکہ کو رعایتیں دے دی ہیں۔ اس سے ایک بڑا نقصان ترکی کو یہ ہوا کہ امریکہ میں مقیم باغی رہنما فتح اللہ گولن کے خلاف اس کا کیس بھی عملی طور پر ختم ہوگیا، کیوں کہ آغاز میں تو انہوں نے امریکی پادری کی حوالگی کو گولن کی حوالگی سے مشروط کیا تھا، لیکن اب غیر مشروط طور پر پادری کو چھوڑنا پڑا، اس کے بجائے اگر شروع میں ہی امریکہ کی طاقت کا درست اندازہ لگایا جاتا تو ایک طرف ترک معیشت متاثر نہ ہوتی اور دوسری جانب عوام میں وہ مایوسی نہ پھیلتی جو اب پھیلی ہوگی، اس وقت ترکی پادری کے بدلے امریکہ سے کچھ باتیں منوانے کی پوزیشن میں بھی تھا۔ گولن کو امریکہ نے حوالے تو نہیں کرنا تھا، مگر اس کی سرگرمیاں محدود کرائی جاسکتی تھیں۔ لیکن معاشی حوالے سے کمزور پوزیشن پر جانے کے بعد اس کے ہاتھ سے یہ آپشن بھی نکل گئے۔ گولن کا ذکر بھی کئے بغیر امریکی پادری کو طیارے میں سوار کرکے روانہ کرنا پڑگیا۔ ترکی کی کمزوری امریکہ کے ہاتھ آگئی ہے، تو اس نے پادری کے علاوہ اب گولن کے ساتھ ان شہریوں کی رہائی کے لئے بھی دبائو ڈالنا شروع کردیا ہے ،جو ترک نژاد امریکی ہیں ، ڈو مور تو ویسے بھی دوسرے ملکوں کے لئے امریکہ کا قومی نعرہ بن چکا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭