’’بھلا کیا فائدہ سواتی صاحب!‘‘

سچی بات ہے سیلانی کو افسوس ہوا، اسے امید نہیں تھی کہ ایک چھوٹی سی بات کا میڈیا اتنا بتنگڑ بنائے گا۔ اب بتائیں بھلا کہ پہلوان کسرت کیوں کرتا ہے، ڈنڈ کیوں بیلتا ہے، داؤ پیچ کیوں سیکھتا ہے، باداموں کی سردائی، دیسی ککڑ، بکرے کی گردن کا بھنا گوشت کیوں ڈکارتا ہے، اتنا خرچا کیوں کرتا ہے؟ ظاہر ہے اکھاڑے میں اترنے کے لئے، حریف کو پچھاڑنے کے لئے، انعام جیتنے کے لئے، اپنی دھاک بٹھانے کے لئے، یہی کام سیاست کے اکھاڑے میں اترنے والے پہلوان بھی کرتے ہیں، وہ جوڑ توڑ کرتے ہیں، مہرے آگے پیچھے کرتے ہیں، خرچا کرتے ہیں، چالیں چلتے ہیں اور شہ مات کرتے ہیں، یہ سب سیاست کے فن پہلوانی کے رموز ہیں۔ اعظم سواتی بھی اسی اکھاڑے کے ایک پہلوان ہیں اور یہ کوئی خاندانی پہلوان نہیں ہیں، سات آٹھ برس پہلے کوئی انہیں جانتا بھی نہیں تھا، یہ اس میدان میں کورے تھے، ان کے پاس سوائے دولت کے اور کوئی قابلیت نہ تھی، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ بجا ہے کہ دولت سے بڑی لیاقت اور قابلیت کیا ہوگی۔ یہ کمبخت تو سب عیب چھپا لیتی ہے؟ یہ اپنی ’’لیاقت اور قابلیت‘‘ لے کر جمعیت علمائے اسلام میں آئے اور پھر یہاں سے ہجرت کرکے کپتان کے تبدیلی بریگیڈ میں جا پہنچے، قسمت کی خوبی دیکھئے کہ انتخابات میں فتح کا ہما پی ٹی آئی کے سر پر بیٹھ گیا، کپتان ان کی بے تحاشہ ’’قابلیت اور لیاقت‘‘ کے سبب انہیں نظر انداز نہ کرسکے اور اپنی کابینہ میں لے کر جھنڈے والی گاڑی کا سزاوار قرار دے دیا۔
اب جب خدا حسن دے تو نزاکت کیوں نہ آئے؟ اعظم سواتی وزیر باتدبیر بنے تو ان کی اس جیت کا اثر لامحالہ پورے گھر پر پڑا اور پڑنا بھی چاہئے تھا، گھر میں جھنڈے والی گاڑی کھڑی ہو، پیچھے مونچھوں کو تاؤ دیئے باوردی محافظ کسی فرمان بردار غلام کی طرح ہاتھ باندھے حکم کے منتظر ہوں اور تشریف تلے بلٹ پروف گاڑی کی نرم گرم سیٹ ہو تو اس کے موٹے شفاف شیشوں سے دنیا کچھ اور ہی لگتی ہے۔ اعظم سواتی کے صاحبزادے عثمان سواتی نے بھی دنیا کو اسی نظر سے دیکھا تو کیا غلط کیا؟ وہ ایک کھرب پتی باپ کا ہونہار بیٹا ہے، مولانا طارق جمیل کا فرزند نہیں۔
اچھا ذرا چک شہزاد کا جغرافیہ جان لیں۔ یہ اسلام آباد کا نواحی علاقہ ہے۔ سر سبز و شاداب چک شہزا کی شہرت کچھ حاسدوں کے نزدیک شاہ زادوں کے عشرت کدوں کی سی بھی ہے، یہاں کے کئی کئی کنال پر بڑے بڑے فارم ہاوسز بنے ہوئے ہیں، جہاں محب وطن، نیک فطرت، سادہ دل سیاست دان، سیٹھ اور رئیس تھکن اتارنے آتے ہیں اور پھر وہ بہت کچھ اتار دیتے ہیں، یہاں فارم ہاؤسز کی دیواریں اتنی مضبوط اور بلند ہیں کہ اندر کے نقرئی قہقہے انہیں پھلانگ کر باہر جاسکتے ہیں، نہ باہر سے کسی غریب مفلس کی صدا اندر جا سکتی ہے۔ صدا لگانے سے پہلے ہی کوئی نہ کوئی گھٹے ہوئے سر والا چوکیدار اس بھکاری کو دھتکار کر آگے بڑھا چکا ہوتا ہے کہ یہاں رنگ میں بھنگ نہ ڈال اور بالکل صحیح کرتا ہے، ہر جگہ تو ہاتھ پھیلانے کی نہیں ہوتی ناں۔
چک شہزاد کے ان فارم ہائوسز میں اکہتر نمبر کا فارم ہاؤس بھی ہے، جو کھرب پتی وزیر مملکت اعظم سواتی کی ملکیت ہے، یہ فارم ہاؤس ایسا ہے کہ دیکھنے سے جی نہیں بھرتا، ایک سے ایک قیمتی ہرا بھرا پودا یہاں موجود ہے، سرسبز و شاداب فارم ہاؤس میں خوب محفلیں ہوتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ بڑی بڑی گاڑیوں اور خشمگیں نظروں والے مشٹنڈے سیکورٹی گارڈوں کے چہروں کی کرختگی کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ گئے وقتوں میں رئیس زادے غلام منڈیوں سے کالے بھجنگ پھینے افریقی غلام ڈھونڈ ڈھونڈ کر خریدا کرتے تھے، جس کے دروازے پر جتنا بدصورت غلام چمکتے نیزا اور دانت لئے کھڑا ہوتا، اس کی اتنی ہی واہ واہ ہوتی تھی۔ اب وہ دور رہا، نہ وہ رئیس زادے، لیکن خاندانی رئیس اب بھی ملازم، خادم رکھتے ہوئے اس کے کام کی مناسبت سے اس کے خدوخال کا
ضرور خیال رکھتے ہیں… خیر سیلانی ذکر کر رہا تھا سواتی صاحب کے فارم ہاؤس کا۔ اس فارم ہاؤس میں بس ایک عیب تھا اور ہے، وہ یہ کہ اس کے قرب و جوار میں مٹی کے کچے گھر بنے ہوئے ہیں، یہاں سے غربت اور مفلسی کے بھپکے اٹھتے ہیں، صبح پو پھٹتے ہی گھروں کے مرد کام کی تلاش میں نکل جاتے ہیں تو پھر ان کی شام ڈھلے ہی واپسی ہوتی ہے، ان کچے گھر والوں کو اپنی حیثیت کا بخوبی پتہ ہے، اس لئے وہ ان فارم ہاؤسز سے لاتعلق اور ان میں رہنے والوں سے دور ہی رہتے ہیں اور بالکل درست کرتے ہیں، انسان کو اپنی حیثیت میں رہنا چاہئے، لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ انسان کا برا وقت آئے تو اونٹ پر بیٹھے ہوئے بھی کتا کاٹ لیتا ہے تو ایسا ہی احسان اللہ باجوڑی کے ساتھ ہوا، اس کی گستاخ گائے اپنی اوقات بھول کر وزیر موصوف کے فارم ہاؤس پہنچ گئی اور باڑھ میں منہ ڈال کر پتے کھانے لگی، گائے کی اس گستاخی پر فارم ہاؤس کے ملازمین نے گائے پکڑ کر باندھ دی، اس کے بعد اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی صاحب نے نہایت مہذبانہ انداز میں پولیس کو مطلع کیا، پولیس نے جھٹ سے پکڑ لیا، اعظم سواتی ان لوگوں سے پہلے ہی بڑے تنگ تھے، انہوں نے اسلام آباد پولیس کے سپہ سالار جان محمد سے بات کرنا چاہی، انہوں نے کال ہی وصول نہیں کی، بتایئے نئے پاکستان میں ایک وزیر کا فون نہ سنا جائے تو پھر پرانا پاکستان کیا برا تھا؟ اعظم سواتی نے وزیر اعظم سے نک چڑھے آئی جی کی شکایت کی، کپتان نے اسی وقت فون کرکے تساہل پسند آئی جی کا تبادلہ کروا دیا، جو آئی جی ایک فون نہ سن سکتا ہو، وہ دارالحکومت میں کیا گھنٹا امن و امان قائم کرے گا، ان کے بعد آنے والے آئی جی صاحب صوم و صلوٰۃ اور قانون قاعدے کے پابند تھے، وہ تو سجدوں میں احتیاط کی وجہ سے پیشانی پر نشان نہیں پڑا، ورنہ کب کا شامی کباب بن چکا ہوتا، انہوں نے فوراً ہی شرپسندوں کو گرفتار کروا کر اڈیالہ جیل بھیج دیا، نیت یہ تھی کہ ان کی اصلاح ہو سکے، یہ کل پانچ افراد تھے، ان میں پرانے پاکستان کے ذہن کی ایک حافظ قرآن بچی تھی اور ایک بارہ برس کا شرارتی سا لڑکا بھی تھا، انہیں ’’دارالاصلاح‘‘ کیا بھیجا گیا کہ میڈیا نے پورا ملک سر پر اٹھا لیا۔ اخبارات نے لکھ لکھ کر صفحے کالے کر ڈالے اور کالے دل والے اینکروں نے بول بول کر منہ سے جھاگ نکالی لی، لیکن دل ٹھنڈا نہ ہوا۔
سچی بات ہے سیلانی بھی ان کے پروپیگنڈے میں آگیا تھا، وہ تیس اکتوبر کی صبح شیث خان کو میٹرو کے اسٹاپ پر چھوڑنے کے بعد لیپ ٹاپ اور گرما گرم کافی کا کپ لئے مشکل وقت میں سعودی عرب کی اقتصادی امداد کے اثرات پر ایک مضمون پڑھ رہا تھا۔ سیلانی کے دوست اسے کئی بار یہ مضمون پڑھنے کی ترغیب دے چکا تھا، اس کا کہنا تھا کہ سعودیہ پاکستان کو مشکل سے نکال کر خود کو بھی کئی مشکلات سے بچا سکتا ہے۔ پاکستان کے کئی شعبے سعودی سرمایہ کاری کے لئے بہترین موقع ہیں۔ سعودی شیوخ اب مریکی بینکوں سے سرمایہ نکالنا چاہ رہے ہیں، وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان کو بھی مشکلات سے نکال سکتے ہیں اور اپنا سرمایہ بھی محفوظ نشونما کے ساتھ محفوظ رکھ سکتے ہیں… یہ موٹی موٹی باتیں سیلانی کی کیا خاک سمجھ آتیں، وہ لیپ ٹاپ بند کر
رہی رہا تھا کہ اسے نیشنل پولیس اکیڈمی سے دوست کی کال آگئی:
’’سیلانی بھائی! کہاں پہنچے؟‘‘
’’یار! میرا آنے کا موڈ نہیں، میں نے اے ایس پیز کی پاسنگ آؤٹ میں کیا کرنا ہے؟‘‘
’’آجائیں شہریار آفریدی بھی آرہا ہے۔‘‘ وزیر داخلہ شہریار آفریدی کی آمد کی پکی اطلاع سن کر سیلانی تیار ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ ہو سکتا ہے اسی بہانے شہریار آفریدی سے ملاقات ہو جائے۔ سیلانی لگے ہاتھوں گستاخ گائے کے سازشی مالکان کے بارے میں پوچھ لے گا، لکھنے کو کالم بھی مل جائے گا اور انہیں مشورہ بھی دے کر ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دے دے گا کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کر قانون کی رٹ قائم کیجئے گا، پندرہ پندرہ کروڑ کے فارم ہاؤس اس لئے نہیں بنتے کہ ٹکے ٹکے کے لوگوں کی گائے ان میں منہ مارتی پھریں، آخر کو اسٹیٹس بھی کوئی چیز ہوتا ہے… سیلانی پونے نو بجے نیشنل پولیس اکیڈمی پہنچ گیا، شہر اقتدار میں مقیم حاضر سروس اور سابق پولیس افسران پریڈ گراؤنڈ میں موجود تھے، نو بجے پریڈ شروع ہوئی، ساڑھے نو بجے وزیر داخلہ شہریار آفریدی آئے، انہوں نے پریڈ کا معائنہ کیا اور پھر شستہ انگریزی میں اے ایس پی افسران کو تلقین کی کہ وہ تھانوں میں غریبوں کا خیال رکھیں… سفید بالوں والے بزرگوں کو دیکھ کر تو رب العزت کو بھی حیاء آتی ہے… جب بزرگوں اور ماؤں بہنوں بیٹیوں کی تذلیل ہو تو رحمت کے فرشتے کیسے اتریں گے… جب عوام کو عزت ملے گی تو آپ کو بھی عزت ملے گی… پاکستان کی پولیس ایسی ہو کہ دنیا مثالیں دے… سیلانی آنکھیں پھاڑے اور کان کھولے یہ خطاب سنتا رہا۔ اسے تو ایسا لگ رہا تھا کہ کسی تبلیغی جماعت کے چلے میں بیٹھا ہوا ہے… واقعی نیا پاکستان اک مثال بننے جا رہا ہے۔ پاسنگ آؤٹ کے بعد ناشتے کے وقت سیلانی شہریار آفریدی کے پاس پہنچ گیا۔ سلام اور مصافحہ کے بعد سیلانی نے عرض کیا: ’’میرا تعلق میڈیا سے ہے، وہ پوچھنا تھا کہ اعظم سواتی والے معاملے میں کیا کر رہے ہیں؟‘‘
جواب میں بلند قامت وزیر داخلہ نے کہا ’’میرے پاس ایک ایک چیز ہے، آپ میرا فیس بک پر پیج دیکھ سکتے ہیں، میں ابھی اٹارنی جنرل کے پاس جا رہا ہوں…‘‘ اس ادھورے جواب کے بعد سیلانی کو دوسرا سوال کرنے کی مہلت نہیں ملی، انہیں وہاں موجود لوگوں نے گھیر لیا اور سیلانی ایک طرف ہو کر سیل فون میں فیس بک کھول کر ان کا اکاؤنٹ دیکھنے لگا۔ وہاں تو اسے سوائے تھانوں پر چھاپہ مار کارروائیوں اور مختلف تقاریب میں خطاب کے کچھ نہ ملا، البتہ اطلاع آگئی کہ اعظم سواتی کے صاحبزادے عثمان سواتی نے گستاخ گائے کے مالکان سے راضی نامہ کر لیا ہے… سیلانی کو افسوس ہوا، دل بجھ سا گیا۔ اعظم سواتی نے ایک روز پہلے ہی کہا تھا کہ انہوں نے فارم ہاؤس پر حملہ کیا تھا، میرے ملازمین کو زدوکوب کیا تھا، یہ ہمیں بم سے اڑانے کی دھمکی دے رہے تھے… سیلانی کو شیطان نے ورغلایا کہ بھلا دو خواتین، لڑکیاں اور تین چار افراد کس طرح کہیں حملہ کر سکتے ہیں… پھر اسے خیال آیا جب نہتی عافیہ صدیقی امریکی کمانڈوز پر ’’حملہ آور‘‘ ہو سکتی ہے تو یہاں یہ بھی کیوں نہیں ہو سکتا؟ اعظم سواتی صاحب بھلا کیوں غلط بیانی کریں گے؟ بس افسوس کہ وہ بہت جلد پیچھے ہٹ گئے اور ان کے بیٹے نے صلح کر لی۔ اب سیلانی اعظم سواتی سے ملاقات کا متمنی ہے کہ وہ ان سے ملے اور کہے کہ ایسی وزارت کا کیا فائدہ جی جب ٹھاٹ سے نہیں رہنا تو اچھا نہیں کہ بندہ رائے ونڈ جا کر بیرون ملک جانے والی جماعت میں تشکیل کرا لے… سیلانی نے یہ سوچتا ہوا کافی کا مگ اٹھایا اور ایک طرف ہو کر افسردگی سے درزا قامت، ملنسار شہریار آفریدی کو تکنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment