غزہ کا قتل عام اور مسلم ممالک

اسرائیلی محاصرے کا شکار فلسطینی شہر غزہ ایک بار پھر میدان جنگ بنتا جا رہا ہے۔ صہیونی ریاست اسرائیل تیس مارچ سے جاری فلسطینیوں کی تحریک حق واپسی کو کچلنے کیلئے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیلی طیارے جب چاہتے ہیں غزہ پر بمباری کرتے ہیں اور غزہ پٹی پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پیر کے روز بھی بمباری کر کے تین معصوم بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ قبل ازیں جمعہ کے روز بھی اسرائیلی فوج کی دہشت گردی میں چار فلسطینی شہید اور دو سو تیس زخمی ہوگئے تھے۔ یہ سلسلہ تیس مارچ 2018ء سے ہر جمعہ کو جاری رہتا ہے۔ اب تک غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے دو سو سولہ فلسطینی شہید اور بارہ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ شہدا میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم غزہ کے باسیوں کے اس قتل عام پر نہ اقوام متحدہ کی کان پر جوں رینگتی ہے اور نہ ہی مسلم ممالک اسے رکوانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ عرب ممالک جو اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ناسور سمجھتے تھے۔ وہ اب تل ابیب سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے سلطنت اومان کا دورہ کر کے سلطان قابوس سے ملاقات کی۔ اسرائیلی عبرانی اخبار بدیعوت احرونوت نے انکشاف کیا ہے کہ وہ آئندہ چند روز میں بحرین کا بھی دورہ کرنے والے ہیں۔ جنگ کپور میں تاریخی شکست کھانے والے عرب ممالک میں سے کچھ تو پہلے ہی اسرائیل کے قدموں میں گر چکے تھے اور باقی ماندہ بھی اب صہیونی ریاست کے تلوے چاٹنے کو بے تاب نظر آ رہے ہیں۔ گرشتہ دنوں اسرائیلی وزیر ثقافت و کھیل میری ریغیف نے متحدہ عرب امارات کا خصوصی دورہ کیا، جسے مقامی میڈیا نے ’’حمامۃ سلام‘‘ (امن کی کبوتری یا فاختہ) قرار دیا۔ اس سے قبل بھی بعض اسرائیلی اعلیٰ حکام کے عرب ممالک کے خفیہ دوروں اور رہنمائوں سے ملاقات کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ جس روز اسرائیلی وزیراعظم نے اومان کا دورہ کیا، اسی دن اسرائیلی آرمی چیف کی ایک دوسرے اہم عرب ملک کے ہم منصب سے ملاقات ہوئی۔ اسی دوران خلیجی وزرائے خارجہ بحرین کے دارالحکومت منامہ میں تین روزہ کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اس بیٹھک کا اہتمام ایک یورپی تھنک ٹینک نے کیا ہے۔ بظاہر اس مکالمے کا مقصد خلیجی ممالک کے درمیان تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنا بتایا گیا، تاکہ علاقے کو استحکام اور خلیجی عوام کو خوشی اور خوشحالی سے ہمکنار کیا جا سکے۔ لیکن پس پردہ اصل مقصد اسرائیل سے تعلقات یا اسے تسلیم کرنے پر غور و خوص کرنا تھا۔ جس کا اظہار سلطنت اومان کے وزیر خارجہ یوسف بن علاوی نے واضح الفاظ میں کیا کہ اسرائیل خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا جائے۔ پیر کے روز یروشلم پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے ڈھائی سو ملین ڈالر کے جدید ترین جاسوسی آلات سعودی عرب کو فروخت کئے ہیں۔ ایسے میں عرب ممالک سے غزہ میں اسرائیلی مظالم رکوانے میں کسی کردار کی توقع ہی فضول ہے۔ بدقسمتی سے طاغوتی قوتوں نے اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے مسلم ممالک کو خود ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ اس لئے انہیں دفاعی تعاون حاصل کرنے کیلئے اسرائیل جیسے مسلم کش ملک سے بھی پینگیں بڑھانا پڑرہی ہیں۔ کاش کہ وہ عقل سے کام لے کر اپنے ازلی اور حقیقی دشمن کو پہچان لیں۔
اسلام کا اصلی چہرہ
ہفتہ کے روز امریکی ریاست پنسلوانیا کے شہر پٹس برگ میں ایک گورے نے سیناگوک کے قریب فائرنگ کر کے گیارہ یہودیوں کو ہلاک کیا تھا۔ مسلم ممالک نے اس اندوہناک واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ اب امریکی مسلمانوں نے ان متاثرہ خاندانوں کی مالی مدد کیلئے فنڈ جمع کرنا شروع کیا ہے۔ ہلاک ہونے والے یہودیوں کے رشتہ داروں کیلئے ابھی تک اسّی ہزار ڈالر کی رقم جمع کرلی گئی ہے۔ کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے رقم اکٹھی کرنے کیلئے اس مہم کا پہلا ہدف پچیس ہزار ڈالر جمع کرنا تھا، جو مہم کے آغاز کے چھ گھنٹوں کے اندر ہی مکمل ہو گیا۔ اس کے بعد پچاس ہزار ڈالر جمع کرنے کا ہدف بھی ایک روز بعد ہی مکمل کر لیا گیا اور اب ایک لاکھ ڈالر کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس مہم کا آغاز امریکا کی ’’سلیبریٹ مرسی‘‘ اور ’’ایم پاور چینج‘‘ نامی دو مسلم تنظیموں نے کیا تھا۔ ان دونوں گروپوں کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے: ’’ہم اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق برائی کا جواب اچھائی سے دینا چاہتے ہیں۔ ہم اس عمل سے شفقت کا پیغام دینا چاہتے ہیں‘‘۔ اس بیان کے مطابق جمع ہونے والی مالی امداد زخمیوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ہلاک ہونے والے یہودیوں کی تدفین کیلئے استعمال کی جائے گی۔ امریکی عوام اور عالمی میڈیا میں مسلمانوں کے اس طرز عمل کی بھرپور تحسین کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں یہودیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے، جن میں پچاس لاکھ کے قریب اسرائیل میں بستے ہیں۔ یہودی ایک ایسی قوم رہے ہیں، جنہوں نے اپنی ہزاروں سالہ زندگی خدا کی مسلسل نافرمانیوں میں گزاری ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور سے بنی اسرائیل نام کی قوم کا آغاز ہوا اور آج تک یہ قوم مسلسل بغاوت، سازش اور فساد کی علمبردار ہے۔ اس لئے رب کائنات نے ان پر متعدد بار لعنت فرمائی ہے۔ نائن الیون کے واقعے میں یہودی ملوث تھے، جس نے امن عالم کو تہہ وبالا کر دیا۔ قبل ازیں دو عظیم جنگیں (اول اور دوئم) بھی انہی کی سازشوں کا نتیجہ تھیں۔ عیسائی جب تک اپنے مذہب پر عمل پیرا تھے، وہ یہودیوں کو قابل گردن زدنی سمجھتے رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عیسائیوں نے یہودیوں کو کہیں پناہ نہیں دی اور ان کا قتل عام کرتے رہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے ہمیشہ ان سے رواداری کا سلوک کیا ہے۔ انہوں نے یورپی عیسائیوں کے مظالم سے تنگ آکر البانیہ اور ہسپانیہ میں آکر مسلمانوں کی پناہ حاصل کی۔ بلکہ بعض حکومتوں میں تو یہودی وزیر، سفیر اور وزیر اعظم بھی رہے ہیں۔ اس لحاظ سے اصولاً انہیں مسلمانوں کا ممنونِ احسان ہونا چاہئے۔ مگر چونکہ ان کی فطرت ہی میں کجی اور احسان فراموشی بسی ہوئی ہے، اس لئے وہ اب عیسائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے استیصال پر عمل پیرا ہیں۔ انہیں دہشت گرد، شدت پسند اور تنگ نظر سمیت تمام برے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی مسلمانوں نے انسانیت و شرافت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ مصیبت کے وقت اپنے بدترین دشمن سے بھی ہمدردی انہی کا طرئہ امتیاز رہا ہے۔ یہی اسلام کی بنیادی تعلیم اور اس کا اصل چہرہ ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment