امریکہ سے کس طرح معاملات کرنے چاہئیں، یہ کسی نے سیکھنا ہو تو پاکستان سے سیکھنا چاہئے، ہم بہت جذباتی قوم ہیں، مایوس بھی جلد ہو جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو سپر پاورز کے ساتھ ہم نے جس طرح ڈیل کیا ہے، یہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہوگا، جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ایک ساتھی بتاتے تھے کہ انہیں افغان جنگ کے دوران صرف ایک ہدایت کی گئی تھی کہ سوویت یونین (روس) کو زخم لگاتے رہنا ہے، لیکن کبھی اتنا بڑا زخم نہیں لگانا کہ وہ مشتعل ہوکر پاکستان پر حملہ کردے، بلکہ ایسے زخم لگانے ہیں، جو آہستہ آہستہ ناسور بن جائیں، اسی طرح جنرل ضیاء الحق خود بھی مشتعل نہیں ہوئے، روسی طیارے کئی بار ہماری حدود میں بمباری کرکے چلے گئے، لیکن وہ جذبات میں نہیں آئے۔ جنگ اپنی مرضی کے میدان میں لڑی اور بالآخر ایک سپر پاور کو انجام تک پہنچا دیا۔ طاقتور سے لڑنے کا طریقہ بتا دیا۔ اسی طرح امریکہ کے معاملے میں بھی ہماری پالیسی براہ راست الجھنے سے گریز کی رہی ہے، امریکہ ڈرون حملے کرتا رہا ہے، الزام تراشی کرتا ہے، لیکن ہم اسے سامنے آکر چیلنج نہیں کرتے، کیوں کہ اس کا نتیجہ ویسا ہی نکل سکتا ہے، جیسا کہ ترکی کے لئے نکلا ہے۔
اب واپس آتے ہیں جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے کی طرف… یہ تو اول روز سے واضح تھا کہ خاشقجی کو امریکہ سے ترکی لاکر سعودی قونصل خانے کی طرف دھکیلا گیا ہے، یہ کسی طاقت کی منصوبہ بندی تھی، جس میں خاشقجی مہرے کے طور پر استعمال ہوگیا، اب تو امریکی اور برطانوی میڈیا نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے کہ ان دو ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کو یہ علم تھا کہ سعودی حکام خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اس کے باوجود انہوں نے خاشقجی کو مقتل کی طرف جانے دیا، یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل سے کچھ طاقتیں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی تھیں، اس حوالے سے ایک رائے تو یہ سامنے آرہی ہے کہ ٹرمپ نے جس طرح تیل کی پیداوار بڑھانے کے لئے سعودی قیادت کو دھمکی دی تھی کہ وہ چاہیں تو ان کی بادشاہت ختم ہو سکتی ہے، اس پر جس طرح سعودی ولی عہد نے ٹرمپ کو جواب دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ امریکہ کو ہر چیز کی ادائیگی کرتے ہیں، مفت میں کوئی چیز نہیں لیتے اور یہ کہ ان کے پاس تخت امریکہ کی وجہ سے نہیں ہے، اس پر امریکہ نے شہزادہ محمد بن سلمان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور پھر باقی جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ نے شہزادہ محمد کو یہ پیغام دینے کی پوری کوشش کی ہے کہ اس کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان کے تخت کو خراب کر سکتا ہے۔ اس طرح تیل کی پیداوار بڑھوانے کا دبائو بھی فوری کارگر کرا لیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شہزادہ محمد جو مستقبل میں سعودی بادشاہ بن سکتے ہیں، ان کے لئے مستقل بلیک میلنگ کارڈ خاشقجی کے قتل کی صورت میں ان کے ہاتھ آگیا ہے۔ امریکہ کو ایک اور فائدہ یہ ہوا ہے کہ دو بڑے اسلامی ممالک کی قیادتوں میں ذاتی رنجش کا بیج کامیابی سے بو دیا گیا ہے۔ شہزادہ محمد کا طویل کیریئر ہے اور وہ خاشقجی کے معاملے میں امریکہ کے بجائے ترکی کو زیادہ ذمہ دار سمجھتے رہیں گے۔ جس کا نتیجہ ان دو اسلامی ممالک میں مستقل دوری کی صورت میں سامنے آئے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکومت اپنی غلطی کی وجہ سے اس جال میں پھنسی ہے، جس ملک میں بھی ریاست مضبوط ہاتھوں میں ہے، وہ اپنے باغیوں کو مرواتے ہیں یا کم از کم کوشش ضرور کرتے ہیں، ابھی چند ماہ قبل لندن میں روس نے اپنے دو باغی کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے ٹھکانے لگوائے تھے، امریکہ اور اسرائیل سمیت دیگر طاقتور ممالک بھی یہی کرتے ہیں۔ سعودیہ بھی یہ کر سکتا تھا، اگر وہ روس یا کچھ دیگر ممالک کی طرح کسی پیشہ ور قاتل کو ادائیگی کے ذریعے خاشقجی کو مروا دیتا تو آج اس صورت حال میں نہ پھنستا۔ لیکن اس نے یہ غلطی کی یا اس سے کروائی گئی کہ اپنے قونصل خانے کا اس مقصد کے لئے استعمال کر ڈالا، جو فاش غلطی ثابت ہوئی، جس کی قیمت اسے ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
سعودی قیادت تو اس معاملے میں اپنی غلطی کی وجہ سے پھنسی ہے، لیکن بہت سے لوگوں کو حیرت اس بات پر ہے کہ آخر ترکی نے اس معاملے میں امریکہ سے اتنا تعاون کیوں کیا؟ حتیٰ کہ سی آئی اے چیف کو مدعو کرکے خاشقجی کے قتل میں سعودی حکام ملوث ہونے کے شواہد پیش کردیئے، اس کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں، ایک تو ترک اور سعودی قیادت کے تعلقات میں خصوصاً قطر تنازعہ کے بعد سے کشیدگی دیکھی جا رہی تھی، ترکی نے اس معاملے میں کھل کر قطر کا ساتھ دیا تھا، پھر اسلامی دنیا کی قیادت کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے، روایتی طور پر یہ قیادت سعودیہ کے ہاتھوں میں رہی ہے، لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے اردگان کی زیر قیادت ترکی نے اسے چیلنج کیا ہے، فلسطین ہو یا کشمیر سمیت اسلامی دنیا کے دیگر مسائل، ترکی اپنے دلیرانہ مؤقف کی وجہ سے آگے رہا ہے۔ اس طرح ترکی نے اسلامی دنیا کے قائد کی حیثیت سے خود کو پیش کیا ہے۔ دوسری توجیہہ یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ خاشقجی کا قتل امریکی پادری کی رہائی کے فوری بعد سامنے آیا، ایسے وقت میں جب ترکی امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے مشن پر تھا، اس نے خاشقجی معاملے پر واشنگٹن سے تعاون کرکے یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب ترکی کے اندر پادری کی رہائی کا معاملہ بھی خاشقجی کیس کی گرد میں دب گیا۔ وجہ کچھ بھی ہو، لیکن زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ ترکی خاشقجی کے معاملے کو سعودیہ کے ساتھ خود حل کرتا، امریکہ کو اس سے فائدہ اٹھانے نہ دیتا۔ امریکہ کو ملوث کرنے سے ترک صدر اردگان کو ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عرب نوجوانوں میں ان کی مقبولیت متاثر ہو جائے۔ عرب نوجوان اردگان کے عاشق ہیں اور اس کا مظاہرہ چند ہفتے قبل اس وقت بھی دیکھنے میں آیا تھا جب ترک کرنسی لیرا کی قدر کو گرنے سے روکنے کے لئے انہوں نے اپنے ممالک میں لیرا کی خریداری کرکے ترکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا۔ عرب نوجوانوں میں اردگان کی مقبولیت کی وجہ ان کا سامراج مخالف بیانیہ ہے، لیکن خاشقجی کے معاملے پر امریکہ سے تعاون کی وجہ سے اردگان کے ساتھ ان کا لگاو متاثر ہو سکتا ہے۔ وہ جوابی طور پر عرب نیشنلزم کی طرف جا سکتے ہیں، بلکہ انہیں اس طرف دھکیلا جا سکتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ کام اب مشکل نہیں رہا، کیوں کہ سیکولر خاشقجی کے بارے میں سعودی عوام کی اکثریت وہی جذبات رکھتی ہے، جو ترک امریکہ میں مقیم اپنے باغی فتح اللہ گولن کے لئے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف سعودی قیادت کو بھی اب سمجھ لینا چاہئے کہ جن پتوں پر وہ تکیہ کرتی ہے، وہ کسی بھی وقت ہوا دے سکتے ہیں، امریکہ کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ وہ کسی کا دوست ثابت نہیں ہوا، وہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے، ابھی چند ماہ قبل کینیڈا کا دماغ درست کرنے کے لئے امریکہ نے سعودیہ کو استعمال کیا تھا اور اب اسی سعودیہ کو خاشقجی کے معاملے پر گھیر لیا، چند ہفتے قبل وہ ترکی کو پابندیوں کی دھمکی دے رہا تھا اور آج اس کے تعاون کی تعریفیں کر رہا ہے، امریکہ کی کوئی مستقل پالیسی نہیں، بلکہ وہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے اور اس کا اسے حق بھی حاصل ہے، لیکن باقی ممالک کو بھی اس سے معاملات طے کرتے ہوئے اپنے مفادات دیکھنے چاہئیں۔٭
٭٭٭٭٭