مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے اسپتال سندھ سے بھی بدتر حالت میں ہیں، میں خود دیکھ کر آیا ہوں۔ انہوں نے صوبائی وزیر صحت ہشام انعام اللہ خان سے پوچھا کہ آپ نے اب تک کیا کیا ہے؟ صوبے میں تحریک انصاف کا دوسرا دور حکومت ہے۔ چیف جسٹس نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ سی ڈی اے (کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی) کے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا، وہی غلط نکلا۔ خیبر پخونخواہ میں اسپتالوں کے فضلے کی تلفی کے معاملے کی سماعت ہوئی، جس میں صوبائی وزیر صحت پیش ہوئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ان سے سوال کیا کہ آپ بتائیں اسپتالوں کا کتنا فضلہ جمع ہوتا ہے اور اس کی تلفی کے لیے کتنے انسنریٹر لگائے گئے ہیں؟ فضلہ اکٹھا کرنے کا طریق کار کیا ہے۔ نجی اسپتالوں سے کتنا فضلہ جمع کیا جاتا ہے اور اسے کیسے تلف کیا جاتا ہے؟ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کمیشن نے فاضل عدالت کو بتایا کہ سرکاری اسپتالوں سے ایک سو تہتر اور نجی اسپتالوں سے تریسٹھ کلو فضلہ روزانہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ صوبے کے ستائیس نجی اسپتالوں میں انسنریٹر لگے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اس استفسار پر کہ آپ کا دوسرا دور حکومت ہے، آپ نے اس عرصے میں کیا کام کیا ہے؟ وزیر صحت ہشام انعام اللہ خان نے کہا کہ میں اپنے کام سے اتنا ہی مخلص ہوں جتنے آپ اپنے کام سے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کے جذبے کی قدر کرتے ہیں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ تین ہزار کلو گرام فضلہ انسنریٹر سے نہیں جلایا جاتا۔ عدالت نے صوبائی وزیر صحت کو دس دن میں مکمل رپورٹ دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ یہ لوگوں کی صحت کا معاملہ ہے۔ اسپتالوں کے فضلے کی صفائی کا معاملہ اگرچہ بڑے قومی مسائل کے مقابلے میں بہت معمولی نظر آتا ہے، لیکن اس معاملے کی سماعت کے دوران جو پہلو سامنے آئے ہیں، وہ نہایت سنگین ہیں اور ان پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کا نعرہ بلند کر کے اقتدار میں آئی ہے۔ وفاق میں اس کی حکومت دو ماہ پہلے قائم ہوئی، صوبہ خیبر پختونخواہ میں وہ پانچ سال تک برسراقتدار رہنے کے بعد اب دوسری پانچ سالہ مدت میں داخل ہو چکی ہے، لیکن چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریک انصاف کی تبدیلی کے دعوئوں کی حقیقت ان ریمارکس کے ذریعے آشکار کر دی کہ وہاں کے اسپتالوں کی حالت سندھ سے بدتر ہے۔ ان کے یہ ریمارکس سنی سنائی باتوں یا کسی مخالفانہ پروپیگنڈے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ بقول فاضل چیف جسٹس وہ خود اس ابتر صورت حال کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں شعبہ صحت کی خراب کارکردگی کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صحت اور دوسرے شعبوں میں ناقص ترین کارکردگی کے لیے صوبہ سندھ سب سے زیادہ بدنام رہا ہے۔ وہاں قلت آب، غذائی کمی اور علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بچے اور کئی بڑی عمر کے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے رہنما اپنی کامیابیوں کے ڈھول پیٹتے ہوئے نہیں تھکتے۔ سندھ میں حکومت کی ناقص کارکردگی اس لحاظ سے زیادہ قابل تشویش ہے کہ اس صوبے میں پیپلز پارٹی کا برسوں سے راج ہے اور آئینی طور پر صحت صوبے کا معاملہ ہے، وفاق کا نہیں۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور ان کا خاندان پچاس کی دہائی سے مرکز اور صوبے پر حکمرانی کے مزے لوٹتا چلا آرہا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اس بیان سے اہل وطن کو بڑی حیرت ہوئی کہ خیبر پختونخواہ کے اسپتال سندھ کے اسپتالوں سے بھی بدتر حالت میں ہیں، جبکہ تحریک انصاف کو وہاں حکومت کرتے ہوئے چھٹا سال گزر رہا ہے اور اس نے عوام کو اچھی حکمرانی اور بہتر تبدیلی کے سہانے خواب دکھا رکھے ہیں۔ وفاق میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی پہلے لوگوں پر پیٹرول بم گرایا۔ گیس سے مہنگائی کی آگ بھڑکائی اور پانچ بار بجلی کے نرخوں میں اضافے کا اعلان مؤخر کر کے بالآخر انہیں زبردست جھٹکا دے ہی دیا۔ اب ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات میں نیپرا نے تیرہ روپے فی لیٹر تک اضافے کی سمری تیار کر کے حکومت کو ارسال کر دی ہے اور یہ پیٹرول بم کم و بیش تاخیر کے بعد بالآخر گر کر رہے گا۔ پچھلی حکومتیں بھی عوام کے ساتھ ایسے سنگین مذاق کرتی رہیں، لیکن ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے لوگوں میں امید کی زیادہ طاقتور شمع روشن کی تھی، جس کی وجہ سے عوام کو زیادہ مایوسی ہوئی۔ شہریوں کو یقین نہیں آرہا کہ انہیں سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کر کے برسراقتدار آنے والی جماعت دو ماہ میں بار بار کئی یوٹرن لے کر ان کو یوں فریب میں مبتلا کرے گی۔ اسپتالوں کا فضلہ عام گھریلو فضلے سے کہیں زیادہ جراثیم آلود اور خطرناک ہوتا ہے۔ اسے محفوظ طریقے سے اکٹھا کر کے فوراً تلف نہ کیا جائے تو کئی بیماریاں پھیلانے کا سبب بن جاتا ہے، جن میں بعض امراض وبائی شکل اختیار کر کے بڑی تباہی لاسکتے ہیں۔ صوبائی وزیر صحت نے فاضل چیف جسٹس کو یہ تو بتا دیا کہ کتنا فضلہ سرکاری اور نجی اسپتالوں سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ ستائیس نجی اسپتالوں میں یہ خطرناک فضلہ تلف کرنے کے انتظامات موجود ہیں، لیکن یہ بتانے سے قاصر رہے کہ سرکاری طور پر اس کا کیا انتظام کیا گیا ہے۔ اپنی کارکردگی بیان کرنے کے بجائے صوبائی وزیر صحت ہشام انعام اللہ خان نے طنزیہ انداز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے کہا کہ میں اپنے کام سے اتنا ہی مخلص ہوں جتنا آپ اپنے کام سے ہیں۔ اپنے منہ میاں مٹھو بن کر اخلاص کا بزبان خود اظہار اپنی کارکردگی کا ثبوت یا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ چیف جسٹس تو شب و روز ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے ہر شعبے کی ناقص کارکردگی پر ان کے ذمے داروں کو شرم اور توجہ دلاتے ہیں۔ صوبائی وزیر صحت اپنی کارکردگی بتانے کے بجائے چیف جسٹس کو طنز و استہزا کا نشانہ بنائیں تو یہ بجائے خود ان کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ اسی لیے عدالت نے ان سے دس روز میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ فضلے کے حوالے سے اہل وطن یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جہاں اقتدار اور پارلیمان کے ایوانوں میں کئی بڑے بڑے نام فاضل، فضلہ کے طور پر جمع ہیں، وہاں اسپتالوں اور گلی کوچوں میں فضلے کے ڈھیر نظر آئیں تو کیا عجب ہے؟٭
٭٭٭٭٭