گزرا ہوا زمانہ

گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرنے میں لذت بھی ہے اور عبرت کا سامان بھی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا پانچ سالہ دور ان سے اختلاف کرنے والوں کے لیے احتساب کا زمانہ تھا۔ یہ حزب اختلاف سے ناروا سلوک کی بات نہیں ہے، بلکہ ان کے ایسے جیالے بھی مصائب کا شکار تھے جو کسی معاملے میں اپنی رائے رکھتے تھے۔ غلام مصطفی کھر، حنیف رامے، چوہدری ارشاد، افتخار تاری اور بالخصوص احمد رضا قصوری کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس کا تذکرہ بھی دل ہلا دیتا ہے۔ ان کے ایک مخالف کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب آرزو مند تھے کہ صبح کا سورج بھی ان کی مٹھی سے برآمد ہو۔ خدا جانے انتخابات کے زمانے میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھٹو صاحب اقتدار میں آنے کے بعد اپنے تمام آدرش فراموش کیوں کر بیٹھے۔ اس حوالے سے غور کیا جائے تو جو کچھ سمجھ میں آتا ہے، اس کے مطابق اول تو وہ جاگیردار تھے، جس کے نزدیک خلق خدا ایک بے وقعت چیز ہوتی ہے۔ دوسرے انتخابات کے بعد ملک دولخت ہوا۔ اس سانحہ کا کچھ نہ کچھ ذمہ دار وہ خود کو بھی سمجھتے تھے اور تیسرے بچے کھچے پاکستان میں اپنے منشور پر عمل درآمد ناممکن العمل تھا۔ گمان غالب ہے ان عوامل نے انہیں اپنوں، پرائیوں سب سے دور کردیا۔ وہ یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ جن قوتوں نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لیے اقتدار ان کے حوالے کیا ہے، وہ نہ صرف سنبھل چکی ہیں، بلکہ بعض مقامات پر ان کے احکامات پر عمل سے گریز کر کے عوام میں اپنی ساکھ بھی بنا چکی ہیں۔ 77ء سے قبل از وقت انتخاب میں جناب بھٹو کا بلامقابلہ منتخب ہونا سارے انتخابات کو مشکوک کر گیا۔ اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی مرحوم تھے۔ تمام غیر جانبدار مبصر متفق تھے کہ اگر مقابلہ ہوتا تو بھٹو صاحب کی ناکامی کا صفر کے برابر امکان نہیں تھا۔ بھٹو صاحب کا بلامقابلہ منتخب ہونے کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بہت سے ساتھی بھی انتظامیہ کی مدد سے بلامقابلہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جس کے باعث حزب اختلاف کی جماعتوں کو متحد ہونے کا موقع مل گیا۔ اس اتحاد نے وہ رنگ جمایا کہ بھٹو صاحب کی حکومت کی بنیادیں ہل گئیں۔
مجھے یاد ہے کہ 3/4 جولائی کی درمیانی رات کو بھٹو صاحب نے آخری پریس کانفرنس کی اور اس کے لیے رپورٹروں کو پولیس کے ذریعے گھروں سے بلایا گیا۔ حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کامیاب تھے یا ناکام، یہ بحث اب بے معنی ہے، کیونکہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کی نوبت ہی نہ آسکی، بلکہ فوج آگئی۔ بہرحال آخری پریس کانفرنس میں استاد حبیب الرحمان ’’چپٹا‘‘ نے بھٹو صاحب کو ایک شعر سنایا:
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
مارشل لا کے اسیروں کو رہا کیا گیا اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی ہو گیا، مگر بھٹو صاحب 70ء کی ذہنی کیفیت سے نہ نکل پائے۔ انہوں نے جلسوں میں جو انداز اپنایا، اس نے جنرل ضیاء الحق کو یہ باور کرا دیا کہ دونوں میں سے کسی ایک کو زندہ رہنا ہے۔ کون پہلے جائے گا، اس کا فیصلہ قوت والوں کو کرنا تھا۔ پھر بھٹو صاحب گرفتار ہو گئے۔ وہ ضمانت پر رہائی کے بعد بھی اپنا طرز عمل نہ بدل پائے۔ سو پھر نواب محمد احمد کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ باقی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اس سارے معاملے میں جو ایک ناقابل فہم بات ہے، وہ یہ کہ نواب محمد احمد کے قتل کی جو ایف آئی آر درج کرائی گئی، اس میں احمد رضا قصوری نے بھٹو صاحب کا نام بھی ملزموں میں ڈالا۔ قانون کے مطابق ایف آئی آر اپنے منطقی انجام تک باقی رہتی ہے اور بھٹو صاحب نے اس ایف آئی آر کو سیل کرا دیا۔ وہ یہ کیوں نہ سمجھ پائے کہ یہ ایک صفحے کی تحریر ان کے لیے خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ اب جناب آصف علی زرداری، بھٹو صاحب کی پھانسی کے معاملے کو عدالت عظمیٰ میں لے جانے کی بات کرتے ہیں۔ شوق سے لے جائیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ وہ پانچ برس اس ملک کے صدر رہے، اس عرصے میں یہ نیک کام انہوں نے کیوں نہیں کیا؟ وہ تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے معاملے میں سلیقہ نہ دکھا سکے۔ پیپلز پارٹی ایک ایسا سکہ ہے جو اب رائج نہیں رہا۔ اب جناب زرداری ماضی کی اس سب سے بڑی جماعت کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے پس پردہ اپنے اس کردار کو چھپانا چاہتے ہیں، جو قانون کی نظر میں قابل اعتراض ہے اور یہ عجیب منطق ہے کہ بھٹو کے پوتے اور پوتیاں لاوارث اور زرداری کے اہل خانہ بھٹو کے وارث بن چکے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment