مال اور کھال بچانے کی فکر

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ حکومتی کام کا پیمانہ انصاف پر مبنی ہو۔ سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے ملکی مسائل حل کرنے کیلئے اکٹھے بیٹھیں۔ آصف علی زرداری نے ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے حکومت کو تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے ایک ساتھ بیٹھنے کا وقت آگیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں کمزوریاں ضرور ہیں، لیکن یہ تمام مسائل کا بہترین حل بھی ہے، ہمیں پڑھا لکھا جاہل نہیں بننا چاہئے۔ ماضی کی جانب دیکھے بغیر مستقبل کی فکر کرنی چاہئے۔ مسائل کا حل نکالنے کیلئے اقتصادی راہداری پر غور کیا جائے تاکہ ملک قرضے لینے پر مجبور نہ ہو۔ ہم نے میاں نواز شریف کی حکومت کو بھی تحفظات کے باوجود قبول کیا تھا اور موجودہ حکومت کو بھی اسی طرح قبول کرتے ہیں۔ حکومت کو دو تین ارب ڈالر ملے ہیں، جو طویل مدت تک ملک کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے، حکومت آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے آصف علی زرداری کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کچھ درست، لیکن قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب بھی ضروری ہے، جس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان میں سیاست کا عام طور پر یہی معیار دیکھنے کو ملتا ہے کہ مختلف جماعتیں ایک دوسرے کو گالیاں دیتی، بدنام کرتی اور الزام لگاتی ہیں، لیکن ان کے رہنما اپنے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کی خاطر کبھی پس پردہ اور کبھی بالکل واضح انداز میں باہم اتحاد و اتفاق کا مظاہر کرتے ہوئے پوری طرح تعاون کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مختلف ادوار یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ ان کے اختلافات ظاہری اور مفادات ہمیشہ مشترکہ نظر آئے۔ ایک جماعت اقتدار میں رہی، جب بھی وہ دوسری جماعت کو کھانے کمانے کے پورے مواقع فراہم کرتی نظر آئی۔ بعد میں دوسری جماعت نے بھی برسراقتدار آکر یہی کچھ کیا۔ باری باری حکومت کرنے والی ملک کی دونوں بڑی جماعتیں نے البتہ ملک اور عوام کو کچھ نہیں دیا۔ شریف خاندان کے بعد احتساب کا سخت شکنجہ زرداری، ان کے خاندان اور ساتھیوں کی جانب بڑھا ہے تو اہل وطن کو آصف علی زرداری صاحب کی وہ بات یاد آتی ہے، جس میں انہوں نے میاں نواز شریف کو احتسابی عمل کا مقابلہ مل جل کر کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میاں صاحب، آئیں اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری اگلی ملاقات اڈیالہ جیل میں ہو، جہاں ہمیں اکٹھے بیٹھ کر آہ و زاریاں کرنی پڑیں‘‘۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو فوج اور عدلیہ کے ’’خطرات‘‘ سے آگاہ کرتے ہوئے یہ پیشکش کی تھی۔ ان کے خیال میں عوام کے معتمد یہ دونوں ادارے ملک و قوم کے خلاف سیاستدانوں کی سازشوں اور ان کی لوٹ مار کو بہت برداشت کر چکے ہیں اور آئندہ وہ کسی بدعنوان اور ملک دشمن شخص یا گروہ کو نہیں بخشیں گے۔
احتساب کا عمل عدلیہ کی نگرانی میں ہو رہا ہے اور اسے افواج پاکستان کی خاموش لیکن بھرپور تائید و حمایت حاصل ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا سیاسی ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں اداروں کے بارے میں انہوں نے ہمیشہ منفی سوچ رکھی ہے، جس کا وہ وقتاً فوقتاً اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے گزشتہ دس گیارہ برسوں اور تین عام انتخابات کے دوران ایک دوسرے پر جو تبرے بازی کی ہے، وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المناک اور سیاہ باب ہے، لیکن مشکل پڑنے پر وہ تعاون و اتحاد کرتے بھی نظر آئے۔ اپنی سابقہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے آصف علی زرداری نے اپنی پارٹی پر کڑا وقت آنے پر تحریک انصاف اور اس کی حکومت کو تعاون کی پیشکش کی ہے۔ اس امید پر کہ وہ بدترین کرپشن میں ملوث پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور زرداری خاندان کے افراد کو شاید بچائے۔ تحریک انصاف وفاق اور دو صوبوں میں برسر اقتدار ضرور ہے، لیکن اس کے چیئرمین سمیت کئی افراد خود احتساب اور قانون کی گرفت میں ہیں۔ آصف علی زرداری نے تعاون کی یہ شرط رکھی ہے کہ حکومتی کام کا پیمانہ انصاف پر مبنی ہونا چاہئے، جبکہ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ تحریک انصاف میں بھی پیپلز پارٹی کی طرح انصاف کے سوا سب کچھ ہے، وہی اعلیٰ ادنیٰ کی اونچ نیچ، رہنماؤں اور عام کارکنوں کے معیار زندگی میں زمین و آسمان کا فرق۔ اس کے باوجود عام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک اور ہمدردی کے کھوکھلے نعرے۔ موجودہ حکومت کے ستر دنوں میں حکمران اور عوام کہیں ایک صف میں کھڑے نظر نہیں آئے۔ ایک طرف وہی شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہیں تو دوسری جانب لوگوں کی بے بسی اور بے کسی میں بہتر تبدیلی کا فقدان، بلکہ مرے پہ سو درے کے مصداق روزمرہ ضرورت کی عام اشیائے صرف کو مہنگا اور ٹیکسوں میں روز بروز اضافہ کرکے ان کی مشکلات میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ میاں نواز شریف کے رویئے سے مایوس ہوکر آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کی حکومت سے تعاون کا خیال ظاہر کیا ہے کہ شاید یہ دونوں پارٹیاں مل کر اپنا مال اور کھال بچا سکیں۔ ملک اور قوم کی فکر ہوتی اور انصاف کو حرز جاں بنایا ہوتا تو پیپلز پارٹی ساٹھ سال کے دوران اقتدار کے مختلف ادوار میں انہیں فرش سے عرش تک پہنچا سکتی تھی۔ جمہوریت کو اہل دانش نے کبھی معیاری طرز حکومت قرار نہیں دیا، جبکہ اپنے ملک میں تو اس کے بعض اچھے پہلوؤں کو بھی لات مار کر بازیچہ اطفال بنا کر رکھا گیا۔ ملک کو بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا کرنے والی پیپلز پارٹی اسے معاشی مشکلات سے نکالنے کی جو بے چینی ظاہر کر رہی ہے، وہ اس کے ماضی سے ہر گز مطابقت نہیں رکھتی۔ اسی لئے آصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ ماضی کی جانب دیکھے بغیر مستقبل (کس کے مستقبل) کی فکر کرنی چاہئے۔ پڑھے لکھے جاہل ہونے کا ثبوت تو پارٹی کے کئی رہنما اور کارکنان اسمبلیوں اور عوامی جلسوں میں بار بار دیتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ دو تین ارب ڈالر سے کچھ نہیں بنے گا۔ یہ تو ’’ننگی کیا نہائے گی اور کہا نچوڑے گی‘‘ کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا حکومت آئے ہمارے ساتھ بیٹھے اور دولت کمانے کے گر ہم سے سیکھے کہ ہمیں اس کا وسیع تجربہ ہے۔ فی الحال ہمارے پر کئے ہوئے نظر آتے ہیں تو کیا؟ ہماری صلاحیتیں تو باقی ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہیں اور اسے لٹیروں سے بچائے بغیر ترقی و خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

Comments (0)
Add Comment