وزیر خانم سے شہزادہ فخرو کو اولاد نرینہ نصیب ہوئی

پل مارتے ایک سال گزر گیا۔ شادی کا دسواں مہینہ (اکتوبر 1845) ختم ہوتے ہوتے وزیر خانم نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ بچہ صحیح معنی میں چاند کا ٹکڑا تھا۔ نہایت گورا سرخ و سفید رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، چمکیلے سیاہ گھونگھر والے بال۔ لوگوں نے کہا کہ بال اور آنکھیں تو ماں پر ہیں، باقی چہرہ مہرہ عرش آرام گاہ حضرت اکبر شاہ ثانی پر گیا ہے۔ ظل الٰہی ابو ظفر بہادر شاہ تو سانولے رنگ کے تھے، اور مرزا فتح الملک بہادر کا بھی رنگ انہیں کی طرح کا دبتا ہوا تھا۔ لیکن عرش آرام گاہ تو انتہائی خوشرو ہونے کے ساتھ ساتھ ترکوں کی طرح میدہ شہاب رنگت کے تھے۔ خورشید عالم تاریخی اور عرفی نام رکھا گیا۔ شاہی کاغذات میں مرزا خورشید عالم درج ہوا اور خورشید مرزا پیار کا نام قرار پایا۔ ولی عہد سوئم کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ ایک سال میں دو بیٹے انہیں عطا ہوئے۔ خورشید مرزا تو بعد میں آئے، نواب مرزا کو حسب الحکم شاہی اور حسب دلخواہ مرزا غلام فخرالدین بہادر و چھوٹی بیگم، اسی ہفتے حویلی میں بلالیا گیا۔ خاص و عام میں خان خانی کے ساتھ نواب مرزا خان مشہور ہوئے۔ اس حد تک کہ ’’خان‘‘ ان کے نام کا جزو لاینفک بن گیا۔ داغ تخلص پہلے ہی سے معروف تھا۔ اب ’’نواب مرزا خان داغ‘‘ کو دہلی والے مرزا فتح الملک بہادر کے منہ بولے بیٹے اور ہونہار شاعر کے طور پر جاننے لگے۔ آستانہ شاہی سے نواب مرزا خان کے لئے پانچ روپئے در ماہہ مقرر ہوگیا، جو بقدر نصف ہی صرف میں آتا تھا۔ نواب مرزا خان باقی رقم ماں کو دے دیتے۔ وہ اسے ان کے نام سے ایک صندوق میں رکھ چھوڑتی اور موقع موقع سے خیر خیرات کے لئے بھی کام میں لاتی۔ نواب مرزا خان کی تعلیم کا خرچ ولی عہد سوئم کے ذمہ تھا۔
میر غلام حسین شکیبا، شاگرد خدائے سخن میر محمد تقی میر، کے بیٹے مولوی احمد حسین کو نواب مرزا کے لئے عربی اور فارسی کا اتالیق مقرر کیا گیا۔ مشہور زمانہ خوش نویس اور پنجہ کش سید محمد امیر سے نواب مرزا نے خوش نویسی، پنجہ کشی، بانک اور بنوٹ کے درس لئے۔ سید محمد امیر سے بادشاہ سلامت نے بھی بزمانۂ شہزادگی کئی فن حاصل کئے تھے۔ سید محمد امیر یوں تو پنجہ کش کے لقب سے مشہور تھے، مگر ان کے کمالات کی فہرست بہت طویل تھی۔ انہیں خوش نویسی اور پنجہ کشی کے علاوہ کشتی، بانک اور بنوٹ میں استاد کا درجہ حاصل تھا۔ علاوہ ازیں وہ نقاشی، مصوری، لوح نویسی، جدول کشی، صحافی، سنگتراشی اور علاقہ بندی میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔
قلعے میں نواب مرزا خان کی آمد کے چند ہی دن بعد مرزا فخرو نے انہیں خاقانی ہند استاد محمد ابراہیم ذوق کا شاگرد کرادیا۔ شفیق استاد نے داغ تخلص برقرار رکھا اور تھوڑے ہی دنوں بعد کہہ دیا کہ یوں ہی مشق و مطالعہ کرتے رہو۔ بہت جلد تم فارغ الاصلاح ہی نہیں، جہاں استاد بن جاؤ گے۔ داغ نے قلعے کے اندر شہزادوں اور سلاطین زادوں کی نجی محفلوں اور شہر کے خاص خاص مشاعروں میں باقاعدہ شرکت شروع کر دی۔ حویلی کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے داغ کو یہ فائدہ تھا کہ وہ مرزا فخرو سے اجازت لے کر قلعے کے باہر کہیں بھی جا سکتا تھا۔ اس مراعات نے اس کے ادبی اشتغالات کو ترقی تو دی ہی، لیکن اس سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ وقتاً فوقتاً بڑی خالہ کے یہاں جا سکتا تھا اور فاطمہ کے دیدار اور اس کی گفتگو سے دل کو تسلی دے سکتا تھا۔ اس کا جی تو بہت چاہتا تھا کہ ماں سے پوچھے، آپ کا وعدہ کب پورا ہوگا۔ لیکن ہمت نہ پڑتی تھی۔ یہ بات تو اسے معلوم ہوگئی تھی کہ اماں جان نے صاحب عالم و عالمیان سے اس بات کا تذکرہ کر کے ان کی بھی منظوری حاصل کرلی ہے۔ اور یہ بات بھی وہ سمجھتا تھا کہ خورشید مرزا جب تک بہت چھوٹے اور بالکل شیر خوار ہیں، ان کی شادی وغیرہ کے جھنجھٹ پالنے کا سوال نہیں اٹھتا۔ اور یوں بھی اس وقت اس کی دلبستگی اور مطالعے اور تفحص کے لئے قلعے کی دنیا بہت تھی۔
نواب مرزا خان کو ظہیر دہلوی اور قمرالدین راقم کی دوستی کے باعث قلعے کی کچھ تفصیلات معلوم تھیں، لیکن اندر یہ اتنی وسیع دنیا ہوگی، اور چہل پہل اور زندگی اور شاہانہ رسوم و روایات، اور داب و آداب شاہی سے اس قدر بھرپور ہوگی، اس کا اندازہ اسے بالکل نہ تھا۔ ظل سبحانی کے سولہ بیٹوں میں جو انتظامی امور اور معاملات دربار و سلطنت میں سرگرم تھے، ان میں مرزا محمد دارا بخت میراں شاہ بہادر ولی عہد اول، مرزا محمد شاہ رخ بہادر وزیر اعظم و مختار عام، مرزا کیومرث بہادر ولی عہد دوم، اور مرزا محمد سلطان غلام فخرالدین بہادر ولی عہد سوم بطور خاص قابل ذکر تھے۔ بعد کے دنوں میں مرزا ظہیرالدین بہادر عرف مرزا مغل فرزند ششم انتظام و انصرام امور میں بہت آگے ہوگئے تھے۔ ان سب شاہزادوں کے اپنے دربار لگتے تھے، جو دربار شاہی کے نمونے پر، البتہ بہت مختصر پیمانے پر منعقد ہوتے تھے۔ خود ظل الٰہی کے دربار کو اورنگ زیبی و شاہجہانی دربار کیا، فردوس آرام گاہ محمد شاہ بادشاہ غازی کے دربار سے بھی کچھ نسبت نہ تھی۔ منشی فیض الدین نے جشن کے ایک دربار کا عمومی حال یوں بیان کیا ہے:
’’دیکھو، سب امرا نقار خانے کے دروازے پر سے اتر کر پیدل دیوان عام میں چلے آتے ہیں۔ یہ پہلی آداب گاہ ہے۔ دیوان عام میں جالی کے دروازے میں دیکھنا، کیسی موٹی سی لو ہے کی زنجیر اڑی پڑی ہوئی ہے کہ آدمی سیدھا نہیں جاسکتا، سب جھک جھک کر زنجیر کے نیچے سے جاتے ہیں۔ یہ دوسری آداب گاہ ہے۔ اے لو! دیوان خاص کے دروازے پر کیا بڑا سا پردہ لال بانات کا کھنچا ہوا ہے۔ یہ لال پردہ کہلاتا ہے۔ مردہے، پیادے، دربان، سپاہی، قلار۔ ہاتھوں میں لال لال لکڑیاں لئے کھڑے ہیں۔ جو کوئی غیر اندر جانے کا ارادہ کرے تو قلار وہی لال لکڑی انکڑے دار گردن میں ڈال کر نکال دیتے ہیں۔ لال پردے کے پاس کھڑے ہوکر پہلے مجرا کر کے کہ یہ تیسری آداب گاہ ہے، پھر دیوان خاص میں تخت کے سامنے آداب بجالا کر اپنی اپنی جائے پر کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔
دیوان خاص میں بیچوں بیچ میں سنگ مرمر کے ہشت پہلو چبوترے پر تخت طاؤس لگا ہوا ہے۔ اس کے آگے دلدار پیش گیر کھنچا ہوا ہے۔ چاروں طرف تین تین در کیسے خوش نما محرابوں کے ہیں۔ گرد کٹہرا، پشت پر تکیہ، آگے تین سیڑھیاں، اوپر بنگلے نما گول چھت محراب دار، اس پر سونے کی کلسیاں۔ سامنے محراب، دو مور آمنے سامنے موتیوں کی تسبیحیں منہ میں لئے ہوئے کھڑے ہیں۔ دو خواص ہما کے مورچھل لئے اہلو پہلو میں کھڑے ہیں۔ پیچھے جائے نماز بچھی ہے۔
معتبر الدولہ اعتبارالملک بہادر وزیر، عمدۃ الحکما حاذق زمان احترام الدولہ بہادر، راجا مرزا بہادر، راجا بہادر، میر عدل بہادر، میر منشی دارالانشائے سلطانی، میر توزک، وغیرہ اپنے اپنے مرتبے اور قاعدے سے دونوں ہاتھ جریب پر رکھے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔
دیوان خاص کے صحن میں ایک طرف خاصے کے گھوڑے، چاندی کے ساز لگے ہوئے، ایک طرف ہاتھی، مولا بخش، خورشید گنج، چاند مورت وغیرہ، رنگے ہوئے ماتھوں پر فولاد کی ڈھالیں سونے کے پھولوں کی، کانوں میں ریشم اور کلابتون کے گچھے اور لڑیاں، کار چوبی جھولیں پڑی ہوئیں، ایک طرف ماہی مراتب، چتر، نشان، روشن چوکی والے، جھنڈیوں والے، ڈھلیت، جمے کھڑے ہیں۔ حبشی، قلار، چاندی کے شیر دہاں سونٹے، خاص بردار بندوقیں لئے ہوئے، کٹہرے کے نیچے کھڑے ہیں۔
…بادشاہ برآمد ہوئے۔ نقیب چوبدار پکارے، ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم! اللہ رسول کی امان! دوست شاد دشمن پائمال، بلائیں رد!‘‘۔ کہاروں نے جھٹ ہوا دار کہاروں سے لے لیا۔ پہلے بادشاہ نے تخت کے پیچھے اتر کر نماز کی دو رکعتیں کھڑے ہوکر پڑھیں، دعا مانگی، پھر ہوادار میں سوار ہوئے۔ کہاروں نے ہوادار تخت طاؤس کے برابر لگادیا۔ بادشاہ نے تخت پر جلوس فرمایا۔ جھنڈیاں ہلیں، دنادن توپیں چلنے لگیں۔ سب فوج نے اسلامی اتاری۔ شادیانے بجنے لگے۔ گوہر اکلیل سلطنت، مہین پور خلافت، ولی عہد بہادر بائیں طرف تخت کے، اور شاہزادگان نامدار، والا تبار، قرۃ باصرۂ خلافت، غرۂ ناصیہ سلطنت، دائیں طرف تخت کے برابر، امیر امرا کے آگے کھڑےہوئے‘‘۔ ٭

Comments (0)
Add Comment