اُلٹی گنتی شروع ؟؟؟

 

امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے کیسی کھری بات ارشاد فرمائی تھی کہ جب کسی شخص کو طاقت اور اقتدار ملتا ہے تو وہ بدلتا نہیں، بلکہ بے نقاب ہو جاتا ہے… اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کے چہرے پر پڑے سارے نقاب پیاز کے چھلکوں کی طرح اترتے جا رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں پاکستانی قوم کو جب ریاست مدینہ کا سبز باغ دکھایا تو سادہ لوح قوم خوشی سے جھوم اٹھی۔ لیکن وہ خوشی اگلے ہی پل اُس وقت کافور ہو گئی، جب قوم کو پتا چلا کہ وزیر اعظم اپنے اقتصادی مشیروں میں عاطف میاں نامی ایک قادیانی کو بھی شامل کر رہے ہیں۔ جبکہ اسلامی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ریاست مدینہ میں مسلمانوں کے بدترین جانی دشمن کو پناہ اور معافی مل جاتی تھی، لیکن مرتد اور گستاخ رسول کے لئے معافی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا چہ جائیکہ کسی مرتد اور گستاخ کا سربراہ ریاست کے مشیر کے طور پر تقرر۔ فتح مکہ کے موقع پر ریاست مدینہ کے سربراہؐ نے اعلان فرمایا کہ جو کعبہ شریف میں داخل ہو جائے، جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے، جو اپنے گھر کے کواڑ بند رکھے، جو اسلامی لشکر کے مقابلے میں ہتھیار نہ اٹھائے، ان سب کے لیے عام معافی ہے۔ لیکن اس اہم ترین تاریخی موقع پر بھی حضور اقدسؐ نے گستاخوں کو معاف نہیں کیا، بلکہ ان کے لئے حکم صادر فرمایا کہ گستاخ اگر کعبہ کے غلاف کے پیچھے بھی چھپے ہوں تو وہیں ان کی گردن مار دی جائے اور ایسا ہوا بھی۔ اگر عمران خان کی حکومت یہیں پر اپنے قدم روک لیتی تو شاید اس کو سونپے گئے ایجنڈے پر کچھ نہ کچھ پردہ پڑا رہتا۔ لیکن عاطف میاں کی تقرری کے معاملے پر اٹھنے والی گرد ابھی ٹھیک طرح سے بیٹھی نہ تھی کہ پی ٹی آئی کے بیرسٹر حماد اظہر پارلیمنٹ میں یہ بل لے آئے کہ جو شخص توہین رسالت کا جھوٹا مقدمہ درج کرائے تو اس مدعی کو بھی پھانسی پر لٹکایا جائے۔ واہ صاحب واہ! شاید بیرسٹر صاحب کو کسی سیانے نے یہ بتایا نہیں ہو گا کہ قانون توہین رسالت کو غیر مؤثر بنانے کا یہ پرانا حربہ ہے کہ جس کا راگ اس قانون کی مخالف قوتیں اکثر الاپتی رہتی ہیں۔ مذکورہ قوتیں اکثر یہی دہائی دیتی ہیں کہ قانون توہین رسالت کا استعمال غلط ہوتا ہے۔ یہ عجیب دلیل ہے۔ اگر کسی قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہو تو کیا وہ قانون ختم کر دینا چاہئے یا اس قانون کے غلط استعمال کو روکنا چاہئے؟ کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ غلط استعمال تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کا ہوتا ہے۔ قتل کا جرم کسی ایک شخص سے سرزد ہوتا ہے اور لوگ اپنی دشمنیاں نمٹانے کے لیے قتل کا مشورہ دینے، ملزم کو آلہ قتل فراہم کرنے، بوقت ِ جرم ملزم کو طیش دلانے اور لاشوں کے گرد بھنگڑا ڈالنے جیسے نام نہاد الزامات کے تحت درجن بھر لوگوں کے نام ایف آئی آر میں درج کرا دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اصل قاتل کے ہمراہ کئی بے گناہ گھرانے اس اندھے قانون کی چکی میں برس ہا برس تک پِستے رہتے ہیں۔ کیا کبھی کسی حماد اظہر کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے خاتمے کے لیے بھی پارلیمنٹ میں آواز اٹھائے۔ تو پھر قانون توہین رسالت کے بارے میں ہی یہ پھرتیاں کیوں؟ اب ذرا آگے چلیے۔
تحریک انصاف مع ہمنوا نواز شریف حکومت کے خلاف سارا زور لگا کر دیکھ چکی تھی۔ پی ٹی آئی اسلام آباد میں طویل دھرنا دے کر، پی ٹی وی کی عمارت پر چڑھائی کرکے، سیاسی مخالفین کے خلاف کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان استعمال کرکے، سول نافرمانی کا اعلان کرکے، بجلی کے بل جلا کر اور بڑے شہروں کو لاک ڈائون کرکے بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکی، بلکہ عملی طور پر اتنی کمزور نکلی کہ کچھ عرصہ پہلے پی ٹی آئی کی طرف سے اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کی کال پر پنجاب پولیس کا ڈنڈا ذرا سا حرکت میں آیا تو پی ٹی آئی کی قیادت کارکنوں کو پولیس کے ڈنڈے کھانے کے لیے تنہا چھوڑ کر خود بنی گالا میں ڈنڈ بیٹھکیں ہی نکالتی رہ گئی۔ لیکن پھر حلف نامے میں ترمیم کا معاملہ سامنے آ گیا اور بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق پی ٹی آئی اور اس کی ہمنوا قوتوں نے اس ایشو کو مسلم لیگ (ن) کے خلاف خوب استعمال کیا۔ انتخابی مہم کے دوران میں شیخ رشید احمد اور عامر لیاقت حسین تو باقاعدہ اپنے پوسٹر ز اور بینرز پر محافظ ختم نبوت لکھواتے رہے۔ یار لوگوں نے تو غازی ممتاز قادریؒ کے گھرانے کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اقتدار ملتے ہی پی ٹی آئی کے چہرے سے نقاب اتر گیا اور پوری قوم نے دیکھ لیا کہ عمران خان اینڈ کمپنی ختم نبوت کے کتنے بڑے محافظ ہیں۔ قوم کے ساتھ اس سے بڑا دھوکہ اور کیا ہو گا۔
اور اب آسیہ مسیح کیس کے فیصلے نے تو حکومت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ ویسے حکومت کے چہرے سے آسیہ مسیح والا نقاب تو اسی روز اترنا شروع ہو گیا، جب پی ٹی وی پر ’’مریم پریرا‘‘ نامی ڈرامہ چلنا شروع ہوا، جس میں مسیحی اقلیت کو مظلوم بنا کر دکھایا جا رہا ہے۔ حالانکہ اگر سچی بات کی جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان درحقیقت اقلیتوں کی جنت ہے۔ اگر اقلیتوں کی جنت نہ ہوتی تو حاضر سروس وزیر اعظم 31 اکتوبر کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے آسیہ مسیح کی رہائی پر سراپا احتجاج غالب اکثریت کو چھوٹی سی اقلیت ہونے کا طعنہ نہ دیتے۔ آسیہ مسیح کی بریت کے بعد رہی سہی کسر 31 اکتوبر کی شام وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے خطاب نے نکال دی۔ جو باتیں نہ کہنے والی تھیں، وہ بھی انہوں نے اپنے خطاب میں کہہ دیں۔ ان کی ہمنوا قوتیں یہ سوچتی تو ہوں گی کہ یارب! ایسی چنگاری بھی اپنی خاکستر میں تھی۔ کاش کوئی حکومتی سیانا وزیر اعظم کو یہ بتا دے کہ عالی جناب! یہ ملک ہے آپ کی کرکٹ ٹیم نہیں، جسے آپ آمرانہ طریقے سے چلایا کرتے تھے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی ان حساس ایشوز پر جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، جس کے باعث ملک میں بے چینی اور انتشار مزید بڑھ سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو اس بات کا ادراک کیوں نہیں ہو رہا کہ ملک اس وقت آتش فشاں پر کھڑا ہے، جو کسی بھی وقت لاوا اگل سکتا ہے اور عالمی استعماری قوتیں تاک میں ہیں کہ کب پاکستان میں بھی شام، عراق اور یمن والی صورتحال پیدا کی جائے۔ انہوں نے 28 مئی 1998ء کے بعد پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی بدلتے ہوئے یہاں بدامنی اور تخریب کاری کو ہوا دی۔ توانائی کا بحران پیدا کیا۔ خوراک کا ایسا بحران پیدا کیا کہ پرویز مشرف دور کے آخری ایام میں لوگ آٹے کی خاطر باہم دست و گریبان نظر آتے تھے۔ مذہبی سطح پر بعض کرائے کے ٹٹوئوں کے ذریعے آگ بھڑکانے کی جو سعی نامشکور کی گئی، وہ اس پر مستزاد تھی۔ ان اقدامات کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکا جائے۔ پی ٹی آئی کے سیانوں کو سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ عالمی استعماری قوتوں کے اس دیرینہ ناپاک ایجنڈے کی تکمیل کے لیے راہ ہموار تو نہیں کر رہے۔ کیونکہ اگر پی ٹی آئی حکومت اسی طرح حساس معاملات کو چھیڑتی رہی اور بعض باخبر حلقوں کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے خدشے کے مطابق قانون توہین رسالت اور ختم نبوت ترمیم سے بھی چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو پھر صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا، کیونکہ مسلمان خواہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو، لیکن وہ حضور اقدسؐ کی ختم المرسلینی اور ناموس پر کبھی بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا، کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر اک قدم پہ اس میں ضروری ہے احتیاط عشقِ بُتاں نہیں، یہ عشق رسولؐ ہے اور لے سانس بھی آہستہ یہ دربارِ نبیؐ ہے خطرہ ہے بہت سخت یہاں بے ادبی کا ایک بات طے ہے کہ جس نے حضور اقدسؐ کی ختم المرسلینی اور ناموس رسالت سے غداری کی، اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ ماضی قریب کی بہت بڑی مثال ہمارے سامنے ہے۔ نواز شریف حکومت اچھی بھلی چل رہی تھی۔ سول اور عسکری ادارے ایک صفحے پر تھے۔ حکومت کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن پھر اچانک حکومت نے غازی ممتاز قادریؒ کو پھانسی دے دی اور پھر نواز شریف حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو گئی۔ ایک ماہ بعد ہی پانامہ اسکینڈل سامنے آگیا اور پھر جیسے تسبیح ٹوٹ گئی اور دانے بکھرتے چلے گئے۔ وہی نواز شریف اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اپنے اہلخانہ سمیت جے آئی ٹی کے سامنے پیشیاں بھگتتے رہے۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے اس قصے میں بڑا سبق پنہاں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آسیہ مسیح کی رہائی کے ساتھ ہی عمران خان حکومت کا بھی کائونٹ ڈائون شرو ع ہو چکا ہو؟؟
مرحوم جنرل حمید گلؒ کی تربت پر خدا اپنی رحمتیں نازل فرمائے، فرمایا کرتے تھے کہ تاریخ یہ بتاتی ہے اور میرا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ ناموس رسالت کے معاملے میں جس شخص سے کوئی جرم سرزد ہوا، یا جس شخص نے توہین رسالت کے مجرم کا ساتھ دیا یا پھر اس معاملے میں غفلت برتی، وہ شخص مرنے سے پہلے رسوا ضرور ہو گا۔

Comments (0)
Add Comment