ملک کو عدم استحکام سے بچائیں!

توہین رسالت کے الزام میں قید آسیہ مسیح کی عدالت عظمیٰ سے بریت کے فیصلے نے ملک کے اکثریتی طبقے کو سخت اضطراب سے دو چار کر رکھا ہے۔ اس فیصلے کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ جس سے ملک عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ننکانہ کے گائوں اٹاں والی سے تعلق رکھنے والی آسیہ نامی اس مسیحی عورت پر الزام تھا کہ 2009ء میں اس نے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف سخت توہین آمیز کلمات کہے۔ استغاثہ کے مطابق اس نے عوامی پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کا اعتراف کیا۔ بعد ازاں اس کے خلاف توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ ایک برس بعد ننکانہ کی سیشن عدالت نے آسیہ کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی ملزمہ بن گئی۔ اس نے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014ء میں عدالت نے سزا کی توثیق کر دی۔ پھر جنوری 2015ء میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آسیہ کی سزا کے خلاف درخواست پر ابتدائی سماعت جولائی 2015ء میں شروع کی اور حتمی فیصلے تک سزا پر عمل درآمد روک دیا۔ سپریم کورٹ میں دفعہ 295 سی کے تحت یہ پہلا مقدمہ تھا۔ گزشتہ ماہ کی آٹھ تاریخ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے آسیہ مسیح کو بری قرار دیتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم دیدیا۔ اس عدالتی فیصلے کا تعلق چونکہ توہین رسالت کی ملزمہ کی بریت کے ساتھ ہے، اس لئے ملک بھر میں اس سے ہیجان، انتشار اور غم و غصے کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اسی شام وزیر اعظم عمران خان کی تقریر نے گویا جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام دیا اور اگلے روز مشتعل افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ کاروبار زندگی معطل ہو گیا اور مختلف جگہوں پر دھرنے شروع ہوگئے۔ جمعرات کو جزوی اور جمعہ کو مذہبی جماعتوں کی کال پر مکمل شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ اس دوران وزیر اطلاعات چوہدری فواد کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے بھی اشتعال میں اضافہ کیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر بہت سے قانونی ماہرین نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے ججوں سے غلط فیصلہ صادر ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ جس پر قانون کے دائرے میں احتجاج کرنا بھی جمہوری حق ہے۔ لیکن مذہبی طبقے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ مروجہ قانونی اور عدالتی نظام سے یکسر لاتعلق رہتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ عدالتی جنگ کو مؤثر اور بھرپور طریقے سے لڑا جائے۔ تگڑے سے تگڑے وکلا کی خدمات حاصل کی جائیں، بلکہ ماہر وکلا کا پورا پینل تشکیل دیا جائے۔ یہ اسلامی ملک ہے، جس کا سپریم لا قرآن و سنت ہے اور جج صاحبان بھی مسلمان ہیں۔ لیکن انہیں شواہد و ثبوت کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اب یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزم کے خلاف ناقابل تردید ثبوتوں کے ذریعے اپنے دعوے کو مدلل اور مضبوط بنائے۔ اسی صورت میں فیصلہ ان کے حق میں آسکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بجائے قانونی جنگ مؤثر طریقے سے لڑنے سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔ پھر عدالت ناکافی ثبوتوں کی بنا پر ان کی توقعات کے برعکس کسی ملزم کو بری قرار دے دیتی ہے تو احتجاج کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور طاقت کے ذریعے فیصلہ تبدیل کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگرچہ احتجاج کا حق قانون ہر شہری کو دیتا ہے، مگر شروع سے توجہ دی جائے تو اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ یہ آسیہ مسیح کیس میں ہی نہیں، دیگر مقدمات میں بھی ہوتا رہا ہے۔ دو ہزار دو سے سود کا معاملہ عدالت میں لٹکا ہوا ہے۔ مگر مذہبی طبقے نے اس میں کوئی مؤثر حصہ نہیں ڈالا۔ کل اگر عدالت نے سود کے حق میں فیصلہ دیدیا تو پھر وہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ مذہبی طبقے کو اس بنیادی نکتے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
وطن عزیز جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے، اس کے پیش نظر حکومت کو تحمل، برداشت اور حکمت وتدبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ معاشی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ستاون ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا حجم صرف اکیس ارب ڈالر رہ گیا ہے اور اس میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ بڑھتی مہنگائی سے بھی عوام پریشان ہیں۔ اس سے قبل قادیانی عاطف میاں کے مسئلے کو حکومت نے انتہائی مدبرانہ انداز میں حل کر لیا تھا۔ اس لئے لوگوں کے مذہبی جذبات کا خیال کرتے ہوئے حکومتی زعما کو بھی دھمکی کے بجائے حکمت سے کام لینا چاہئے۔ لیکن اب تک یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک عورت کیلئے پورے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ بلاشبہ حکومتی رٹ قائم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس مقصد کیلئے طاقت کا جب بھی استعمال کیا گیا ہے، اس کے مہلک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ طاقت کے استعمال سے تحریک کو کچلنا کچھ مشکل نہیں کہ نہتے عوام گولیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اس سے مسئلہ دب جائے گا، حل نہیں ہوگا۔ 1953ء میں اٹھنے والی ختم نبوت تحریک بھی پھانسی و عمر قید کی سزائوں کے زور اور گولیوں کی بوچھاڑ سے پر دبا دی گئی تھی۔ لیکن اندر ہی اندر پکنے والا یہ لاوا 1974ء میں جب پھٹا تو اسے روکنا کسی کے بس میں نہ رہا۔ پھر یہ انتہائی حساس نوعیت کا مذہبی معاملہ ہے، جسے حل کرنے کیلئے غیر معمولی دانشمندی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اسے ناک کا مسئلہ ہرگز نہیں بنانا چاہئے۔ چونکہ فیصلہ اعلیٰ عدالت نے دیا ہے، اس لئے اسے کسی ماتحت عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کو چاہئے کہ عوام کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے خود سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کرے۔ عدالت عظمیٰ اس مسئلے کو شرعی عدالت بھی بھیج سکتی ہے اور اس پر تحقیقاتی کمیشن بھی بنا سکتی ہے۔ امید ہے کہ حکومت دانشمندی کا ثبوت دے کر ملک کو بحران کا شکار ہونے سے بچائے گی۔ حالیہ چند روز کے دوران پیش آنے والے واقعات سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ تاک میں بیٹھا دشمن موقع سے فائدہ اٹھانے میدان میں اتر چکا ہے۔ ایک طرف مظاہرین کی آڑ میں توڑ پھوڑ کرکے املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور دوسری طرف فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ جبکہ جمعہ کی شام کو ممتاز عالم دین اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو شہید کر دیا گیا۔ مولانا سمیع الحق بزرگ سیاست دان ہونے کے ساتھ ملک کی ایک بڑی دینی درس گاہ کے مہتمم اور ہزاروں علماء کے استاذ بھی تھے۔ یقیناً اس اندوہناک سانحے کے ملکی حالات پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ ان حالات سے نمٹنا اور ملک کو نقصان سے بچانا محب وطن عوام، مقتدر اداروں اور حکومت کیلئے بڑا امتحان ہے۔

Comments (0)
Add Comment