بہکی باتیں

’’جعلی اکاؤنٹ یا کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ پہلے اکیلا تھا، اب بلاول میرے ساتھ ہے۔ اگر فالودے، برفی اور رکشہ والے کے اکاؤنٹ میں پیسے رکھوائے ہیں، تو میری مرضی۔ بے نظیر، میر مرتضیٰ، شاہنواز اور ذوالفقار علی بھٹو کو مخصوص ذہنیت نے شہید کیا۔ اس ذہنیت کے خلاف لڑنا ہے۔ عمران خان بھی اسی ذہنیت کو للکار رہا ہے، مگر وہ لڑنا نہیں جانتا۔ ایان علی بھی بھلے وعدہ معاف گواہ بن جائے۔ کس بات پر وعدہ معاف گواہ بن سکتی ہے؟ اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ بھلے آئے اور مجھے گرفتار کیا جائے۔ دبئی سے اسلم مسعود کو لانا چاہتے ہیں، بسم اللہ بھلے لایا جائے۔ سنا ہے وہ ڈائلیسز پر ہے۔ دل کا مریض ہے۔ بلڈ کینسر میں مبتلا ہے۔ ہم اب تک امریکہ کو سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کوئی تو مدد کر رہا ہے، جس نے سعودی عرب سے پیسے دلائے، اب چین سے دلا رہا ہے اور پھر ابو ظہبی سے دلائے جائیں گے۔ ہم کب تک ایک دوسرے پر الزامات لگائیں گے اور ایک دوسری کی داڑھی نوچیں گے؟ ججوں کی تنخواہ بڑھائی جائے۔ معاشی ماہرین سے بھی مشورہ کیا جائے۔ نیب کے ذریعے کسی کی عزت خراب نہ ہو۔ وہ لے جاتے ہیں اور نوے دن تک جوتے مارتے ہیں، پھر وہ خود کہتا ہے کہ میں ہاتھی ہوں!!‘‘
ایسی متضاد اور بہکی ہوئی باتیں اس شخص کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے جو ہر روز اپنے اوپر آتے ہوئے احتساب کی زنجیر کا شور سنتا رہتا ہے۔ جس کو اب یقین ہو چکا ہے کہ کسی بھی وقت اس کے کمرے کے دروازے پر احتساب کے ہاتھ دستک دے سکتے ہیں اور اسے کہہ سکتے ہیں ’’دس منٹ میں تیار ہو جائیں۔‘‘ وہ شخص جس کے بارے میں سینئر صحافیوں کا اب بھی یہی مؤقف ہے کہ اگر آسیہ کیس کے فیصلے کے باعث بحران پیدا نہ ہوتا تو عوام کو اس شخص کے گرفتار ہونے کے بارے میں خبر ملتی۔ وہ شخص گرفتار ہونے سے کل بھی ڈرتا تھا اور گرفتار ہونے سے آج بھی ڈرتا ہے۔ حالانکہ وہ کہتا ہے کہ جب کل اس کو قتل اور منشیات کے کیس میں گرفتار کیا گیا، تب اس کے چہرے پر پریشانی نہ تھی تو اب کیوں ہوگی؟ حالانکہ وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اس کے کل اور آج میں ایک درجن برسوں کا فرق ہے اور وہ ایک درجن برس جب پچاس کی دہائی میں آجاتے ہیں، تب ان کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جیل کو برداشت کرنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ عمر کا تعلق طاقت اور صحت سے ہوتا ہے۔ جب انسان کمزور پڑ جاتا ہے، تب اس میں وزن اٹھانے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ پھر وہ وزن کسی غم کا ہو یا کسی صنم کا ہو یا کسی چشم نم کا ہو۔ ایک عمر میں تنہائی اتنا تنگ نہیں کرتی اور ایک عمر میں انسان بھیڑ میں تنہا ہو جاتا ہے۔ وہ شخص اپنے عزم کا اظہار کر رہا ہے یا اپنا حوصلہ بڑھا رہا ہے، مگر اس شخص کی باتوں میں نہ تسلسل ہے اور نہ توانائی۔ اس کی باتیں ایسی ہیں جیسے کوئی اپنی ہمت بڑھا رہا ہو۔ جیسے کوئی خود کو تسلی دے رہا ہو۔ جیسے ڈوبتے شخص کو تنکے کو سہارا۔ جیسے تنکے پر ڈوبتے ہوئے شخص کا بوجھ۔
وہ شخص جو ہر عدالتی شنوائی پر میڈیا کے سامنے ضرورت سے زیادہ مسکراتا ہے۔ اس کی مسکراہٹ کے پیچھے اس کی پریشانی پھر بھی چھپ نہیں پاتی۔ مگر اس کے دوستوں کے حلقے میں ایسا کوئی بے تکلف دوست باقی نہیں بچا جو اس کے سامنے جگجیت سنگھ کی یہ غزل گنگنائے کہ:
’’تم اتنا جو مسکرا رہے ہوکیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو؟‘‘
اس کا غم کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ بڑھاپے میں جیل ٹارچر سیل بن جاتی ہے۔ بھلے اس جیل میں ’’پسند کا کھانا‘‘ اور ’’پسند کا پینا‘‘ نصیب ہو۔ یہ عمر ویسے بھی کھانے پینے والی نہیں ہے۔ یہ عمر پریشان ہونے اور پریشانی پر مسکراہٹ کا پردہ ڈالنے والی ہے۔ یہ وہ عمر ہے جس عمر میں ضمیر کی خلش بڑھ جاتی ہے۔ اس عمر میں ادیب اور دانشور زندگی کی کہانی بیان کرتے ہوئے اعترافات کرتے ہیں اور دل سے بوجھ ہٹاتے ہیں۔ اس عمر میں پریشانی برف پر دھوپ بن جاتی ہے۔ یہ عمر سکون کے ساتھ سونے کی ہے، حالانکہ اس عمر میں نیند بہت کم آتی ہے۔
یہ عمر بذات خود اسیری ہوتی ہے اور اس عمر میں اسیری زیادہ اذیت کا سبب بنتی ہے، مگر پھر بھی وہ شخص گزشتہ ایک ہفتے سے اپنی گرفتاری کی پیش گوئی کر رہا ہے اور اس بات پر خوش بھی ہو رہا ہے کہ اس کی پیش گوئی اب تک درست ثابت نہیں ہوئی، مگر پھر وہ یہ سوچ کر زیادہ پریشان ہو جاتا ہے کہ کب تک؟ اس کے سامنے میاں نواز شریف کی مثال بھرپور انداز سے ابھر کر آجاتی ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ اگر اتنی بڑی اس قدر منظم پارٹی کا رہنما اپنی بیٹی کے ساتھ جیل میں جا سکتا ہے تو پھر وہ کیوں نہیں؟ وہ جس نے کچھ عرصہ قبل احتساب کے اداروں کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی یہ مجال نہیں ہو سکتی کہ وہ اس پر مقدمے قائم کریں، مگر جب اس پر مقدمات قائم ہوئے اور اس سے پہلے اس کے وہ ساتھی گرفتار ہوئے، جن کو اس کے مالی معاملات کا پورا پتہ تھا، تب وہ گرفتار کرنے والوں کا انتظار کرنے لگا۔ وہ انتظار بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، جس انتظار کی منزل بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔ اس کیفیت کو دوستو وسکی نے اپنے ایک ناول میں بھرپور انداز میں بیان کیا ہے۔ اپنی گرفتاری کا انتظار کرتے وہ اس قدر گھبرا گیا ہے کہ اس کی باتوں کا تسلسل بار بار ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی باتیں بہکی بہکی سی محسوس ہوتی ہیں۔
کیا اس کی یہ باتیں بہکی ہوئی نہیں ہیں کہ بھٹو خاندان کو ایک ذہنیت نے قتل کیا۔ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کی ساری قیادت بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام انتہا پسندوں پر عائد کرتے رہے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی، تب انتہا پسندی کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ یہ خود کش حملے اور یہ شدت پسندی اس وقت کہاں تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کے چھوٹے بیٹے کا قتل فرانس میں ہوا تھا؟ جب میر مرتضیٰ بھٹو اپنے گھر کے سامنے قتل کیا گیا تب بھی تنگ نظری کا دور نہیں تھا۔ پھر وہ کون سی ذہنیت ہے، جس نے بھٹو خاندان کے چار افراد کا قتل کیا؟ اس سوال کا جواب اس شخص کے پاس کس طرح ہو سکتا ہے جس شخص پر ابھی یہ الزام عائد نہیں ہوا کہ اس نے فالودے یا رکشہ والے کے اکاؤنٹ میں پیسے رکھوائے، مگر پھر وہ وہ یہ کہتا ہے کہ اگر اس نے ان اکاؤنٹ میں پیسے رکھوائے بھی ہیں تو اس کی مرضی ہے۔ پھر وہ کچھ سوچ کرکہتا ہے کہ اس پر عائد ہونے والے الزام کو ثابت کیا جائے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اگر کسی کے نام میں کوئی جعلی اکاؤنٹ چل رہا ہے تو وہ اس کا قصور ہے اور اکاؤنٹ کھولنے والے بینک افسر کا قصور ہے۔
قصور کس کا ہے اور سزا کس کو ملے گی؟ اس سوال پر سوچتے ہوئے پریشان ہونے والا شخص ایک پل یہ کہتا ہے کہ وہ جعلی اکاؤنٹ کیس میں گرفتار ہونے کے لیے تیار ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ اس وقت بھی گرفتار ہونے سے نہیں گھبراتا تھا جب وہ تنہا تھا، اب تو اس کے ساتھ اس کا جوان بیٹا ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ اس بات پر نہیں سوچتا کہ وہ اس دور کو اپنی تنہائی کا دور کیوں کہتا ہے، جب اس کی اہلیہ اور پاکستان کی سب سے طاقتور رہنما اس کے ساتھ تھی۔ مگر بہکی ہوئی باتیں صرف مقصد کو دیکھتی ہیں۔ ان باتوں سے منطق چھوٹ جاتی ہے۔ جب بات کا تعلق منطق سے قائم نہیں رہتا، تب ضرورت سے زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایسے اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اگر ایان علی کو سلطانی گواہ بنانے کے لیے لایا جاتا ہے تو اس کو کوئی پروا نہیں۔ ایان علی سلطانی گواہ بن کر کون سی گواہی دے گی؟ اس سوال سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایان علی کو سلطانی گواہ بنایا جا رہا ہے؟ اگر وہ سلطانی گواہ بن گئی تو پھر اس کے پاس بتانے کو بہت کچھ ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ ایان علی کے بیان میں کوئی اور کہانی ہو، مگر اعترافات تو عزیر بلوچ نے بھی بہت کیے ہیں۔ وہ ساری کہانیاں منظر عام پر آنے کے لیے کس وقت کی منتظر ہیں؟ مگر کیا ایسی کہانیاں قانونی حوالے سے قوت رکھتی ہیں؟ ہم بہت ساری کہانیاں سنتے ہیں۔ وہ کہانیاں جو سچی بھی ہوتی ہیں، مگر وہ کہانیاں سیاسی افسانے بن کر بے اثر بن جاتی ہیں، جب قانون ان افسانوں کو حقیقت ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ہم بنیادی طور پر قانون کی کمزوری کے باعث کرپشن کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ جب قانون طاقتور ہوگا، تب کوئی قانون سے کھیلنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس وقت تک قانون سیاسی کھیل کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس میدان میں وہ لوگ کھیل رہے ہیں، جو ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں آپس کی دشمنی ترک کرنی چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ آخر کب تک وہ احتساب کے ہاتھوں میں بے بس ہوتے رہیں گے؟ جب قانون کا میدان کرپشن کرنے والے سیاسی کھلاڑیوں کے قبضے میں ہو تو پھر کوئی سزا کی پروا کیوں کرے؟ سیاست کے کرپٹ کھلاڑی اپنی مرضی اور اپنے مفاد کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ جب وہ کھیل کھیلا جاتا ہے تب اس کی کمنٹری ایسی بہکی ہوئی باتوں جیسی ہوتی ہے، جیسی بہکی باتیں ایک فرد یا انتہائی خوشی میں کرتا ہے یا انتہائی پریشانی میں!
وہ اس وقت کس ذہنی کیفیت میں ہے؟
اس سوال کا جواب معصوم بچہ بھی دے سکتا ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment