لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
ہر معاشرے کے دولت مند افراد اپنے معاشرے کے غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس طرح تمام اقوام عالم بھی کرتی ہیں۔ بڑی قومیں چھوٹی قوموں کا استحصال کرتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ’’پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات‘‘ شاید انسان کا مقدر یہی ہے۔ اُمرا پسند نہیں کرتے کہ کوئی غریب دولت کی دوڑ میں ان سے آگے نکل جائے۔ اقوام عالم بھی یہی کرتی ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے (1945) کے بعد امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ثابت ہوا۔ روس نے مقابلے کی کوشش کی، لیکن مات کھا گیا۔ اب چین ترقی کی دوڑ میں امریکہ کا حریف ثابت ہو رہا ہے۔ امریکہ اسے گھیرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین کے پاس باہر کی دنیا سے رابطے کے دو راستے ہیں۔ پہلا جنوبی سمندر، امریکہ اس راستے کو بلاک کر سکتا ہے۔ دوسرا راستہ خشکی کا پاکستان کے ذریعے ہے۔ لیکن اس کے لئے ایک بہت بڑی سڑک گلگت اور بلوچستان کے راستے بنانا پڑے گی۔ جس کا مختصر نام سی پیک ہے۔ یہ منصوبہ نواز شریف کے دور میں پروان چڑھا۔ اگرچہ راستہ چین کے تزویراتی (Strategic) ضرورت ہے۔ لیکن نواز شریف حکومت نے یہ تاثر دیا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے حق میں نعمت ربانی ہے اور نواز شریف کی مدبرانہ قیادت کا ثمر ہے۔ ان کے دور میں اس منصوبے پر کھل کر بحث نہیں ہو سکتی تھی۔ صرف ایک بہادر صحافی نے اس منصوبے پر کچھ تحقیق کی۔ لیکن وہ بارگاہ سلطانی میں معتوب ٹھہرے۔ اس منصوبے کے شروع میں ضرورت کے مطابق صنعتی زون، ضروری عمارات، مواصلاتی انتظامات، میڈیکل، حفاظتی بندوبست پانی، بجلی (Infrastructer) بنانے تھے۔ منصوبہ اچھا ہے۔ لیکن نواز شریف کے تدبر کا مرہون منت نہیں۔ منصوبے میں فوائد کا جھکاؤ چین کے حق میں ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ کار اس منصوبے پر سرمایہ کاری کریں۔ لیکن سرمایہ کاروں کا ذہن بہت صاف ہوتا ہے۔ وہ کسی ایسے منصوبے میں سرمایہ کاری نہیں کرتے، جہاں منصوبے کو کوئی خطرہ ہو۔ منصوبے کا معاہدہ شفاف نہ ہو، سیاسی مضمرات بہت زیادہ ہوں (جیسے پاکستان میں ہیں) وہ اپنا سرمایہ صرف ان ممالک میں لگاتے ہیں، جہاں یہ محفوظ ہو۔ اور اس کے تیزی سے بڑھنے کے امکانات ہوں۔ انہیں یقین ہو کہ طویل مدت تک حکومت اس کی پشت پر کھڑی رہے گی۔ مغربی ممالک میں فضا چین کے خلاف ہے۔ اس لئے امریکی اور یورپی سرمایہ کار نہیں آرہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا کے سرمایہ کاروں کو یقین ہے کہ ان کے مقابلے میں چین کو ترجیح دی جائے گی۔ پاکستان کے کچھ سرمایہ کار اس منصوبے میں اپنا سرمایہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن وہ پاکستان کے اعلیٰ افسران کے غرور و تکبر اور اختیارات سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے رویئے سے نالاں ہیں۔ فائل کو اگر پہئے نہ لگائے جائیں تو وہ چلتی نہیں۔
پھر چین خود اس منصوبے پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔ کسی اور سرمایہ دار ملک (جیسے سعودی عرب) کی شمولیت چین کو کبھی پسند نہیں آئے گی۔ پاکستان نے اٹھتے بیٹھتے اس منصوبے کی اہمیت پر روشنی ڈالنی شروع کی اور اتنی روشنی ڈالی کہ یہ منصوبہ بعض دشمنوں کو خار بن کر کھٹگنے لگا۔ یہ خواب دکھائے گئے کہ پاکستان میں دولت کا دریا بہنے لگے گا۔ غریب عوام کے دلوں میں امید کی کرن جاگ گئی۔ یہ پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والوں اور حکمرانوں کا مزاج سمجھنے والوں کو معلوم ہے کہ دولت کا دریا آیا بھی تو چند حکمران فیملیوں، اعلیٰ افسران اور ان کی اولادوں کو اس سے فائدہ ہوگا۔ دولت کا دریا خود بخود سوئٹزر لینڈ، پاناما، دبئی، برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں کا رخ کرے گا۔ جنہوں نے اس کے لئے سازگار فضا بنا رکھی ہے۔
عمران خان نے بڑے ارمانوں سے قصر اقتدار میں قدم رکھا ہے۔ اگر ان کے دل میں دولت بنانے کا خیال نہیں ہے تو ان کا راستہ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ لیکن دوست دشمن ان کی ہمت عالی اور دیانتداری کے قائل ہیں۔ اگر انہوں نے کرپشن کے جن کو بوتل میں بند کردیا تو یہ عظیم کارنامہ ہوگا، ورنہ وہ بھی اپنے پیشروئوں کی طرح تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائیں گے۔