ظہیر دہلوی نے لکھا ہے:
ایک چھوٹی سے چھوٹی ریاست ہندوستانی کے برابر بھی بادشاہ دہلی کو وسعت مقدرت و استطاعت نہ رہی تھی۔ بقول سودا
کہ ایک شخص ہے بائیس صوبے کا خاوند
رہی نہ اس کے تصوف میں فوجداری کول
فقط ایک لاکھ روپیہ ماہوار تو سرکار انگریزی سے آتا تھا اور کسی قدر پرگنات و محالات و تہ بازاری و کرایہ دکاکین و آمدنی باغات و طیول و نزول خالصہ وغیرہ کی آمدنی تھی۔ من کل الوجوہ سوا لاکھ روپیہ ماہوار تصور کرلینا چاہئے۔ مگر عظمت جلال و شان و شوکت و تزک و احتشام و ادب و آداب دربار و انتظام جلوس سواری کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ ہاں کسی زمانے میں یہ خاندان عالی شان سزاوار فرماں روائی ہندوستان جنت نشان ہوگا۔ مگر باوجود انحطاط و کسر تمول و قلت معاش، دو امر حیرت خیز و تعجب انگیز ایسے نظر سے گزرے ہیں کہ مجھے آج تک ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اول تو خدائے عالم نے اس لاکھ روپئے میں ایسی برکت عطا فرمائی تھی کہ وہ خیر و برکت و وسعت و استطاعت کروڑوں روپیہ کی ریاستوں میں بھی نہ دیکھی۔
شریف گر متضعف شود خیال مبند
کہ پائے گاہ بلندش ضعیف خواہد شد
چار روپیہ کا سپاہی ہے وہ بھی خوش حال ہے اور بیش قرار در ماہہ دار ہے وہ بھی مالا مال ہے۔ گردش روزگار کا کسی کو شاکی نہ پایا۔ یہ ثمرہ خوش نیتی اور نتیجہ علوئے ہمتی کا ہے۔ دوم، قرائن دربار سلطانی و سطوت جہانبانی جو دربار شاہی میں دیکھے، کسی ریاست میں نہ پائے۔ خرچ اخراجات شاہی پر جو نظر غائر ڈالی جاتی ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یا الٰہی یہ کیا معاملہ تھا۔ اتنی برکت خزینۂ شاہی میں کہاں سے آگئی تھی کہ ان اخراجات کی مکتفی ہوتی تھی؟
نواب مرزا خان کے تو ہوش اڑے جاتے تھے۔ جس قدر وہ شعبہ جات و کارخانہ جات شاہی کا تعقب و تفحص کرتا، اسی قدر تہ بہ تہ نئے نئے دیوان و شعبہ جات کی خبر اس کو ملتی جاتی۔ بیرون قلعہ کے ملازمان و ٹھیکہ داران کا تو مذکور الگ رہا، خود قلعۂ میمونہ کے اندر حسب ذیل شعبہ جات گرم کار تھے۔ یہ سب ’’کارخانہ‘‘ یعنی آج کی زبان میں ’’دفتر‘‘ کہے جاتے تھے۔
خاصہ کلاں، خاصہ خرد، آبدار خانہ، دوا خانہ، توشے خانہ، جواہر خانہ، سلح خانہ، خانسا مانی، فیل خانہ، اصطبل، بگی خانہ، توپ خانہ، شتر خانہ، رتھ خانہ، کار خانہ جلوس، ماہی مراتب (چتر و علم)، بخشی خانۂ فوج، کتب خانہ، داروغۂ نذر نثار، داروغۂ فراش خانہ، پالکی خانہ، داروغۂ کہاران، داروغۂ خاص برداران، جمعدار صبیان، نواب ناظر (افسر خواجہ سرایان)۔
اگر کسی کو گمان گزرے کہ یہ سب نام ہی نام ہیں، زیب داستان کے لئے درج کر دیئے گئے ہیں، تو ظہیر دہلوی کا بیان ہے کہ ’’کارخانہ داران کے نام بنظر طوالت قلم انداز کئے گئے‘‘۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان میں کئی ہندو معززین بھی تھے۔ خصوصاً معاملات مالی و فوجی اکثر ان کے سپرد تھے۔ مثال کے طور پر، راجہ زورآور چند، رائے بہادر گیندامل، کنور دیبی سنگھ، راجہ جے سکھ رائے وغیرہ کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ ان کارخانوں کے ماتحت کیا صیغے اور دیوان تھے، ان کی ضروری تفصیل معلوم ہوتے ہوتے نواب مرزا خان کو کئی ہفتے لگ گئے۔ مثلاً افواج، کہ اب برائے نام اور برائے زینت رہ گئی تھیں اور جنہوں نے فردوس منزل حضرت شاہ عالم ثانی کے زمانے کے بعد ایک گولی بھی برہمی مصاف میں نہ چلائی تھی، ان کے صیغہ جات مندرجہ ذیل تھے:
سیاہ پلٹن، اگرئی پلٹن، بچھیرا پلٹن، خاص برداران، رسالہ برداران۔
معززین دربار معلیٰ کی بھی ایک مقررہ فہرست تھی اور اس فہرست میں کسی کے نام کا اضافہ بڑی عزت کی بات تھی۔ اسی طرح، نااہلی یا رشوت ستانی یا غبن کے الزام میں برطرف ہونے کے بعد نام فہرست سے خارج کر دیا جاتا اور یہ امر برطرفی سے بھی زیادہ موجب تذلیل ہوتا۔ ظہیر دہلوی نے داغ کو بتایا کہ عموماً حسب ذیل زعما کے نام داخل فہرست کئے جاتے تھے:
شاہزادگان، وزرا، استادان، علما، حکما، نواب ناظر، بخشی فوج، کمیدان، کاملین فن، مہتممان کارخانہ جات، عرض بیگیان۔
تنخواہوں کی فراہمی اور تقسیم بجائے خود بہت بڑی مصروفیت تھی اور اس کے لئے کئی شعبے مقرر تھے۔ ظہیر دہلوی نے ان کی تفصیل لکھی ہے: تنخواہ محلات و شاہزاد گان، صیغۂ سرکار قدیم، صیغۂ علاقۂ عسکری، صیغۂ روزینہ داران، تعلقۂ نظارت اور ملازمان فوج۔ سب تنخواہیں، خواہ وہ دور روپئے ماہوار ہی کیوں نہ ہو، تنخواہ دار کے لئے بڑے اکرام کی بات تھی۔ ان تنخواہوں کے علاوہ وہ درما ہے تھے جو بیرون قلعہ رہنے والے سلاطین زادوں اور ملازمان شاہی مثلاً شاعر، منجم، پیروکار، معلم، مختلف علوم و فنون کے استاد وغیرہ کے لئے معین تھے۔
ان اخراجات کے علاوہ کئی خاص موقعوں پر (جو در حقیقت اس قدر کثیرالوقوع تھے کہ انہیں خاص نہ کہہ کر دربار کی عمومیات میں شمار کیا جائے تو بیجانہ ہوگا)، حضرت قدر قدرت اپنے شاہزادوں، متوسلین اور باہر کے لوگوں کو خلعت و نقد سے سرفراز فرماتے تھے۔ مثلاً مرزا شاہرخ بہادر نے جب ہری دوار کے کمبھ میلے میں جانے کا ارداہ کیا تو انہیں خلعت اور سفر خرچ آستانۂ عالی سے ملا۔ اسی طرح، شادی غمی، سفر حج، سیر و شکار، ان سب مواقع پر زر نقد اور خلعت یا جوڑے دربار معلیٰ سے عطا ہوتے تھے۔
حضرت خلافت پناہی کثرت سے شادیاں کرتے تھے اور ان کی اولادیں کثیر تھیں۔ ہر محل کے لئے تنخواہ، نوکر چاکر اور ڈیوڑھی برائے قیام مقرر تھی۔ اس طرح کے کئی صرفہ جات وقتاً فوقتاً پیش آیا کرتے تھے۔
بادشاہ سلامت کو خوش نویسی، گھوڑ سواری، تیر اندازی، نشانہ بازی اور دیگر فنون حرب و ضرب میں بہت درک تھا اور ان سب فنون کے لئے استاد مقرر تھے۔ ظہیر دہلوی نے اپنے والد بزرگوار کے حوالے سے مرزا داغ کو بتایا کہ بادشاہ سلامت بندوق تو ایسی لگاتے تھے کہ باید و شاید۔ بارہا دیکھنے میں آیا کہ جانور اڑتا ہوا جاتا ہے، ہوادار پر بندوق دھری ہے، اٹھائی اور بے تکلف داغ دی۔ بندوق چھتیانے کی بھی نوبت نہ آئی۔ جانور لوٹ پوٹ ہوا اور ہوادار میں آرہا۔ تیر اندازی میں بادشاہ جمجاہ کا استاد ایک نامی قدر انداز آپا سنگھ نام کا تھا، جو قوم کا سکھ تھا۔ بادشاہ نے زمانۂ ولی عہدی میں دیوان خاص میں ایک جر ثقیل لگا رکھی تھی۔ تین من چنے کا بورا اس سے آویختہ تھا۔ جرثقیل کے ذریعے اسے چٹکی سے کھینچ لیتے تھے۔ تین ٹانک کمان کھینچنے پر قادر تھے۔ پھکیتی کے فن میں حضور کے استاد میر حامد علی صاحب تھے، اور حضور کی مشق بزمانۂ جوانی اس قدر تھی کہ تن تنہا آٹھ آدمیوں کے مقابل کسرت کرتے تھے اور آپ برابر ان آٹھوں کی چوٹ روکتے رہتے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭