شیراز چوہدری
گجرات سے تعلق رکھنے والے معروف لوک گلوکار عالم لوہار مرحوم کا لکھا اور گایا ہوا گانا ہے، جس کے بول ہیں: ’’پتر جنہاں دے لاڈلے چٹی اوناں دی چوڑ‘‘ یعنی جن کی اولادیں لاڈلی ہوں، ان کے والدین کو اس کا نتیجہ بھگتنا ہی پڑتا ہے، قیمت ادا کرنی ہی پڑتی ہے، عالم لوہار مرحوم کو بچپن میں بہت سنا ہے، بہت کیا اس دور میں پنجاب کے دیہات میں عالم لوہار اور نور جہاں کو ہی سنا جاتا تھا، ہمیں مرحوم کا یہ گانا وفاقی وزیر، اعظم سواتی کی سپریم کورٹ سے نکلتے ہوئے سر جھکائے تصویر دیکھ کر یاد آیا، جو اپنے لاڈلے پتر عثمان سواتی کے کارنامے کی وجہ سے رسوا ہو کر رہ گئے ہیں، ان کا اٹھا ہوا سر جھک گیا ہے، اگر وہ اپنے بیٹے کو لاڈ دینے کے بجائے، اس کی فرمائش پر ایک غریب خاندان کو بند اور آئی جی کو تبدیل کروانے کے بجائے صاحبزادے کو ہی انسانیت کا درس دیتے، اسے سمجھاتے کہ بیٹا اگر کسی غریب کی گائے ہمارے فارم ہائوس میں داخل ہو بھی گئی ہے تو کوئی بات نہیں، وہ تو بے زبان جانور ہے، اسے کون سا کسی نے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے بھیجا ہوگا، اس لئے اتنی سی بات پر آسمان سر پر اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ کوئی پولیس کیس بھی نہیں بنتا، زیادہ سے زیادہ دیہات میں اس مقصد کے لئے ایک پھاٹک بنا ہوا ہوتا ہے، جہاں درانداز مویشی کو جمع کرا دیا جاتا ہے اور بعد ازاں مالک مقررہ فیس دے کر اسے چھڑا لے جاتا ہے، مگر کیا کیا جائے کہ یہاں ابا جی وزیر ہوں تو صاحبزادے اور صاحبزادیاں خود کو شہنشاہ سمجھنے لگتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ وہ ہر قانون سے ماورا ہیں، وہ جو چاہیں کرتے پھریں گے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوگا، ماضی میں اس میں کچھ حقیقت بھی رہی ہے، چلیں اولاد تو پھر اولاد ہوتی ہے، نوجوان، کم سمجھدار اس لئے جب اقتدار گھر میں آتا ہے تو انہیں اس کا نشہ چڑھ جاتا ہے، انہیں سمجھانا والدین کا کام ہوتا ہے، مگر ان کے والدین بھی انہیں سمجھانے، ان کی تربیت کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں ہلا شیر ی دے رہے ہوتے ہیں، اس میں اپنی بڑائی سمجھ رہے ہوتے ہیں اور پھر جب کہیں پھنس جاتے ہیں تو اعظم سواتی کی طرح سر جھکائے سر کجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، اعظم سواتی کئی برسوں سے سیاست کر رہے ہیں، تحریک انصاف سے قبل وہ جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمن کے قریب رہے، کیوں کہ وہ امریکہ سے تازہ تازہ آئے تھے اور ان کے پاس ڈالروں کی بہار تھی، پھر وہ پی ٹی آئی کی کشتی کے مسافر بن گئے، وہ وزیر بھی رہے، لیکن عمومی طور پر انہیں نیک نام ہی سمجھا جاتا تھا، مگر ایک صاحبزادے کی حرکت اور ان کی جانب سے سرپرستی نے انہیں دنیا کے سامنے تماشا بنا دیا ہے، اس غریب خاندان کو جسے وہ محض گائے چرنے کی وجہ سے کچلنے چلے تھے، معافی بھی مانگنا پڑی ہے، جرگے کی الگ سے منتیں کیں، لیکن جان اب بھی چھوٹ کے نہیں دے رہی، جب انسان زمین پر خود کو خدا سمجھنے لگے تو یہی ہوتا ہے۔
اعظم سواتی سے قبل اپنے لاڈلے پتروں کی وجہ سے کئی اور شخصیات کی ترٹی بھی چوڑ ہو چکی ہے، ابھی چند ہفتے قبل تحریک انصاف کے پنجاب میں وزیر میاں محمود الرشید بھی اپنے صاحبزادے کی وجہ سے رسوا ہو چکے ہیں، میاں محمود الرشید کا ماضی میں تعلق جماعت اسلامی سے رہا ہے، دین دار اور نیک نام سمجھے جاتے ہیں، لیکن لاڈلی اولاد نے ان کے کپڑے بھی چوک میں دھلوا دئیے، عیاشی کرتے ہوئے پکڑے گئے، اپنے ایک دوست کے لئے ان کے صاحبزادے نے پولیس پر حملہ کرکے اپنے خاندان کی روایات کا جنازہ نکال دیا۔ اس سے قبل خاتون اول کی صاحبزادی کے معاملے میں ان کے سابقہ شوہر اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ بھی کوئی پرانی بات نہیں، لیکن حیرت ہے کہ اس کے باوجود اعظم سواتی اتنی چھوٹی سی بات پر اتنے بگڑے کہ اب ان کا سیاسی کیرئیر ہی بگڑتا نظر آرہا ہے، اگر بچ بھی گیا تو یہ وہ داغ نہیں ہوگا، جو کسی ڈیٹرجنٹ پاوڈر سے دور ہو سکے، بلکہ یہ داغ اب زندگی بھر ان کے ساتھ ہی رہے گا۔
ہماری اشرافیہ کی لاڈلی اولادوں اور ان کی وجہ سے والدین کی پریشانی کی بات ہو رہی ہے، تو ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی بیٹی مریم کی محبت اور اس کے لئے راستہ تلاش کرنے کی جستجو میں یہاں تک پہنچے ہیں کہ اب آگے کوئی راستہ ہی نظر نہیں آرہا، بیٹی کو اپنے طرز سیاست پر چلانے کے بجائے ان کے طرز سیاست پر چل کر انہوں نے اپنی پارلیمانی سیاست ہی ختم کر دی ہے۔ چھوٹے میاں صاحب یعنی شہباز شریف تو اپنے داماد علی عمران کی وجہ سے بھی مشکل میں ہیں، علی عمران خود تو لندن نکل گئے، لیکن پیچھے ان کے نام پر جو کچھ نکل رہا ہے، اس کا خمیازہ شہباز شریف کو بھگتنا پڑے گا، اسی طرح آپ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو تو نہیں بھولے ہوں گے، انہوں نے اپنا قد کتنا بڑا کرلیا تھا، بڑے سے بڑے ریاستی اور حکومتی عہدیدار کو وہ کٹہرے میں کھڑا کرلیتے تھے، لیکن ان کے لاڈلے بیٹے ارسلان نے انہیں ہی کٹہر ے میں کھڑا کردیا، حالاں کہ پرویز مشرف دور میں بیٹے کے پولیس میں غیر قانونی ٹرانسفر کا معاملہ سانے آچکا تھا، جس کی وجہ سے افتخار چوہدری کو مشکلات اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن انہوںنے اس سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی بیٹے کو سکھانے کی کوشش کی، نتیجتاً بحالی کے بعد بیٹے نے اپنی عیاشی اور مال کے پیچھے دوڑ کی عادت سے افتخار چوہدری کو کمائی گئی نیک نامی سے محروم کردیا، اسی طرح سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے نے سابقہ دور حکومت میں لاہور میں ایک غریب موٹر سائیکل سوار کو کچل دیا تھا، وہ تو دور اچھا تھا اور ن لیگ کے ساتھ ان کے والد کی سیٹنگ بھی اچھی تھی، جو وہ بچ گئے، کوئی نوٹس نہیں ہوا، کراچی میں قید شاہ رخ جتوئی بھی آپ کو یاد ہوگا، ابھی چند روز قبل چیف جسٹس ثاقب نثار کے جیل پر چھاپے میں بھی وہ مسکراتا ہوا نظر آیا، حالاں کہ وہ سزائے موت کا قیدی ہے، لیکن اس کی مسکراہٹ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ اسے اپنے والد کے سرمائے اور اثرو رسوخ پر کتنا اعتماد ہے، ہمارے بگڑے ہوئے حکمران زادوں کی یہ مثالیں ہیں، ایک بات طے ہے کہ انہیں ان کے والدین نہیں سدھاریں گے، بلکہ وہ تو انہیں تھپکی دیتے ہیں، انہیں سدھارنے کے لئے وہی کچھ کرنا ہوگا جو اعظم سواتی کے ساتھ ہو رہا ہے، پھر ہی انہیںسمجھ آسکتی ہے، جب انہیں علم ہوگا کہ ان کے لاڈ ان کی ترٹی چوڑ کرا سکتے ہیں، تو پھر دیکھئے گا یہ کیسے بندے کے پتر بنتے ہیں۔
٭٭٭٭٭