آسیہ مسیح کی رہائی کے خلاف احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور سرکاری ونجی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں دھرنا قیادت اور سینکڑوں مظاہرین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ان میں علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری سمیت تحریک لبیک کے کئی رہنما اور کارکنان شامل ہیں، جن کی تعداد چار سو سے زائد ہے۔ وفاقی حکومت نے دھرنے کے دوران املاک کو نقصان پہنچانے والے شرپسند افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی ہنگامہ آرائی اور توڑ پوڑ میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دے چکے ہیں۔ مختلف سرکاری محکموں اور ذرائع سے حاصل شدہ کئی تصاویر جاری کردی گئی ہیں، جبکہ باقی ملزموں کے کوائف اور تصاویر اکھٹی کی جا رہی ہیں۔ برقیاتی ذرائع ابلاغ اور نیٹ ورک کے ذریعے پھیلائے جانے والے مواد کا پتا لگایا جا رہا ہے۔ گستاخی رسولؐ کے الزام میں آسیہ مسیح کے خلاف ہائی کورٹ تک کئی ماتحت عدالتوں سے سزائے موت کے احکام جاری ہو چکے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے یہ سزا کالعدم قرار دے کر آسیہ کو بری کردیا۔ اصولاً تو یہ سراسر قانونی معاملہ ہے، جس پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی گنجائش موجود ہے، لیکن ناموس رسالت کے مسئلے پر مسلمانوں کے جذبات کو قابو میں رکھنا آسان نہیں ہے۔ سب کہتے ہیں کر حرمت رسولؐ کی خاطر وہ اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ان جذبات سے بعض مذہبی سیاسی رہنماؤں نے فائدہ اٹھا کر اپنے پیروکاروں اور عوام کو اکسایا، جس کے نتیجے میں فتنہ و فساد کے متلاشی شرپسند عناصر نے خوب فائدہ اٹھایا۔ زبردست توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی گئی۔ کروڑوں روپے کی سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچا، جن میں معمولی ٹھیلے سے لے کر موٹر سائیکل، کاروں اور دکانوں کا نقصان زیادہ افسوسناک اس لیے قرار دیا جاسکتا ہے کہ آسیہ مسیح کی بریت یا رہائی کا ان میں سے کوئی بھی ذمے دار نہیں۔ وطن عزیز میں احتجاج، دھرنوں اور مظاہروں کا یہ پہلو نہایت تشویشناک ہے کہ مجرم اور ان کے سرپرست تو محفوظ رہتے ہیں، لیکن بے گناہ شہریوں اور سرکار کی املاک تباہ وبرباد ہوتی ہیں، جو فی الاصل عوام کی امانت ہیں۔ جمعہ اور ہفتے کو ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے وقت پورے ملک کی وفاقی و صوبائی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی، جس سے شرپسندوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اب سانپ گزرنے کے بعد لاٹھی پیٹنے کا عمل دوہرایا جا رہا ہے۔ شرانگیز عناصر کے خلاف جزوی کامیابی تو ممکن ہے، لیکن یہی کارروائی بروقت ہو جاتی تو ایک بھی مجرم بچ نہیں سکتا تھا۔ اتفاق سے وفاق وزارت داخلہ براہ راست وزیراعظم عمران خان کی نگرانی میں کام کر رہی ہے۔ اہل وطن کو ان کا ایک سو بیس دن سے زیادہ کا وہ دھرنا یاد ہے، جس کے نیتیجے میں پاکستان شدید اقتصادی نقصان سے دو چار ہوا تھا۔ تحریک انصاف اور طاہر القادری کے کارکنوں نے اسلام آباد کو غلاظت اور گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا، جب کہ بیرونی سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ آج جب وہی عمران خان برسراقتدار ہیں تو وہ دھرنے کے شرکا اور مظاہرین کی گرفتاری کے سخت احکامات جاری کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کا دھرنا خالصتاً سیاسی اور اقتدار کے حصول کی کوشش تھا، جبکہ آسیہ مسیح کی رہائی کا معاملہ مذہبی قرار پایا ہے اور عالمی قوتیں اس کی آڑ میں حسب عادت پاکستان اور اسلام دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کسی بھی عنوان سے عام سڑکوں اور مصروف شاہراہوں کو بند کر دینا قانونی نقطۂ نظر ہی سے نہیں، شرعی طور پر بھی ممنوع ہے۔ نبی اکرمؐ نے تو گلی یا سڑک کے بیچ میں کھڑے ہونے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ اس کے بالکل برعکس مذہبی دھرنا قیادت کا کہنا ہے کہ ان کے اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر ملک کے سب سے بڑے اور اہم ترین شہر کراچی کو جام کردیا جائے گا۔ تحفظ ناموس رسالت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آسیہ مسیح کی رہائی میں کراچی کا کیا قصور ہے کہ اسے جام کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ مزید ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور مظاہرین و پولیس کے درمیان محاذ آرائی سے کراچی کے تاجروں، دکانداروں، طلبہ، اساتذہ خواتین اور بچوں کے علاوہ جاں بہ لب مریض بھی ناکردہ گناہوں کی سزا پائیں گے۔ کراچی یوں بھی محرم کے جلسوں اور ماتمی جلوسوں سمیت کئی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کے باعث سال بھر باربار بند ہوتا رہتا ہے، جس سے انسانی جانوں، سرکاری خزانے اور قومی معیشت پر تباہ کن اثرات پڑتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلات فواد چوہدری کو نہ جانے کس نے تیز و تند بیانات کے ذریعے لوگوں کے جذبات بھڑکانے پر مامور کیا ہے۔ ان کا ہر بیان قانون پسندی کے اظہار سے زیادہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔ کاش تحریک انصاف کی قیادت بچے پچونگڑوں کو قیادت و رہنمائی کے زعم میں مبتلا ہونے کا موقع دینے کے بجائے آئین، قانون، انصاف معاشرتی اقدار اور انسانی جانوں کے تحفظ کا درس دے کر راہ راست پر رکھنے کا کوئی اہتمام کرنے پر متوجہ ہو۔ شرپسندوں کے خلاف بروقت کارروائی نہ کرنے والی انتظامیہ نے اب جو شکایتی سیل قائم کرکے لوگوں سے شرپسندوں کی شناخت کے لیے تعاون کی اپیل کی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ معلومات فراہم کرنے والے کے نام صیغہ راز میں رکھے جائیں گے تو اس پر کوئی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ ایم کیو ایم کے دور میں لوگوں کا بڑا تلخ تجربہ ہے کہ خبریں، تصاویر اور ویڈیو فراہم کرنے والا کوئی شخص دہشت گردوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہتا، عدالتوں میں ان کے مقدمات برسوں سے زیر التوا پڑے ہوئے ہیں۔ صرف اس لیے کہ جان کے خوف سے قاتلوں کے خلاف گواہی دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ نفاذ قانون کے ادارے انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے۔ پولیس جیسے محکمے تو الٹا غریب، شریف اور بے گناہ شہریوں کو تفتیش کے نام پر زیر حراست لے کر ان پر ظلم کرنے اور پیسے بٹورنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭