برطانوی پارلیمانی گروپ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، ریاستی جارحیت اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابض بھارتی فوج کالے قوانین کی آڑ میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی میں ملوث ہے۔ پارلیمانی گروپ کی رپورٹ میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فی الفور بند کرے۔ بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کو پیلٹ گنز کے استعمال سے روکے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی پارلیمانی گروپ نے مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی انسانی قبروں کی شناخت اور جامع تحقیقات کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ گروپ کی رپورٹ کا پاکستان نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائی جانی چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کا اصل ذمے دار برطانیہ ہے، جس نے تقسیم ہند کے بنیادی اصول کو پامال کرتے ہوئے وہاں کے ڈوگرہ راج سے مل کر مسلمانوں کی اکثریتی ریاست کشمیر کو بھارت میں شامل کیا۔ پاکستان کی افواج اور قبائلیوں نے ابتدا ہی میں کارروائی کر کے کشمیر کا ایک حصہ بھارت سے آزاد کرا لیا تھا۔ جس پر بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گئے۔ عالمی برادری کے اس نمائندہ ادارے نے اپنی قراردادوں کے ذریعے فیصلہ دیا کہ کشمیریوں کی آزاد مرضی معلوم کر کے اس تنازع کو حل کیا جائے، لیکن سات دہائیاں گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ کی استصواب رائے کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ بعد میں تو بھارت نے صاف کہہ دیا کہ کشمیر اس کا حصہ ہے۔ ایک یہی کیا، انتہا پسند بھارتی رہنمائوں نے تو اول روز سے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ یہی کہا کہ یہ گئو ماتا کے دو ٹکڑے کرنے کے مترادف ہے، جبکہ کشمیر، جوناگڑھ، حیدرآباد دکن اور ماناودر کی ریاستوں سمیت پاکستان بھی بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اقوام متحدہ میں غیر مسلم ممالک کی تعداد زیادہ ہے، جن میں بڑی بڑی طاقتیں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرانے اور وہاں انسانی حقوق کی پامالی بند کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، جس سے شہ پاکر بھارت نے اپنے زیرقبضہ کشمیر کو آئینی طور پر اپنا حصہ قرار دے دیا۔ اب اگر برطانوی پارلیمانی گروپ کو احساس ہو گیا ہے کہ بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں بھیانک جرائم میں ملوث ہیں اور اس نے ان کے خلاف آواز اٹھائی ہے تو اسے یہ معاملہ اقوام متحدہ اور ہر عالمی فورم پر پیش کرنا چاہئے اور اس میں پاکستان کو آگے بڑھ کر اپنا حصہ ادا کرنا چاہئے۔ برطانیہ کا قریبی حلیف امریکا ہے۔ یہ دونوں ممالک اگر سنجیدہ ہوں تو تمام یورپی اور مسلم ممالک ان کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں سوویت یونین (جو، اب صرف روس تک محدود رہ گئی ہے) نے بھارت کی ہمیشہ حمایت کر کے کشمیر پر پیش کی جانے والی قراردادوں کو ویٹو کیا اور ان پر عملدرآمد روکنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن نائن الیون کے بعد بھارت امریکا کی گود میں جا بیٹھا ہے تو اس کے روس سے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔ ماضی کے دو حریف روس اور پاکستان اب ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں انسانی ہمدردی اور بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے تو پاکستان کو اپنی بھرپور سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر پوری قوت کے ساتھ اٹھانا چاہئے۔ کشمیر کی حریت پسند قیادت سابقہ پاکستانی حکومتوں سے سخت مایوسی کا اظہار کر چکی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کے دور اقتدار میں انہیں ایک بار پھر امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے کہ شاید وہ مسئلہ کشمیر میں دلچسپی لے کر اسے عالمی برادری کے ذریعے حل کرانے میں اہم کردار ادا کرے۔ ادھر بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے اعتراف کیا ہے کہ بھارتی فوج کا تنظیمی ڈھانچا بہت پرانا ہو چکا ہے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے فوجی سربراہ کا یہ بیان کشمیری مجاہدین کے مقابلے میں بھارتی شکست کے اعتراف کی عکاسی کرتا ہے۔ کشمیر کی طرح بھارت کے دیگر علاقوں میں علیحدگی پسندی کی جو تحریکیں چل رہی ہیں، وہاں بھی بھارتی فوج سخت جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے اندر انصاف پسند اور معتدل مزاج سیاسی رہنما اور عوام بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کی افواج نے کشمیری مجاہدین کے پاس اسنائپر رائفلز کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ وہ پتھر برسانے والے کشمیریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح بھارتی فوجی حکام میں اس امر پر سخت بے چینی پائی جاتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ بدلے ہوئے ان حالات میں اگر پاکستانی اندرونی طور پر مستحکم ہو، حکومت، افواج اور عوام کے درمیان مکمل اعتماد و ہم آہنگی موجود ہو تو آج عالمی برادری سے مسئلہ کشمیر حل کرانا ماضی کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت سے زیادہ کشمیریوں کا اپنا مسئلہ ہے اور یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ان ہی کو حاصل ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا اپنی علیحدہ آزاد و خود مختار ریاست کے خواہشمند ہیں۔ ان کی رائے کا اظہار اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ آثار و قرائن اس امر کے شاہد ہیں کہ کشمیریوں کی بھاری اکثریت اپنی ریاست کا بھارت کے بجائے پاکستان سے الحاق چاہتی ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ کشمیری باشندے پاکستان کی حکومتوں اور سیاست دانوں سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے لیے اس سے زیادہ المناک صورت حال کیا ہو گی کہ مولانا فضل الرحمن جیسا شخص سالہا سال تک کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا رہا، جس کے آبا و اجداد کا یہ قول ریکارڈ پر موجود ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے۔ ٭
٭٭٭٭٭