منصور اصغر راجہ
یکم جون 2003ء کو برادر محترم مولانا عبد الرئوف فاروقی نے ہمدرد سینٹر لاہور کے وسیع و عریض کانفرنس ہال میں ’’تذکرئہ اسلاف سیمینار ‘‘ کا انعقاد کیا، جس کے مہمان خصوصی مولانا سمیع الحق شہیدؒ اور مولانا اعظم طارق شہید ؒ تھے۔ وقتِ مقررہ پر مولانا سمیع الحقؒ خطاب کے لیے تشریف لائے۔ شدید گرمی کے دن تھے۔ اُس روز انہوں نے ہلکے نیلے رنگ کی سادی سی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ سر پر مخصوص روایتی پگڑی کے بجائے سفید ٹوپی تھی۔ انہوں نے اکابر علمائے دیوبند کے تذکرے کے بعد ذرہ دیر کے لیے متحدہ مجلس عمل کا ذکر چھیڑا، جس کا اُس وقت وہ خود بھی حصہ تھے اور پھرکانفرنس ہال میں حاضر دینی مدارس کے طلبہ کی کثیر تعداد کو احادیث نبوی کی روشنی میں پند و نصائح سے بھی نوازا۔ ان کے سادہ سے طرز گفتگو نے ہمارا دل موہ لیا کہ ہم پہلی بار انہیں دیکھ اور سن رہے تھے۔ یہ وہی سیمینار تھا جس میں خطیبِ پاکستان مولانا ضیاء القاسمیؒ کے چھوٹے بھائی اور ہمارے مرشدِ اول مولانا قاری عبد الحی عابدؒ نے اپنے افتتاحی خطاب میں یہ تاریخی روایت بیان کی کہ ’’شیخ العرب و العجم مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے اٹھارہ برس تک نبی کریمؐ کے روضہ اقدس کے پاس بیٹھ کر حدیث پڑھائی اور حضرت مدنیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ان اٹھارہ برسوں میں کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گزری کہ جب مجھے نبی کریمؐ کی خواب میں زیارت نصیب نہ ہوئی ہو‘‘۔
مولانا سمیع الحقؒ سے ہماری اگلی ملاقات 9 جون 2004ء کو شملہ پہاڑی کے قریب واقع ایمبسڈر ہوٹل کے کانفرنس ہال میں ہوئی، جہاں اُس روز ان کی کتاب ’’صلیبی دہشت گرد ی اور عالم اسلام: طالبان افغانستان کے تناظر میں‘‘ کی تقریبِ رونمائی تھی۔ یہ کتاب بنیادی طور پر اُن کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے ملکی و غیر ملکی میڈیا کو نائن الیون سے پہلے اور اس کے بعد دیئے تھے۔ جہاد افغانستان، تحریک طالبان افغانستان، ملا عمر، اسامہ بن لادن، دہشت گردی، دینی مدارس بالخصوص دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، اسلام اور نظامِ شریعت کے بارے میں امریکہ و مغرب کی غلط فہمیوں اور مسلم امہ پر امریکہ کی جارحانہ یلغار جیسے حساس موضوعات کے سلسلے میں یہ کتاب ایک مکمل بیانیہ ہے۔ مولانا سمیع الحقؒ نے اُس روز اپنے اسٹیج پر دینی و صحافتی افق کے کئی تابندہ ستاروں کی کہکشاں سجا رکھی تھی۔ ان کے پہلو میں جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبالؒ تشریف فرما تھے۔ دوسری جانب مجید نظامیؒ جلوہ افروز تھے۔ قریب ہی مصطفی صادقؒ، عبد القادر حسن صاحب اور مجیب الرحمان شامی صاحب بھی بیٹھے تھے۔ پروفیسر ساجد میر صاحب، مہتمم جامعہ اشرفیہ مولانا فضل الرحیم صاحب اور اُس وقت کے مہتمم جامعہ نعیمیہ حضرت ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی شہیدؒ بھی یہیں پر موجود تھے۔ طالب علمی کا دور تھا اور مشاہیر سے آٹو گراف لینے کا جنون کی حد تک شوق۔ سو ہم نے موقع دیکھتے ہی اپنی آٹو گراف بک جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کے سامنے رکھ دی۔ مولانا بھی ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبالؒ کے چہرے پہ مسکراہٹ جگمگائی، انہوں نے گردن موڑ کر ایک لمحے کے لیے اپنے ہمراہ اسٹیج پر تشریف فرما اور ہال میں موجود علماء کی طرف دیکھا اور پھر ہماری آٹو گراف بک پر یہ شعر رقم فرمایا:
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
مولانا سمیع الحقؒ یہ ساری ’’کارروائی‘‘ بغور دیکھ رہے تھے۔ شعر پڑھ کر کھکھلا اٹھے اور کمالِ شفقت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے آٹو گراف بک لینے کے لیے اپنا ہاتھ ہماری طرف بڑھا دیا اور پھر انہوں نے فرزندِ اقبالؒ کے آٹو گراف کے جواب میں اگلے ہی صفحے پر یہ شعر لکھا:
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے ولی جانا
کافر کو کیا سمجھ ہے کہ مجاہد ہوں میں
نیچے اپنے دستخط فرمائے اور ساتھ ہی یہ جملہ بھی لکھا ’’ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحریر میں کچھ ترمیم کے ساتھ‘‘۔
مولانا سمیع الحقؒ سے ہماری اگلی ملاقات 2011ء کے اواخر میں ہوئی، جب وہ دفاع پاکستان کونسل تشکیل دے چکے تھے اور مینار پاکستان گرائونڈ لاہور میں اپنا پہلا جلسہ کرنے جا رہے تھے۔ ہم چند روز پہلے ہی ’’امت‘‘ سے وابستہ ہوئے تھے۔ ایڈیٹر تکبیر برادرم یعقوب غزنوی نے ہمیں مولانا سمیع الحقؒ کا انٹرویو کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ اسی دوران یہ خبر ہماری نظر سے گزری کہ اگلے ہی روز مولانا لاہور تشریف لا رہے تھے اور انہوں نے لاہور جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں جامعہ اشرفیہ میں ہونے والے ایک اہم اجلاس میں شرکت کرنی تھی۔ سو اگلے روز مقررہ وقت پر ہم بھی جامعہ اشرفیہ پہنچ گئے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد مولانا سمیع الحقؒ جب مہتمم جامعہ کے دفتر سے باہر تشریف لائے تو مدرسے کے کسی بڑے درجے کے طلبہ لمبی سی قطار بنائے ان سے ملنے کے لیے کھڑے تھے۔ یہ منظر ہم جیسے کالج یونیورسٹی کے فیض یافتہ طالب علم کے لیے خاصا حیران کن تھا کہ مولانا سمیع الحقؒ ایک ایک طالب علم سے مصافحہ کرتے ہوئے بڑے عاجزانہ لہجے میں اُن سے یہ جملہ بھی ارشاد فرما رہے تھے ’’آپ لوگ میرے لیے بھی دعا کیا کرو۔ آپ کی دعائیں تو نقد قبول ہوتی ہیں‘‘۔ گاڑی کے قریب پہنچے تو ہم نے آگے بڑھ کر انٹرویو کے لیے درخواست پیش کی۔ مولانا نے اپنی مصروفیات کا عذر پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دو روز ٹھہر جائیں، پھر ہم تفصیل سے بات کریں گے۔ ہم نے جواباً عرض کیا کہ ہمیں آج ہی آپ کا انٹرویو فائل کر کے کراچی بھیجنا ہے تاکہ اسے تین روز بعد آنے والے ’’تکبیر‘‘ کے تازہ شمارے میں شامل کیا جا سکے۔ مولانا تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں پڑ گئے اور پھر فرمایا ’’ابھی میں مجید نظامی صاحب سے ملنے کے لیے ’’نوائے وقت‘‘ کے دفتر جا رہا ہوں۔ آپ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جائیں اور نوائے وقت تک پہنچتے پہنچتے آپ جتنے سوال پوچھ سکیں، وہ آپ کا نصیب‘‘۔ ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہوئے جھٹ سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور گاڑی چلتے ہی ٹیپ ریکارڈر آن کرکے مولانا کے قریب کر دیا۔ جامعہ اشرفیہ سے نوائے وقت تک فاصلہ ہی کتنا تھا۔ ہم دل ہی دل میں دعا کرتے رہے کہ کاش مولانا کی گاڑی کہیں رش میں پھنس جائے تاکہ انٹرویو مکمل ہو سکے، لیکن ہم جیسے سیاہ کار کی یہ بچگانہ دعا کہاں قبول ہوتی۔ تھوڑی دیر بعد ہی ہم مجید نظامی کے دفتر پہنچ گئے۔ گاڑی رکتے ہی مولانا نے پیچھے مڑ کر دریافت فرمایا کہ آپ کا انٹرویو مکمل ہو گیا یا کوئی سوال ابھی باقی ہے؟ ہم نے عرض کی کہ ایک آدھ سوال ابھی باقی ہے۔ فرمانے لگے ’’آپ جلدی جلدی باقی سوال بھی پوچھ لیں۔ میں مختصر جواب دوں گا، کیونکہ نظامی صاحب کو زیادہ انتظار کرانا مناسب نہ ہو گا‘‘ اس طرح ہم نے مولانا سمیع الحقؒ کا پہلا انٹرویو اُن کے ساتھ اُن کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کیا جو ایک خوبصورت یاد بن کر ہمارے حافظے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا۔
محدث کبیر مولانا عبد الحقؒ کے صاحبزادے مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی شخصیت کئی صفات کا مجموعہ تھی۔ وہ ایک حق گو عالم دین بھی تھے اور صاحبِ طرز ادیب بھی۔ صاحبِ بصیرت سیاستدان بھی تھے اور اعلیٰ پائے کے مدرس و منتظم بھی اور جہاد سے محبت تو ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے خود اپنے ایک انٹرویو میں اپنے مدرسے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو حضرت سید احمد شہیدؒ کا فیضان قرار دیا۔ انہوں نے 7 نومبر 2001ء کو اے آر وائی ٹی وی کے علاوہ کچھ مغربی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’جہاں جہاں بھی سید احمد شہیدؒ اور ان کے ساتھی مجاہدین نے قیام فرمایا، وہاں پر بعد میں جہاد اور علم کے چشمے پھوٹ پڑے۔ جس جگہ دارالعلوم دیوبند قائم ہے، وہاں کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہوا کرتا تھا، جہاں لوگ گندگی پھینکتے تھے۔ جب اس جگہ کے قریب سید احمد شہیدؒ کے لشکر نے قیام کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے یہاں سے علم کی خوشبو آتی ہے۔ بالکل اسی طرح اکوڑہ خٹک میں جس جگہ پر ہمارا دارالعلوم بنا ہے، سید احمد شہیدؒ اور ان کے قافلے کا پڑائو اسی جگہ کے آس پاس تھا۔ بعد ازاں یہیں قریب ہی سید صاحب کے لشکر اور سکھوں کے درمیان معرکہ اکوڑہ خٹک ہوا، جس میں سید صاحب کے کئی ساتھی شہید ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ خون جو شہادت کا اور جہاد کا یہاں جذب ہوا، تو اس سے گویا حق تعالیٰ نے بیج بویا تھا اور سو سال بعد اس بیج کو حق تعالیٰ نے دارالعلوم حقانیہ کی شکل میں باہر نکال دیا۔‘‘ مولانا عبد القیوم حقانی ’’صلیبی دہشت گردی اور عالم اسلام‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’جامعہ حقانیہ کے بانی اور اولین مہتمم شیخ الحدیث مولانا عبد الحقؒ جامعہ کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کرتے: ’’مجھے اگرچہ تاریخی اعتبار سے تو متحقق نہیں، مگر آثار و قرائن سے یہیں معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اسی جگہ قائم کیا گیا جہاں شہدائے بالاکوٹ کی سب سے پہلی تلوار چلی تھی۔ یہاں سید احمد شہیدؒ کے رفقائے کار شہید ہوئے تھے۔‘‘ حضرت شیخ الحدیثؒ فرمایا کرتے تھے کہ جامعہ کی صورت میں علوم و معارف کے جو چشمے آج پھوٹتے نظر آرہے ہیں، یہ مجاہدین بالاکوٹ کی برکات و ثمرات ہیں‘‘۔
سیانے کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اسلام میں عورت کا رتبہ اسی لیے اتنا بلند ہے کہ اسے خدا نے انسان سازی جیسی عظیم الشان ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ مولانا سمیع الحقؒ ایسی ہی ماں اور دادی کی گود میں کھیل کر جوان ہوئے، جنہوں نے دارالعلوم حقانیہ کے ابتدائی دور میں مدرسے کے طلبہ کو اپنے ہاتھوں سے روٹیاں پکا کر کھلائیں۔ مولانا نے متذکرہ بالا انٹرویو میں خود بتایا کہ: ’’جب مدرسے کا کام شروع ہوا تو نہایت محدود وسائل تھے۔ اس کے ساتھ یہ احتیاط بھی ہوتی کہ ایک ایک روپیہ صحیح مصرف میں لگے اور فالتو ایک آنہ بھی نہ لگے۔ دوسری طرف ہمارے گھر کی خواتین کہتی تھیں کہ اگر نان بائی رکھا جائے اور تندور سے روٹی پکوائی جائے تو پھر ہم کو اس ثواب میں حصہ نہیں ملے گا۔ چنانچہ مطبخ کی خدمت ہمارے گھر کی خواتین خود انجام دیتی تھیں۔ میں نے خود دیکھا کہ میری والدہؒ دس دس تندور لگاتی تھیں، جہاں وہ روزانہ تین چار گھنٹوں میں سو ڈیڑھ سو آد میوں کیلئے روٹی پکاتی تھیں۔ میری دادی مرحومہؒ ضعیف بھی تھیں اور اخیر عمر میں ان کی بینائی بھی چلی گئی تھی، لیکن اس پیرانہ سالی میں بھی وہ مدرسے کے طلبہ کے لیے تلاوت کرتے ہوئے آٹا گوندھتی تھیں‘‘۔ یہ ان قربانیوں ہی کا ثمر تھا کہ ایک موقع پر مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا قاری محمد طیبؒ نے فرمایا کہ ’’دارالعلوم حقانیہ دیوبند ثانی ہے۔‘‘ اور یہی وہ مبارک گود تھی، جس میں پرورش پانے والے مولانا سمیع الحقؒ نے عمر بھر دین کی خدمت کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔ (جاری ہے )