پہلے اپنا پِتّا مارنا ضروری ہے

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ توازن ادائیگی کا بحران ختم ہو چکا ہے۔ بارہ ارب ڈالر کا خلا تھا جسے پر کرنے کے لیے سعودی عرب نے چھ ارب ڈالر فراہم کئے، جبکہ کچھ رقم چین سے ملی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف پرانے معاہدوں پر نظرثانی نہیں کی، بلکہ نئے معاہدوں پر بھی دستخط کئے ہیں۔ ہماری توجہ طویل المیعاد استحکام پر مرکوز ہے۔ مستقل توازن کے لیے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ دورۂ چین سے واپسی کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ وزیر خارجہ نے وزیر اعظم کے دورۂ چین کو انتہائی مفید قرار دیا اور کہا کہ چینی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران غربت میں کمی، کرپشن کی روک تھام، پیداواری، زرعی اور برآمدی قوت میں اضافے، پاکستان میں صنعتوں اور سرمایہ کاری کے فروغ، مشترکہ سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع میں اضافے سے متعلق امور پر بات چیت ہوئی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ہر دورے پر صرف یہ سوال نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے پاکستان کو کیا ملا؟ دوروں میں کچھ اور بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر سے قوم کو بڑی توقعات وابستہ تھیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور تحریک انصاف کے معاشی ماہرین کی ٹیم سے مشاورت اور رہنمائی کے بعد وطن عزیز کو اقتصادی بحران سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جس کی بنیاد بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار ختم کر کے رکھی جائے گی۔ اسد عمر کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ہم کشکول گدائی لے کر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، لیکن ان بیانات کی روشنائی ابھی خشک نہیں ہونے پائی تھی کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ’’یوٹرن‘‘ پالیسی یہاں بھی فوراً آڑے آگئی اور انہوں نے تدریجاً یہ کہنا شروع کیا کہ معاشی مسائل اس قدر گمبھیر ہیں کہ قرضوں کی فوری ادائیگی کے لیے شاید آئی ایم ایف کے پاس بھی جانا پڑے۔ پھر کہا کہ دوست ممالک کا تعاون حاصل ہو گیا تو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آخر میں یہ بیان بھی اس طرح تبدیل ہو گیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا آپشن اب بھی موجود ہے۔ گویا عمران خان کے وزیر اعظم بننے اور تحریک انصاف کے برسر اقتدار آتے ہی سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ معاشی مسائل پر قابو پانے کا واحد حل یہی دکھائی دیا کہ کشکول گدائی لے کر ملکوں ملکوں گھومتے پھریں۔ اس سے ملک کو کچھ حاصل نہ ہو تب بھی وفد کے ارکان بیرونی ممالک کے دورے اور سیر سپاٹے تو کر لیں گے۔ وزیراعظم کے دورۂ سعودی عرب میں یہ تاثر دیا گیا کہ شاید پاکستان کا اقتصادی بحران اسی ایک ملک کی مدد سے ختم ہو جائے، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ سعودی عرب نے بیل آئوٹ پیکیج کے طور پر صرف تین ارب ڈالر دیئے، جبکہ تین ارب ڈالر تیل ایک سال تک اور پھر اگلے دو برسوں کے لیے ہر سال تین ارب ڈالر کا تیل ادائیگی میں تاخیر کی سہولت کے ساتھ دینا منظور کیا۔ وزیر خزانہ اسد عمر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ سعودی عرب نے ہمارا بارہ ارب ڈالر کا خلا پر کرنے کے لیے فوری طور پر چھ ارب ڈالر فراہم کر دیئے ہیں، حالانکہ ان کی شرائط اور تفصیلات طے ہونا ابھی باقی ہیں۔
اسی طرح چین کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ کچھ رقم وہاں سے ملی ہے۔ چین کا پاکستان پہلے ہی مقروض ہے۔ وزیراعظم کے حالیہ دورۂ چین کے موقع پر چین نے فوری طور پر دو ارب ڈالر قرضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ باقی کے وعدے اقتصادی راہداری کے منصوبوں سے منسلک ہیں۔ موعودہ دو ارب ڈالر کی تفصیلات بھی آئندہ دوطرفہ ملاقاتوں اور مذاکرات میں طے ہوں گی، جس کے لیے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی سربراہی میں ایک وفد بیجنگ میں ٹھہرا ہوا ہے۔ وفد میں اسٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ، فنانس سیکریٹری عارف خان، سیکریٹری تجارت یونس ڈھاگا اور پلاننگ سیکریٹری ظفر حسن شامل ہیں۔ حکومت نے سعودی عرب اور چین کی جانب سے اعلان کئے جانے والے قرضوں کے علاوہ ملائیشیا، ترکی اور دیگر دوست مسلم ممالک سے بھی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، لیکن اس سے پہلے ہی توازن ادائیگی کا بحران ختم ہونے کا دعویٰ ناقابل فہم ہے۔ اگر ایسا تھا تو پاکستانی کرنسی کی قدر میں زبردست کمی اور ڈالر کی قیمت میں بے حد اضافہ کیوں ہوتا؟ بجلی، گیس، تیل کی قیمتوں اور بعض ٹیکسوں میں اضافہ کر کے مہنگائی کا طوفان برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ طویل المیعاد استحکام پر توجہ دینا اپنی جگہ کتنا ہی درست عمل ہو، لیکن بائیس کروڑ غریب پاکستانی تو اس وقت بھوک، بے روزگاری، مہنگائی سے پریشان اور غذا و علاج اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ماضی میں بھی تمام حکومتوں کی جانب سے مستقبل کے سہانے خواب دکھائے جاتے رہے، لیکن عوام کو کچھ نہیں ملا۔ بلکہ ان کی مشکلات میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا رہا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی کسی بہتر تبدیلی کے بجائے سابقہ حکمرانوں کی روش برقرار رکھی ہے۔ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ بلاشبہ معاشی بحران پر قابو پانے کا ایک کارگر اور آزمودہ نسخہ ہے، لیکن مقتدر و متمول طبقات کے معیار زندگی کو عرش سے فرش پر لائے بغیر درآمدات کم ہو سکتی ہیں نہ برآمدات میں اضافہ ممکن ہے۔ شاہ محمود قریشی کا یہ فرمان بڑا عجب ہے کہ ہر دورے پر یہ سوال نہیں کیا جانا چاہئے کہ اس سے پاکستان کو کیا ملا؟ دوروں کے اخراجات عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جمع ہونے والے سرکاری خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں، اس لیے مذکورہ سوال پوچھنا ان کا حق اور معقول جواب دینا حکومت کا فرض ہے۔ سعودی عرب تو ممکن ہے کہ اپنی امداد اور قرضوں کی وصولی میں پاکستان کے ساتھ حسب سابق رعایت سے کام لے، لیکن باقی ممالک سے ایسی رعایت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ لہٰذا ہم ایک بار پھر یہ عوامی مطالبہ دہرانے پر مجبور ہیں کہ بیرونی ممالک کی بھیک پر نظر رکھنے اور ان پر انحصار کرنے کے بجائے حکومت وقت اپنی صفوں سے سادگی اور کفایت شعاری کا آغاز کرے۔ وہ اپنے رہنمائوں اور کارکنان سمیت قومی دولت کے لٹیروں سے ساری لوٹی ہوئی دولت فی الفور واپس لانے کے قانونی اور انتظامی اقدامات کرے تو سرکاری خزانہ بھرنے اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے میں دیر نہیں لگے گی، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے اپنا پِتّا مارنا ضروری ہے۔

Comments (0)
Add Comment