شہرت اور مقبولیت کے ساتھ مرزا داغ کے ہم چشموں میں اس کی عزت بھی بڑھی۔ منشی گھنشیام لال عاصی تو رنج ہی کرتے رہے کہ شاہ صاحب مبرور ہوتے تو اس بچے کو ان کا شاگرد کراتا، ورنہ اب وہ میرا ہی شاگرد ہو جاتا۔ لیکن منشی گھنشیام لال عاصی اور مرزا نوشہ، یہ سب داغ کی طلبی قلعے میں ہوجانے کے بعد اپنی جگہ پر سمجھ چکے تھے کہ سیمرغیست ولے نصیب دام مانیست۔ ذوق کی شاگردی اور مرزا نوشہ کی صحبتوں نے داغ کی مہارت اور لیاقت دونوں کو روشنی کی رفتار سے جلا کرنی شروع کر دی تھی۔ کبھی کبھی رشک یا حسد کے مارے داغ پر اعتراض بھی کر دیتے، لیکن ایسے مواقع پر داغ اپنے استاد کی طرح اپنا دفاع خود کرلیتا، اور استاد بھی اس کی ہمت بڑھاتے کہ خود کہتے ہو تو خود جواب بھی مہیا کرو، ورنہ بالآخر ہم تو ہیں ہی، تمہاری استمداد کو ہمہ وقت مہیا ہیں۔ ایک بار شہر کی ایک محفل میں داغ نے غزل پڑھی:
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
زبان کا لطف، بندش کی چستی، مضمون کی شوخی، اس پر
بے تکلف گفتگو کے انداز میں معاملہ بندی، اہل دہلی نے یہ
ادائیں سودا اور قائم کے بعد نہ دیکھی تھیں۔ تحسین و آفریں کا شور ہر طرف سے گرم ہوا۔ بعد میں جو شعر داغ نے پڑھے وہ بھی اپنی مثال آپ تھے:
افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
داد کے ڈونگروں کے درمیان داغ نے مقطع پڑھا
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
جب داد کا شور کچھ تھما تو ایک بزرگ نے فرمایا، ’’سبحان اللہ، یہ عمر اور یہ شعر!‘‘۔ ایک اور صاحب نے ہنس کر کہا، ’’صاحب زادے ابھی تو نام خدا اٹھتی جوانی ہے، ابھی سے یہ مضمون کہاں سے سوجھ گیا؟‘‘۔ ’’جی میں عرض کروں؟‘‘۔ ڈھلتی عمر کے ایک شخص نے، جو صورت سے کسی مدرسے کے مولوی لگتے تھے، ذرا بلند آواز میں کہا۔
’’ضرور، مولوی صاحب، ضرور فرمائیں‘‘۔ مجمعے سے آوازیں آئیں۔
مولوی صاحب نے کھنکھار کر کہا، ’’اجی حضرت یہ مضمون خدائے سخن میر محمد تقی صاحب میر اعلیٰ اللہ مقامہ کا ہے‘‘۔ پھر انہوں نے حسب ذیل شعر پڑھے:
کیا فہم کیا فراست ذوق بصر سماعت
تاب و توان و طاقت یہ کر گئے سفر سب
منزل کو مرگ کی تھا آخر مجھے پہنچنا
بھیجا ہے میں نے اپنا اسباب پیشتر سب
ایک لمحے کے لئے خاموشی چھا گئی۔ پھر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے فرمایا، ’’بھئی یہ تو درست ہے کہ میر صاحب اس مضمون کو پہلے باندھ گئے ہیں، لیکن میاں داغ کے مقطعے میں ایک برجستگی ہے، جو بہت بھی معلوم ہوتی ہے…‘‘
’’سرکار، قطع کلام معاف ہو‘‘۔ داغ نے کھڑے ہوکر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ ’’بندے کو بالکل نہیں یاد کہ خدائے سخن کے یہ شعر کب میری نظر سے گزرے اور گزرے بھی کہ نہیں…‘‘۔
’’نہ سہی سرقہ‘‘۔ مولوی صاحب نے ذرا تیزی سے کہا۔ ’’توارد تو ہوا‘‘۔
’’بیشک توارد ہوا‘‘۔ داغ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’بندہ تو سرقے کا الزام بھی اپنے سر لینے کو تیار ہے۔ لیکن میں دو شعر پڑھتا ہوں، ایک خدائے سخن میر تقی صاحب کا ہے اور ایک ان سے پہلے ایک شاعر گزرے ہیں امیر معزی، ان کا ہے۔ مولوی صاحب انہیں سن کر محاکمہ فرمادیں کہ سرقہ یا توارد کس سے سر زد ہوا‘‘۔
مولوی صاحب تھوڑا گرم ہوکر بولے، ’’اپنی بحث اپنے ہی شعروں تک رکھئے…‘‘۔
مجمعے میں سے کچھ آوازیں آئیں۔ ’’نہیں صاحب، ذرا وہ شعر بھی سن لیں‘‘۔
داغ نے کہا، ’’بہت خوب، حاضر کرتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے پہلے معزی کا شعر پڑھا، پھر حضرت میرتقی صاحب کا۔
ہمی گوئی کہ با تو اتحادے ست
بگو ظالم کہ مارا اعتمادے ست
شعر پر واہ واہ ختم ہوئی تو داغ نے پڑھا:
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو
لوگ ایک ثانیہ چپ رہے، پھر کسی نے کہا، ’’اگر معزی پہلے ہیں تو یہ سراسر سرقہ ہے میر صاحب مرحوم کا‘‘۔
اب معاملہ شعر فارسی کی تاریخ کا تھا، اس لئے کچھ لوگوں نے نواب مصطفیٰ خان کی طرف دیکھا اور کچھ نے مولانا صہبائی کی طرف۔
مولانا نے فرمایا: ’’امیر الشعرا امیر معزی سلجوقی عہد کے ہیں، سلطان سنجر نے انہیں امیرالشعر کا خطاب دیا تھا۔ ان کا انتقال 520 کے لگ بھگ ہوا، یعنی میر تقی صاحب کے سات سو برس پہلے، جو 1225 میں اللہ کو پیارے ہوئے‘‘۔
’’تو گویا میر صاحب نے سرقہ کیا‘‘۔ ایک صاحب بولے۔
’’نہیں۔ سرقہ اور توارد کے احکام بہت پیچیدہ ہیں۔ امام عبدالقاہر جرجانی تو سرقے کے وجود سے قریب قریب انکار ہی کرتے ہیں‘‘۔ مولانا صہبائی نے کہا۔
’’فدوی کا التماس یہ ہے کہ جناب کہ سرقہ ہو یا توارد، سبھی سے سرزد ہو سکتا ہے۔ ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند‘‘۔ داغ نے کہا، جو اب تک حسب سابق سر محفل کھڑا ہوا تھا۔
’’ممکن ہے میر صاحب نے امیر معزی کا ترجمہ کیا ہو۔ یہ بھی ایک فن ہے‘‘۔ مولانا صہبائی نے فرمایا۔
’’بے شک، لیکن الفضل للمتقدم تو ہے ہی‘‘۔ نواب مصطفیٰ خان نے جواب دیا۔
’’جی ہاں، اسی اعتبار سے بندہ بھی خدائے سخن کی افضلیت کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہے‘‘۔ داغ نے جھک کر دونوں بزرگوں کو سلام کرتے ہوئے عرض کیا۔
اس محفل کے چرچے دیر تک رہے۔ عام طور پر لوگوں کا خیال تھا کہ داغ نے اگر سرقہ بھی کیا تو بڑے لطف کے ساتھ اور اس کا الزامی جواب بھی خوب تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭