منصور اصغر راجہ
مولانا سمیع الحقؒ بنیادی طور پر قلم اور کتاب کے آدمی تھے۔ اِس پر اُن کا تصنیفی و تالیفی کام بھی گواہ ہے اور سات عشروں پر محیط درس و تدریس کا سنہرا دور بھی۔ لیکن 80ء کی دہائی میں جب انہوں نے خارزارِ سیاست میں قدم رکھا تو ان کے جوہر مزید کھل کر سامنے آئے۔ اس میدان میں بھی انہوں نے حق گوئی کی شاندار مثالیں قائم کیں۔ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے 5,6 مارچ 1988ء کو دو روزہ گول میز کانفرنس بلائی تاکہ اس سلسلے میں سیاسی و غیر سیاسی زعما سے بھی رائے لی جا سکے۔ مولانا سمیع الحقؒ بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کی شدید مخالفت کی اور اس معاہدے کو پاکستان کے لیے دوسرا معاہدہ تاشقند قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کے منہ پر کہا کہ ’’جنیوا معاہدے پر دستخط درحقیقت افغان شہداء کے خون سے مذاق ہوگا۔ اس معاہدے کا افغانستان سے روسی افواج کی واپسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکہ اپنی نئی حکمت عملی کے تحت اب ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔ ایک افغانستان سے روسی افواج کا انخلا اور دوسرا افغانستا ن میں مجاہدین کی آزاد اسلامی حکومت کے قیام میں رکاوٹ۔ کیونکہ دنیا بھر کی سوشلسٹ، کمیونسٹ اور سیکولر حکومتیں بظاہر تو افغانوں کی حمایت کر رہی ہیں، لیکن وہاں آزاد اسلامی حکومت کا قیام ہر گز نہیں چاہتیں۔ لہٰذا پاکستان کو موجودہ حالات میں جنیوا معاہدے پر دستخط کرکے افغان مجاہدین جیسی مضبوط حلیف قوت کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ پاکستان کی بقا و سلامتی اس میں ہے کہ اس کے مغربی پڑوس میں ایک خالص آزاد اسلامی ریاست قائم ہو۔‘‘ جنیوا معاہدے کے بعد سے اب تک ہمارے مغربی پڑوس افغانستان میں جو کچھ ہوا اورجو ہو رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے مولانا سمیع الحق کی بصیرت کی داد دینی پڑتی ہے۔ قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید شاید اسی کو کہتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جب پرویز مشرف نے افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر پرویز مشرف کی طرف سے بلائی گئی ایک میٹنگ میں مولانا سمیع الحقؒ نے دوٹوک الفاظ میں اُس طالع آزما سے کہا کہ ’’صدر صاحب! یہ فیصلہ کرکے پاکستان اور مسلم امہ کی بیس سالہ قربانی کو تباہ کیا جا رہا ہے‘‘۔ وہ پرویز مشرف کی اس پالیسی پر سخت رنجیدہ تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے فرمایا کہ ’’کسی ملک کے جرنیل کو جبراً مسلط ہو کر بیٹھنے کا حق نہیں ہوتا۔ قوم ایک جرنیل پر بڑا پیسہ خرچ کرتی ہے تاکہ وہ آزادی و سالمیت کا تحفظ کرے نہ کہ ملک کو چاندی کی پلیٹ میں رکھ کر دشمن ملک کے حوالے کر دے‘‘۔ انہوں نے 7 نومبر 2001ء کو جاپان کے معروف اخبار The Sankei Shimbun کو انٹرویو دیتے ہوئے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے کی بابت کہا کہ ’’بے شک پاکستان سب سے پہلے ہے، لیکن یہ ملک بنیادی طور پر ایک نظریئے کی بنیاد پر تخلیق ہوا۔ اس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ پہلے پاکستان اور پھر ایمان۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے اسلام اور نظریہ پاکستان کا تحفظ کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اس نظریئے کو ہی پس ِ پشت ڈال دیا تو اس پاکستان کی ساری عمارت ہی گر جائے گی‘‘۔
مولانا سمیع الحقؒ امریکہ و مغرب کے منافقانہ رویوں کے سخت ناقد تھے اور اس سلسلے میں انہیں عملی تجربہ بھی تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں پر بنیاد پرستی کا الزام لگانے والے امریکہ و مغرب خود سب سے بڑے بنیاد پرست ہیں۔ انہوں نے 2000ء میں ایک کورین نیوز سروس کی خاتون رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا: ’’یورپ نے بنیاد پرستی کا ڈرامہ رچا رکھا ہے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے یہ اصطلاح گھڑی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ بنیاد پرست کیا ہوتا ہے۔ موجودہ عربی میں بنیاد پرستوں کو اصولیین کہتے ہیں۔ ہر مذہب اور قوم کے اپنے کچھ اصول، اخلاقی اقدار اور تہذیب و ثقافت ہوتی ہے۔ اگر ان کے ساتھ وابستگی کو بنیاد پرستی کہا جاتا ہے تو پھر کون بنیاد پرست نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑے بنیاد پرست تو مغرب والے ہیں۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہم آپ سے اسی لباس میں مل رہے ہیں، جو آپ نے اِس وقت پہن رکھا ہے۔ آپ کو شرعی پردہ کرنے پر مجبور نہیں کر رہے، کیونکہ آپ غیر مسلم ہیں اور یہ حکم آپ پر لاگو نہیں ہوتا۔ لیکن مغربی ممالک میں تو مسلمان بچیوں کو اسکارف پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مجھے ایک دفعہ اسپین میں مسجد قرطبہ کے اندر جوتوں سمیت جانے پر مجبور کیا گیا۔ وہاں موجود حکام نے کہا کہ آپ نے مسجد کے اندر جاتے ہوئے جوتے نہیں اتارنے اور نہ ہی وہاں دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ ایک بار یونان جانا ہوا تو وہاں پورے ایتھنز شہر میں ایک بھی مسجد نہیں تھی۔ ہم نے وہاں نمازِ جمعہ ایک سفیر کے ہاں ادا کی، جنہوں نے اپنے گھر کے گیراج میں نماز کے لیے جگہ بنا رکھی تھی۔‘‘ مولانا سمیع الحقؒ امریکہ و مغرب کو تمام مشرقی اقوام کا مشترکہ دشمن قرار دیا کرتے تھے۔ اسی انٹرویو میں جب رپورٹر نے ان سے کہا کہ کوریا اگرچہ مسلمان ملک نہیں ہے، لیکن کیا آپ کورین عوام کو اپنی طرف سے کوئی پیغام دینا چاہیں گے تو انہوں نے فرمایا: ’’اگرچہ پورے مشرق میں مسلمانوں کی ایک الگ کمیونٹی ہے، لیکن مشرقیت کے لحاظ سے اور مشرقی قوم ہونے کے ناتے ہم اور آپ سب برابر ہیں۔ مغرب ہمارا مشترکہ دشمن ہے۔ وہ ہمارے دین و نظریات کا بھی دشمن ہے اور اقتصادی ترقی کا بھی۔ وہ ہم سب کو آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ جاپان پر ایٹم بم گرائے جانے کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ اس لیے میرا یہی پیغام ہے کہ ہم سب مشرقی اقوام کوریا، تائیوان، چین، جاپان وغیرہ باہم مل کر اپنا تحفظ کر سکتے ہیں۔ ہمیں مغرب کی چالوں میں نہیں آنا چاہئے۔ ہم مسلمان بدھ مذہب کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ہماری گوتم بدھ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔‘‘
مولانا سمیع الحقؒ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ناموس صحابہؓ کے لیے خود کو ہمہ وقت تیار رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قانون توہین رسالت کا اگر صحیح استعمال کیا جائے تو اس کا سب سے زیادہ فوری فائدہ اُس ملزم کو پہنچتا ہے، جس پر توہین رسالت کا الزام لگتا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں اگر قانون توہین رسالت کو غیر موثر بنا دیا جائے تو ملک میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پرویز مشرف دور میں جب حکومت نے قانون توہین رسالت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو انہوں نے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ توہین رسالت ہر مذہب میں جرم ہے۔ ہمارے لیے تمام انبیائے کرامؑ مقدس ہیں۔ آپ لوگ بھی یہ بات کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ آپ کے پیغمبر کے خلاف کچھ کہا جائے، اس کے لیے پھانسی تک کی سزا تھی آپ کے ملک اور تاریخ میں۔ اسی طرح ہمارے ملک میں بھی اگر کوئی شخص ہمارے نبیؐ کی توہین کرے تو مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں، کیونکہ مسلمان جتنا بھی گرا پڑا ہو، یہ حرکت وہ برداشت نہیں کر سکتا۔ لوگ چاقو، بندوق نکال کر ایسے شخص کو اسی جگہ مار ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے قانون توہین رسالت اسی لیے بنوایا کہ توہین رسالت کے ملزم کو میں اور آپ سزا نہ دیں، بلکہ یہ کام حکومت خود کرے۔ چنانچہ اس قانون کی وجہ سے ان لوگوں کو بھی تحفظ مل جاتا ہے جن پر توہین رسالت کا الزام لگتا ہے۔ اس قانون کو غیر موثر بنانے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم لوگوں کے لیے قانون ہاتھ میں لینے کا راستہ کھول رہے ہیں۔ اس طرح تو خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ کوئی بھی شخص اٹھ کر لائوڈ اسپیکر پر اعلان کرے گا کہ بھائیو! باہر نکلو، فلاں شخص گستاخی کا مرتکب ہوا ہے اور لوگ جھپٹ پڑیں گے۔ تو ہماری کوشش یہ ہے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور توہین رسالت کی آڑ میں کوئی بے گناہ نہ مارا جائے۔ لیکن آپ لوگ اس پر خوش ہونے کے بجائے قانون توہین رسالت کے بارے میں واویلا کرتے ہیں۔ یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی‘‘۔
دہشت گردی اور جہاد کے بارے میں مولانا سمیع الحقؒ کی رائے بڑی واضح تھی۔ 24 جون 2000ء کو انہوں نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا: ’’اگر میں نقاب اوڑھ کر رات کے اندھیرے میں یہاں سے نکلوں۔ کلاشنکوف میرے پاس ہو۔ میں سڑک پر بس روک کر عورتوں کو اغوا کروں، لوگوں کو قتل کروں اور لوٹ مار کروں تو یہ Terrorism ہے۔ لیکن اگر میں سکون سے اپنے گھر میں بیٹھا ہوں اور چند غنڈے میرے گھر کا دروازہ پھلانگ کر اندر آجائیں۔ وہ مجھے رسیوں سے باندھنے کی کوشش کریں، میرا گھر لوٹنا چاہیں، مجھے قتل کرنا چاہیں اور میں ان کے حملے اور لوٹ مار سے بچنے کے لیے اپنا پستول اٹھا کر ان کے مقابلے میں ڈٹ جائوں تو یہ جہاد ہے۔ سڑک پر جو فعل ہو رہا ہے، وہ دہشت گردی ہے، لیکن اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے گھر، اپنے بچوں، اپنی عصمت و کردار اور اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے لڑنا جہاد ہے۔ آپ لوگ یہ فرق کیوں نہیں محسوس کرتے؟‘‘
مولانا سمیع الحقؒ دینی مدارس کی آزادی ازحد ضروری خیال کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جن مدارس میں حکومت مداخلت کرتی ہے، وہاںسے جرأت مند علما پیدا ہونے بند ہو جاتے ہیں۔ فروری 2000ء میں ایک جاپانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’ہمارے بنیادی اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ مدرسہ کسی حکومت کی امداد قبول نہیں کرے گا۔ دیوبند میں بھی یہی اصول ہوتے تھے۔ کیونکہ حکومت اس امداد کی آڑ میں ہمارے نظام میں مداخلت شروع کردیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آزادی کے ساتھ دین کا کام کرنے والے جرأت مند علما پیدا نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن دینی اداروں کو محکمہ اوقاف اپنے تسلط میں لے، وہ ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے نظام کا کنٹرول کسی کے ہاتھ میں دینا قبول نہیں کرتے۔ چنانچہ حق تعالیٰ ہماری اس طرح مدد فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کے منصوبے بجٹ کے تابع ہوتے ہیں، جبکہ دینی مدارس کا بجٹ منصوبوں کے تابع ہوتا ہے۔‘‘
مولانا سمیع الحقؒ صحیح معنوں میں داعی اتحاد امت تھے۔ انہوں نے جب بھی کسی پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کو اکٹھا کیا تو بریلوی علمائے کرام ان کے طرف بیٹھے ہوتے تھے اور اہلحدیث حضرات دوسری جانب۔ دفاع افغانستان کونسل میں حضرت شاہ احمد نورانیؒ اور ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی شہیدؒ ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ ایک بار ملکی و غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ ’’بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ افغانستان پہلی دیوبندی ریاست ہے، اس لیے اُس سے آپ کی جذباتی وابستگی ہے؟‘‘ تو اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! اگر وہ بریلوی ریاست بھی ہوتی، میں تب بھی اس کا ساتھ دیتا۔ میرے ذہن میں تو یہ خیال تک بھی نہیں آیا۔ اگر کوئی بھی اسلامی ریاست ہو تو ہم اس کے دفاع کے لیے ضرور اٹھ کھڑے ہوتے۔‘‘
سیانے کہتے ہیں کہ سچی وطن دوستی اور انسان دوستی میں آپس میں لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ وطن دوستی کے بغیر انسان دوستی اور انسان دوستی کے بغیر وطن دوستی محض ایک مغالطہ ہے۔ مولانا سمیع الحقؒ وطن دوست بھی تھے اور انسان دوست بھی۔ وہ اپنے ملک کے اندر کسی بھی قسم کی مسلح جدوجہد کے ہمیشہ مخالف رہے اور ان کی انسان دوستی کے مظاہر تو ان کی مظلومانہ شہادت کے بعد بھی دیکھنے میں آئے کہ ان کے جنازے میں لاکھوں شاگردوں اور معتقدین نے شرکت کی، لیکن احتجاج کے نام پر کہیں گھاس کا ایک تنکا تک نہیں ٹوٹا، کیونکہ انہوں نے اپنے معتقدین اور شاگردوں کو ساری زندگی یہی تعلیم دی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭