جمعرات کے روز دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے تحت کراچی میں فقید المثال تحفظ ناموس رسالت ملین مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کرکے ناموس رسالت کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ دوسری جانب توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ مسیح کی رہائی اور بیرون ملک منتقلی کی افواہوں نے اہل وطن کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بدھ کی رات مقامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ برطانوی نشریاتی ادارے نے بھی ملعونہ کی ملتان جیل سے بیرون ملک روانگی کی خبریں چلائیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے بعد میں ان خبروں کی تردید کی گئی۔ حکومت کا تحریک لبیک کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل کا فیصلہ ہونے تک آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی شرط طے ہوئی تھی۔ تحریک لبیک کے رہنما پیر افضل قادری کے بقول حکومت نے معاہدے کے مطابق آسیہ کو روکنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم ابھی تک معاملے پر شکوک وشبہات کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اس لئے مذہبی جماعتوں کی جانب سے جمعہ کے روز یوم احتجاج منایا گیا۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی، وہاں تحفظ ناموس رسالت کیلئے تحریک چلانا پڑ رہی ہے۔ آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ درست ہے یا غلط، اس سے قطع نظر ، مغرب پرست عناصر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کو سیکولرازم کی جانب دھکیلنے میں مصروف ہیں۔ آئے روز مملکت کے اکثریتی باشندوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جاتا ہے، جن کے آباؤ اجداد نے اس ملک کیلئے بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ گزشتہ دور حکومت میں نواز شریف نے کھلے الفاظ میں سیکولر ازم کو پاکستان کا مستقبل قرار دیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے اس جانب عملی اقدامات بھی شروع کردیئے، سب سے پہلے اقبال ڈے کی چھٹی منسوخ کردی گئی۔ عمران خان اپنی تقریروں میں علامہ اقبالؒ کا نام لیتے، اشعار پڑھتے اور انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ وہ ریاست مدینہ کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، مگر ان کی حکومت بھی اقبال کو طاق نسیان کے حوالے کرنے میں سابقہ حکومت کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں یوم اقبال کی چھٹی کی بحالی کے حوالے سے قراردار پیش ہوئی۔ مقام عبرت کہ سب سے پہلے مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال نے اس قرارداد کی مخالفت کی، حالانکہ نواز لیگ اپنا تعلق پاکستان بنانے والی جماعت سے جوڑتی ہے اور علامہ اقبالؒ ہی مفکر پاکستان ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں تعطیلات کے بجائے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہئے۔ اسی میں ملکی ترقی کا راز پنہاں ہے۔ مگر سال میں باون اعلانیہ سرکاری تعطیلات کے ساتھ چھٹیوں کیلئے بہانے تلاش کرنے والی قوم کو کام یاد آیا تو صرف یوم اقبالؒ کے موقع پر!؟ سب سے پہلے اقبال ڈے کی چھٹی منسوخ کرنا اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے، جتنا بتایا جا رہا ہے۔ یہ دراصل اقبال سے جان چھڑانے کی کوشش ہے۔ جس کا آغاز بہت پہلے تعلیمی اداروں کے نصاب سے اقبال پر معتدبہ مواد کو خارج کر کے کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نو نومبر اٹھارہ سو ستتر کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انیس سو ستتر میں جب اقبال کی پیدائش کے سو برس مکمل ہوئے تو بھارت میں بھی یوم اقبال بڑے جوش و خروش منایا گیا تھا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے بھی یوم اقبال شایان شان طریقے سے منایا اور انہی کے دور سے یوم اقبال کے موقع پر سرکاری تعطیل شروع ہوئی۔ لیکن دوہزار پندرہ میں پہلی بار نواز شریف حکومت نے اقبال ڈے کی چھٹی منسوخ کر دی۔ دلچسپ بات یہ کہ اس وقت تحریک انصاف نے خیبرپختون میں تعطیل کا اعلان کر کے خود کو اقبال کا سچا وارث ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگروفاق میں اقتدار سنبھال کر وہ بھی اپنی یہ وراثت بھول گئی۔ پاکستان کو سیکولر بنانا طاغوتی قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کا دیرینہ خواب ہے۔ اس مقصد کیلئے بانی پاکستان کی تقریر کے ایک پیراگراف کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اس سے سیکولرازم کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ قائد اپنے واضح فرمودات میں قرآن عظیم کو مملکت خداداد کا آئین قرار دیکر اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق چلانے کا باربار اعلان کر چکے ہیں۔ مگر اقبال کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ اقبال کے حوالے سے اس قسم کی کوئی واردات کی گنجائش نہیں ہے۔ اقبال کی پوری زندگی اور ان کی شاعری اسلام سے عبارت ہے۔ اقبال کو بہت قریب سے دیکھنے والے مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندویؒ تو انہیں صاحبِ کشف ولی قرار دیتے ہیں۔ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال نے لکھا ہے کہ والدہ کی وفات کے موقع پر بھی میں نے انہیں روتے نہیں دیکھا، لیکن جب سرکار دو عالمؐ کا نام لیا جاتا تو بے اختیار آنکھیں چھلک پڑتیں۔ اقبال کے اشعار اور فرامین میں تحریف کا کوئی امکان نہیں ہے، اس لئے منصوبے کے تحت اقبال ہی کو قومی یادداشت سے محو کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ چند برسوں بعد نئی نسل اقبال کے نام سے بھی نا آشنا ہوگی۔ اس سے اقبال کی ہستی پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ انہیں پاکستان یا ہندوستان نہیں، بلکہ پوری دنیا جانتی اور مانتی ہے۔ عرب دنیا انہیں ’’فیلسوف اسلام‘‘ کا خطاب دیکر ان پر فخر کرتی ہے۔ مغربی یونیورسٹیوں میں بھی اقبال داخل نصاب ہیں۔ اقبال اور ان کے اشعار کو بقائے دوام اس لئے حاصل ہے کہ انہیں رسالت مآبؐ کی ذات اقدس سے گہری وابستگی، وارفتگی و شیفتگی تھی۔ اگر ہمارے حکمراں بھی عروج چاہتے ہیں تو انہیں بھی آقائے مدنیؐ کے دامن مبارک سے وابستہ ہونا پڑے گا۔ بقول اقبال: ’’دل ز عشق او توانا می شود… خاک ہمدوش ثریا می شود‘‘ (سرکارؐ کے عشق سے ہی قوت ملتی ہے، آپؐ کے قدم کو لگنے والی مٹی بھی اوج ثریا سے بلند ہوتی ہے) مالی امداد کی لالچ اور طاغوتی قوتوں کے دباؤ سمیت کسی بڑے سے بڑے دنیوی مفاد کیلئے ناموس رسالت پر سمجھوتہ کر لیا تو موجودہ حکومت کا انجام بھی اپنے پیشروئوں سے مختلف نہ ہوگا۔ ’’کی محمدؐ سے وفا تو ہم تیرے ہیں… یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‘‘ ٭
٭٭٭٭٭