امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان نے اس جنگ میں نہ صرف 100 ارب ڈالرز سے زیادہ کا اقتصادی نقصان اٹھایا ہے، جبکہ 80 ہزار پاکستانی بھی اس جنگ کی بھینٹ چڑھے ہیں، جن میں دس ہزار سیکورٹی فورسز اور فوج کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ لیکن امریکہ ہماری قربانیوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں، لیکن امریکہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی جانب سے پاکستانی قربانیوں کی تحقیر خود اپنی تحقیر کے مترادف ہے کہ جس کی ایما پر پاکستان نے دہشت گردی کی اس جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ اگر امریکہ ہماری کوششوں کی تحقیر کے لیے کچھ اقدامات اٹھاتا ہے تو اسے یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ تحقیر اور نقصان اس کا بھی ہوگا۔
قطع نظر اس سے کہ امریکہ پاکستان کو فوجی امداد دیتا ہے یا ایف16- طیارے فراہم کرتا ہے، پاکستان کو مستقبل میں اپنی حکمت عملی کو ضرور تبدیل کرنا چاہئے۔ روس نے پاکستان پر برسوں سے عائد پابندی اٹھالی ہے اور اب پاکستان کے لیے جدید ترین روسی ہتھیاروں کی خریداری کے دروازے کھل چکے ہیں۔ پاکستان روس سے جدید ترین MI-35 گن شپ ہیلی کاپٹرز حاصل کر چکا ہے جو پاک آرمی ایوی ایشن کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے لیے جدید ترین اور ہائی ٹیک روسی ملٹی رول طیاروں کی خریداری کے دروازے بھی کھلے ہوئے ہیں، بلکہ اس وقت روس پاکستان کو ہر وہ ہتھیار فروخت کرنے پر تیار ہے جو پاکستان خریدنا چاہے۔ پاکستان کو رفتہ رفتہ امریکی ہتھیاروں سے جان چھڑا کر اس کی جگہ روسی اور چینی ہتھیاروں کو حاصل کرنا چاہئے۔
امریکہ نے ایف16- طیاروں کی ٹیکنالوجی بھارت منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کے بعد بھارت نہ صرف یہ طیارے اپنے لیے بنائے گا، بلکہ امریکہ کی اجازت سے ایف16- اور اس کے اسپیئر پارٹس بھی دیگر ممالک کو فروخت کرے گا۔ امریکہ کے اس فیصلے کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے، کیونکہ پاکستان ایئر فورس 84 کے قریب امریکی ایف16- طیارے آپریٹ کررہی ہے۔ چنانچہ جلد یا بدیر پاکستان کو ایف16- طیارے ختم کرنا پڑیں گے، کیونکہ ان کی مینٹننس کے مسائل پیدا ہوں گے۔ چین کے تعاون سے جدید ترین JF-17 طیاروں کی تیاری ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے، کیونکہ اس طرح پاکستان جدید طیاروں کی تیاریوں میں خود کفالت کی طرف گامزن ہو چکا ہے۔ بلاک2- کے JF-17 طیارے پاکستان ایئر فورس میں شامل ہو چکے ہیں۔ جبکہ اسٹیٹ آف دی آرٹ بلاک3- کے JF-17 طیاروں پر کام جاری ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ 2020ء تک یہ پاکستان ایئر فورس میں شامل ہو جائیں گے۔
پاکستان ایئر فورس میں ایف16- طیاروں کے ساتھ ساتھ پاک فضائیہ میں محدود تعداد میں روسی SU-85 طیارے یا پھر چینیJ-11 یا پھر J-10B ملٹی رول طیارے شامل کئے جا سکتے ہیں، جن کی شمولیت کے بعد ایف16- طیاروں کی کمی محسوس نہیں کی جائے گی اور پاکستان ایئر فورس اپنے ہائی ٹیک اور میڈیم طیاروں کے کمبی نیشن کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ مستقبل میں پاکستان ایئر فورس 250 تا 300 عدد JF-17 طیارے آپریٹ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور یہ طیارے پاکستان ایئر فورس کے موجودہ فرانسیسی میراج اور چینی F-7 طیاروں کی جگہ لیں گے۔
پاکستانی دفاعی منصوبہ سازوں کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کا بھارت کے ساتھ بڑھتا تعلق اور اسے اپنا اسٹرٹیجک اتحادی بنانے کے بعد پورے علاقے کی صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔
بھارت بڑی تیزی کے ساتھ اپنی مسلح افواج کو امریکی اور اسرائیلی ہتھیاروں کے ساتھ جدید بنانے کے ایک لانگ ٹرم منصوبے پر عمل پیرا ہے، جبکہ روس سے اس کے دفاعی تعلقات میں دوری آرہی ہے اور پاکستان کے روس کے ساتھ دفاعی تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں اس موقع پر امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کی خریداری میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اپنے ہائی ٹیک ہتھیاروں کے لیے امریکہ کے بجائے روس، چین، یوکرائن، جمہوریہ سلاواکیہ، پولینڈ اور دیگر ممالک کا انتخاب کریں اور ہتھیاروں کے ساتھ ان کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کریں، تاکہ انہیں مقامی طور پر تیار کر کے خود کفالت کی منزل حاصل کی جاسکے۔
پاکستانی بری فوج نے اس سلسلے میں اچھی پیش رفت کی ہے، چین کی مدد سے الخالد ٹینک کی تیاری اس کی اچھی مثال ہے۔ بری فوج اب الخالد2- اور حیدر مین بیٹل ٹینکوں پر کام کر رہی ہے۔ 1996ء میں یوکرائن سے T-80UD ٹینکوں کی خریداری کا فیصلہ درست سمت میں ایک قدم تھا۔ یوکرائن سے ٹینک سازی کے شعبے میں اشتراک جاری ہے۔ الخالد ٹینک کی طرح الخالد 2 میں بھی یوکرائن کے انجن نصب کئے جائیںگے، جبکہ پاکستان یوکرائن کے درمیان ٹینک انجنوں کی مشترکہ تیاری کا معاہدہ بھی طے پا چکا ہے۔ پاکستان کے لیے یوکرائن نے Oplat-P نامی ٹینک تیار کیا ہے اور اس ٹینک کے آزمائشی ماڈلز (Prafotype) کی پاکستان میں آزمائشیں جاری ہیں، جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ 2018ء میں یوکرائن کو 150 عدد ٹینکوں کی پہلی Batch کا آرڈر دیا جائے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ پاکستان مجموعی طور پر 450 کے قریب Oplat-P ٹینک بری فوج میں شامل کرے گا۔
پاکستان ترکی، آذربائیجان اور جنوبی افریقہ سے بھی اپنے دفاعی تعلقات کو بڑھا رہا ہے۔ جمہوریہ سلاواکیہ سے اسالٹ رائفل کی تیاریوں کا معاہدہ طے پاچکا ہے، جس کے تحت جدید ترین اسالٹ رائفلیں پاکستان میں تیار کی جائیں گی، جو بری فوج کے زیراستعمال جرمن G-3 رائفلوں کی جگہ لیں گی۔ جنوبی افریقہ سے پاکستان اینٹی ایئرکرافٹ اور ایئرٹو میزائلوں کی خریداری کرنا چاہتا ہے۔ ترکی پاکستان کو Altay ٹینک اور A-129 قسم کے اٹیک ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جبکہ ترکی نے پاکستان کو برطانیہ کے ساتھ مل کر پانچویں نسل کے جدید ترین طیارے کی تیاری کے منصوبے میں بھی شرکت کی دعوت دی ہے، جس پر پاکستان غور کر رہا ہے۔ پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان بھی مختلف دفاعی منصوبوں میں تعاون کا معاہدہ طے پاچکا ہے۔ ترکی پاکستان کو جدید ترین فاسٹ اٹیک میزائل بوٹس اور کورویٹیز فراہم کرے گا اور ان کی ٹیکنالوجی بھی، تاکہ پاکستان ان بوٹس اور کورویٹیز کو مقامی طور پر تیار کر سکے۔
چین کا دفاعی میدان میں پاکستان کو سپورٹ کرنے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا منصوبہ پاکستانی تاریخ کا بڑی سنہری باب ہے۔ چین نے پاکستان کو دفاعی طور پر مضبوط بنانے میں انتہائی اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ آج پاکستان دفاعی میدان میں خود کفالت کے جس درجے پر کھڑا ہے، وہ چین کے گرانقدر تعاون ہی سے ممکن ہو سکا ہے۔ چین نے پاکستان کو 1960ء کی دہائی سے دفاعی تعاون اور ہتھیاروں کی فراہمی شروع کی۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد جب امریکہ نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کی تو پاکستان نے اس جنگ میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے چین سے پہلی مرتبہ F-6 لڑاکا طیارے حاصل کئے، جو روسی مگ19- طیاروں کی چینی کاپی تھے۔ چین نے ہی F-6 ری بلڈ فیکٹری اور ہیوی مکینیکل کیمپس تعمیر کر کے دیا، جہاں پاکستان چین کے تعاون سے ہتھیاروں کی تیاری شروع کی۔ چین نے پاکستان کو 1980ء کی دہائی میں میزائل اور پیٹرول بوٹس فراہم کیں، جبکہ چند برس قبل چین نے پاکستان نیوی کو جدید ترین فاسٹ اٹیک میزائل بوٹس اور ان کی ٹیکنالوجی فراہم کی، جس کی مدد سے یہ بوٹس مقامی طور پر تیار کر کے پاکستان نیوی کو فراہم کی گئیں۔ حال ہی میں پاکستان اور چین کے درمیان آٹھ عدد جدید ترین یوآن کلاس ڈیزل الیکٹرک آبدوزوں کی خریداری پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ آبدوزیں چین میں جبکہ کچھ آبدوزیں پاکستان میں تیار کی جائیں گی۔ یہ چینی آبدوز جدید ترین اینٹی شپ اور اینٹی میرین ہتھیاروں سے لیس ہوں گی۔
چین نے پاکستان کو ہمہ اقسام کے اینٹی شپ میزائل بھی فراہم کئے ہیں جو بحری جہازوں اور طیاروں سے فائر کئے جا سکتے ہیں۔ ان میزائلوں میں طیاروں کے ذریعے فائر کئے جانے والے سپرسانک میزائل بھی ہیں جو ایئرکرافٹ کیریئرز کو غرق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چین نے پاکستان کو JF-17 کی تیاریوں میں جو گرانقدر تعاون فراہم کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چین نے ان طیاروں میں نصب کرنے کے لیے پاکستان کو نظر سے پرے (BVR) مار کرنے والے میزائل فراہم کئے ہیں جو 110 کلو میٹر دور کسی بھی طیارے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے پاکستان کو جدید ترین اینٹی ایئرکرافٹ میزائل بھی فراہم کئے ہیں۔٭