بلدیہ کراچی نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ادوار میں شہر کو بد امنی، بھتہ خوری، جرم پروری اور زمینوں پر قبضے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ان کی نگرانی میں غیر قانونی تعمیرات، پتھارے لگانے اور تجاوزات قائم کرنے کا سلسلہ دھڑلے سے جاری رہا اور اب سپریم کورٹ نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے اور شہر کو صاف ستھرا رکھنے کا جو حکم دیا تو بلدیہ کراچی کے کارکنان قضا و قدر کی ایک بار پھر بن آئی ہے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم کی آڑ میں کراچی کے قدیم، اہم اور مصروف ترین بازار صدر میں توڑ پھوڑ اور تباہی و بربادی کی وہ تاریخ دوہرائی کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان کی روحیں بھی تڑپ اٹھی ہوں گی۔ ایمپریس مارکیٹ کی بحالی کے نام پر ہزاروں افراد کو بے روزگار کر کے ان کے گھروں کے چولہے بجھا دیئے گئے۔ ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر نے غیر قانونی طور پر قبضہ کرانے اور ان سے بھتے وصول کرنے والے بلدیہ کراچی کے افسروں اور ملازمین کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے برعکس دلچسپ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ دکانداروں سے ماہانہ بھتہ وصول کرنے والے انسداد تجاوزات اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عملے ہی نے ایمپریس مارکیٹ صدر اور آس پاس کے علاقوں میں آپریشن کی ذمے داری سنبھالی اور پررونق علاقے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا۔ ایک ہزار کے قریب دکانوں کو تجاوزات قرار دے کر مسمار کرنے کا پروگرام تھا، لیکن آس پاس کی پانچ سو دکانوں کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ سالہا سال سے بھتے وصول کرنے والے اب تک کروڑوں نہیں، اربوں روپے کما چکے ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے ایک حکم کی آڑ میں انہوں نے اندھا دھند کارروائی کر کے ہزاروں خاندانوں کو تباہی و بربادی سے دوچار کر دیا۔ دکانداروں کو اپنا سامان اٹھانے اور محفوظ مقامات تک منتقل کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا، بلکہ دکانوں کے ساتھ سارا سامان بھی تباہ کر کے چھوڑا۔ میئر کراچی وسیم اختر کہتے ہیں کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف پارک کی زمین پر غیر قانونی مارکیٹیں بنائی گئیں۔ ہم نے دکانداروں سے کیا جانے والا تیس سالہ معاہدہ ختم کر دیا ہے اور اب وہاں پارک بنائیں گے۔ دکانداروں اور کے ایم سی کے درمیان معاہدہ ختم ہونے کے بعد متاثرین کی فہرست بنائی جائے گی۔ کوشش کریں گے کہ انہیں متبادل جگہ فراہم کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ شہر قائد کو اس کی اصل صورت میں لے کر آئیں۔ کسی کو بھی فٹ پاتھ پر جگہ نہیں گھیرنے دیں گے۔ میئر کراچی کے مذکورہ بیان سے پہلا سوال یہی اٹھتا ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف پارک کی زمین پر غیر قانونی مارکیٹیں کن لوگوں کی منظوری یا چشم پوشی سے قائم کی گئیں؟ کراچی میں کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حکمرانی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے متعدد رہنما زمینوں پر قبضے، غیر قانونی عمارات، پلازا اور مارکیٹیں تعمیر کرانے اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی میں ملوث رہے، جس کے نتیجے میں کراچی کم و بیش تیس سال تک قتل و غارت اور لوٹ مار کا مرکز بنا رہا۔
غیر قانونی تعمیرات میں ملوث سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے افسروں کی پکڑ پہلے ہونی چاہئے تھی، لیکن وہ آزاد ہیں۔ اس کے علاوہ دکانداروں سے تیس سالہ معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کر کے انہیں بے روزگار کرنا بدترین ناانصافی اور شدید ظلم ہے۔ اگر انہیں بے روزگاری سے بچانے کے لیے پارک بنا کر اس کی بیرونی دیواروں کے ساتھ دکانیں بنا دی جاتیں اور انہیں اپنی حد میں رہنے کا پابند کر دیا جاتا تو شہر کا حسن بھی باقی رہتا اور اس کی رونق میں بھی اضافہ ہوتا۔ ہزاروں خاندانوں کو بے روزگار کرنے کے بعد میئر کراچی وسیم اختر فرماتے ہیں کہ متاثرین کی فہرست بنائی جائے گی اور کوشش کریں گے کہ انہیں متبادل جگہ فراہم کی جائے۔ اہل کراچی کو اچھی طرح یاد ہے کہ لائنز ایریا کے بعض علاقوں کو اجاڑ کر وہاں کے مکینوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کے وعدے ایم کیو ایم کے ایک سابقہ دور میں کئے گئے تھے۔ اس علاقے کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ غریب خاندان تو بے گھر کر دیئے گئے، لیکن سیاسی وابستگی رکھنے والے بااثر خاندان آج بھی لائنز ایریا میں موجود اور تجاوزات میں مصروف ہیں۔ خداداد کالونی سے لائنز ایریا میں داخل ہوتے ہی گندگی، تجاوزات اور گاڑیوں کا بے ہنگم طریقے سے گزرنا پیدل چلنے والوں کے لیے عذاب سے کم نہیں۔ لوگوں کے چلتے ہوئے کاروبار کو چھین کر یہ کہنا کہ انہیں متبادل جگہ فراہم کرنے کی کوشش کریں گے، پرلے درجے کی سنگدلی ہے۔ ان کے لیے پہلے سے متبادل جگہ مقرر کر کے ہٹایا جاتا تو شاید کسی کو اتنا دکھ نہ ہوتا۔ شہر میں کسی بھی فٹ پاتھ پر جگہ گھیرنے کی اجازت نہ دینے والے میئر کراچی وسیم اختر شہر کی گنجان آبادیوں کے علاوہ گلستان جوہر جیسے کشادہ علاقے کا دورہ کر لیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہاں فٹ پاتھوں کا کس قدر بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ بلدیہ کراچی، کنٹونمنٹ بورڈ، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سمیت درجنوں ادارے ٹیکس لے کر بھی ان علاقوں کو صاف ستھرا نہیں رکھتے۔ تجاوزات کی بھرمار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان سے ماہانہ کروڑوں روپیہ بطور بھتہ وصول کیا جاتا ہو گا۔ آئے دن مختلف محکموں کا عملہ ظاہری توڑ پھوڑ کر کے جاتا ہے اور شام ہوتے ہی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر تجاوزات کے باعث بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میئر کراچی کے بیان کی یہ وضاحت مطلوب ہے کہ شہر قائد سے ان کی کیا مراد ہے؟ اس لیے کہ ایم کیو ایم کے اکثر رہنمائوں اور کارکنوں کے دلوں کے قائد محمد علی جناحؒ نہیں، ان کے اپنے خود ساختہ جلاوطن قائد تحریک ہیں۔ اگر میئر وسیم اختر اپنے اسی قائد کے شہر کو اس کی اصل صورت میں لانے کا عزم رکھتے ہیں، جو ان کے احکام و ہدایات پر قتل و خونریزی، بد امنی، قانون شکنی اور جرائم کا گڑھ بنا دیا گیا تھا تو ان سے اہل کراچی یہی کہہ سکتے ہیں کہ بخشو بی بلّی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ کراچی کے غریبوں کو روزگار اور امن چاہئے، تخریب کاری، بد امنی اور بے روزگاری نہیں۔