ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
عرب کے لفظی معنی فصیح اللسان اور زبان آور کے ہیں۔ چونکہ عرب فصاحت اور زبان آوری کے مقابلے میں ساری دنیا کو ہیچ سمجھتے تھے، اس لیے اپنا نام عرب یعنی فصیح اللسان اور دوسری قوموں کو عجم یعنی ژولید بیان رکھا تھا۔ عرب کے ایک معنی صحرا و دشت کے بھی ہیں۔ چونکہ عرب کا بڑا حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ہے، اس لیے سارے ملک کو عرب کہنے لگے۔ جغرافیائی لحاظ سے عرب جزیرہ نما ہے، جس کے تین طرف پانی اور ایک سمت خشکی ہے۔ اس کا رقبہ بارہ لاکھ مربع میل اور آبادی ایک کروڑ ہے۔ آب و ہوا گرم و خشک ہے۔ مؤرخین نے عربوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ (1) عرب بائدہ، (2) عرب عاربہ اور (3) عرب مستعربہ۔ عرب بائدہ وہ قدیم طبقہ جو ہزاروں سال پہلے مٹ چکا ہے۔ عرب عاربہ جو قحطانی کہلاتے ہیں، ان کی تاریخ موجود ہے، یہی لوگ عرب کے اصل باشندے ہیں۔ تیسرا طبقہ عرب مستعربہ کا ہے، یہ حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے ظاہر ہوا۔ ظہور اسلام کے وقت یہی دو طبقے عرب میں تھے اور اسلام کی ابتدائی تاریخ ان سے ہی وابستہ ہے۔
کعبہ سے پہلے اس مقام (مکہ) پر کوئی آبادی نہ تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی ہی میں کعبہ کو سارے عرب میں مرکزیت حاصل ہو گئی تھی۔ حضرت اسماعیلؑ کے بعد کعبے کی تولیت کا منصب ان کے لڑکے نابت کے حصے میں آیا اور دو ہی پشتوں کے بعد آل اسماعیلؑ میں اتنی کثرت ہو گئی کہ حصول معاش کے لیے انہیں مکہ سے باہر نکلنا پڑا۔ ان کے نکلنے کے بعد بنی جرہم نے کعبہ کی تولیت پر قبضہ کر لیا، مگر انہوں نے بڑی بد عنوانیاں کیں۔ خانہ کعبہ کا چڑھاوا کھا جاتے، حجاج کو ستاتے، طرح طرح کے مظالم کرتے۔ جب یہ بد عنوانیاں حد سے سوا ہو گئیں تو آل اسماعیلؑ نے انہیں مکہ سے نکال کر پھر کعبہ کی تولیت واپس لے لی اور یہ منصب نسلاً در نسلاً منتقل ہوتا ہوا عدنان تک جاپہنچا، جو بڑا تاریخی شخص تھا۔ آنحضرتؐ اور اکثر صحابہؓ کا سلسلہ نسب عدنان تک پہنچتا ہے۔ عدنان کی نسل سے خاندان قریشی کے مورث اعلیٰ فہر کا ظہور ہوا، اس کا لقب قریش تھا۔ اس کی پانچویں پشت میں قریش کا تاریخی شخص قصی پیدا ہوا۔ قریش کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کا آغاز اسی نامور شخص سے ہوتا ہے۔ قصی کا باپ اس کے بچپن میں مر گیا تھا، ماں نے قبیلہ بنی عذرہ میں دوسری شادی کر لی۔ قصی کا بچپن بنی عذرہ میں گزرا، جوان ہوا تو اپنے اصلی خاندان اور اس کی عظمت کا پتہ چلا تو بنی عذرہ کو چھوڑ کر حجاز پہنچا۔ اس زمانے میں قریش کی حالت نہایت ابتر تھی۔ ان کا کوئی نظام نہ تھا، وہ حجاز کے مختلف گوشوں میں منتشر تھے۔ قصی کے ورود کے زمانے میں حرم کی تولیت خلیل خزاعی کے ہاتھوں میں تھی۔ قصی بچپن سے نہایت حوصلہ مند، عاقل و فرزانہ اور امارت پسند تھا۔ اسے یہ منصب جلیل کا غیروں کے ہاتھوں میں رہنا گوارا نہ ہوا۔ چنانچہ اس نے بنی کنانہ کی مدد سے بنو خزاعہ کو حرم سے نکالا اور قریش کو سمیٹ کر مکہ لاکر ان کی تنظیم کر کے ایک چھوٹی سی ریاست قائم کر دی۔ قصی نے یہ چھوٹی ریاست جمہوری اصول پر قائم کی۔ ان میں تین بڑے شعبے فوجی، عدالتی اور مذہبی قائم کئے۔ پھر ان شعبوں کو کئی ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا اور ان کو قریش کے مختلف قبیلوں میں بانٹ دیا۔
خانہ کعبہ سارے عرب کا مرکز تھا۔ حج کے موقع پر ہزاروں آدمی جمع ہوتے تھے، قصی سے پہلے ان کے آرام و آسائش کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ سب سے پہلے قصی نے اس طرف توجہ کی اور قریش سے کہا: ’’حاجی ہزاروں کوس کی مسافت طے کر کے حرم کی زیارت کے لیے آتے ہیں، ان کی میزبانی ہمارا فرض ہے۔‘‘ اس تحریک پر قریش نے اس کام کے لیے سالانہ ایک رقم مقرر کر دی، جس سے منیٰ میں حجاج کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ مکہ ایک خشک اور بے آب و گیاہ مقام ہے، قصی نے چرمی حوض بنوا کر پانی کا معقول انتظام کیا۔ قصی نے مرتے وقت حرم کے تمام مناصب اپنے بیٹوں کو دیئے۔ (1) عبددار، (2) عبد مناف، (3)عبد العزیٰ (4) عبد (5) تخمر (6) برہ۔ حرم کے تمام مناصب عبددار کو، قریش کی قیادت عبد مناف کو دی، عبد مناف کے چھ بیٹے تھے۔ ان میں ہاشم رسول اقدسؐ کے دادا سب سے زیادہ با اثر تھے۔
ظہور اسلام کے وقت عرب بلکہ سارے عالم میں خالص خدا کا نام لینے والا کوئی باقی نہ رہ گیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد بہت سے پیغمبر آئے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل لوگوں نے چھوڑ دیا تھا۔ ایران، روم اور ہندوستان تمام روحانی مرکزوں کی مذہبی حرارت سرد ہو چکی تھی۔ ایران میں حکمرانوں کو راہب کا درجہ حاصل تھا۔ رعایا ان کی پرستش کرتی تھی، ملک میں کوئی اخلاقی قانون نہ تھا۔روم کی حالت ایران سے زیادہ خراب تھی۔ حضرت عیسیٰؑ، حضرت مریمؑ اور روح القدس کی شخصیت نے بیسیوں فرقے پیدا کر دیئے تھے۔ توحید کی جگہ تثلیث نے لے لی تھی۔ حکومت اور کلیسا کی کشمکش عیسائیت کی بڑی تاریک اور خون آشام تاریخ ہے۔ مذہبی پیشوائوں کی خانقاہیں عیش و نشاط کی آماجگاہیں تھیں، ہندوستان کی تاریخ میں شرک گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ زمین سے آسمان تک ہر شے خدا تھی، خدائوں کی تعداد ہندوستان کی آبادی سے زیادہ تھی، اخلاقی حالت انتہائی شرمناک تھی، ایک عورت کئی شوہر کر سکتی تھی۔ عورت کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ عورت شوہر کی موت کے بعد تمام دنیاوی لذتوں سے محروم کر دی جاتی تھی، اس لیے وہ شوہرکے ساتھ مر جانے کو زندگی پر ترجیح دیتی تھی۔
اس عالمگیر تاریکی میں بنی اسرائیل سے اصلاح کی امید ہو سکتی تھی، مگر ان کو ان کے غرور نے برباد کر دیا تھا، وہ سرکشی میں اپنے پیغمبروں کو بھی قتل کر دیتے تھے۔ اپنے آپ کو خدا کے پسندیدہ بندے قرار دیتے تھے، جن کو عذاب الٰہی نہیں چھو سکتا۔ ان کا مذہب اگرچہ الہامی تھا، لیکن وہ بھی ان کے دست برد سے محفوظ نہ رہ گیا تھا۔ ظاہری دینداری اور لفظی موشگافیاں باقی رہ گئی تھیں، انتہائی لالچی تھے، سودخوری ان کی فطرت میں داخل تھی، جس نے ان میں سنگ دلی پیدا کر دی تھی۔ اگرچہ وہ مذہب کے لحاظ سے نہایت قدیم تھے، لیکن ان کی ذلت کی وجہ سے ان کی کوئی سیاسی اہمیت نہ تھی۔ ان کا مذہبی بیت المقدس تک ان کے ہاتھوں میں نہ تھا۔ عقیدہ، مذہب، اخلاق اور سیاست ہر اعتبار سے بنی اسرائیل ایک مسخ شدہ قوم تھی۔
خود عرب کی حالت بھی دوسری قوموں سے بہتر نہ تھی، گو وہ دین ابراہیمی کے پیرو تھے، لیکن اس کی صورت بالکل مسخ ہو چکی تھی اور توحید شرک، اوہام اور بت پرستی میں چھپ گئی تھی۔ خدا کے ساتھ بے شمار بت شامل تھے۔ منات، لات، ہبل، عزیٰ باعظمت بت تھے۔ ہبل خاص خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا، فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے، جنات کو الوہیت کا مرتبہ دیتے تھے۔ جنگ جوئی، انتقام پسندی، سفاکی اور خونریزی فطرت میں داخل تھی۔ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی چھڑ جاتی جو برسہا برس جاری رہتی۔ عرب کا ہر گھر میخانہ تھا۔ قمار بازی فخر و مباہات کی چیز تھی، جوئے کی بازی میں گھر کی عورتوں کو ہار دیتے تھے۔
ایسے وقت میں ایک ہادی برحق کی ضرورت تھی، جو بھٹکتی ہوئی مخلوق کو راہ راست پر لائے اور ایک قوم کو نمونہ عمل بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرے۔ ظہور اسلام کے زمانے میں ایران، روم اور فرنگ کے خطے تعلیم و تہذیب، دولت و ثروت اور دوسرے تمدنی اثرات سے بالکل مسخ ہو چکے تھے۔ عرب کا خطہ اب تک ان تمام تمدنی اثرات سے محفوظ اور فطری سادگی پر قائم تھا۔ مختلف قسم کی برائیوں کے باوجود ان میں آزادی حریت، حق گوئی، جرأت، بے باکی، شجاعت و بہادری کے بدویانہ اخلاق موجود تھے۔ اس لیے امانت الٰہی کی تفویض اور مخلوق کی رہنمائی کے لیے اسی سادہ مگر پرجوش قوم کا انتخاب ہوا اور دنیا کے موحد اعظم حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے حضرت محمدؐ کو یہ منصب جلیل تفویض ہوا۔ آپؐ کے آباء و اجداد میں قصی بن کلاب، عبد مناف، ہاشم مشہور ہیں۔ کعبہ کے متولیوں میں قصی کے بعد ہاشم بڑے مرتبہ کے آدمی تھے۔ انہوں نے قریش کی عظمت کو قائم کیا۔ قریش کا آبائی پیشہ تجارت تھا، وہ مختلف ملکوں میں پھر کر تجارت کرتے تھے۔ ہاشم نے کوشش کر کے قیصر و نجاشی کی حدود سلطنت میں قریش کے تجارتی مال کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرایا۔ حجاج کے کھانے پینے کا سیر چشمی سے اہتمام کیا۔ انہوں نے مدینہ کے خاندان بنی نجار میں شادی کی، شادی کے بعد شام جاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ بیوہ بیوی سے ایک بیٹا شیبہ پیدا ہوا۔ ان کے بھائی مطلب کو خبر ہوئی تو وہ مدینہ جاکر یتیم بھتیجے کو لے آئے اور اپنے آغوش شفقت میں ان کو پالا۔ انہی کی پرورش کی وجہ سے شیبہ کا نام عبد المطلب پڑ گیا۔ سن شعور کو پہنچنے کے بعد عبد المطلب باپ کی جگہ کعبہ کے متولی ہوئے۔ اپنے زمانہ تولیت میں انہوں نے چاہ زم زم کا جو اٹ کر گم ہو گیا تھا، پتہ چلا کر اس کو صاف کرایا۔ عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگر وہ اپنی زندگی میں اپنے دس لڑکوں کو جوان دیکھ لیں تو ان میں سے ایک لڑکا خدا کی راہ میں قربان کریں گے۔ جب ان کی یہ آرزو پوری ہوئی تو منت اتارنے کے لیے دسوں لڑکوں کو لے کر کعبہ گئے۔ عبداللہ کے نام جو تمام اولادوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، قرعہ نکلا۔ عبدالمطلب سخت پریشان ہوئے۔ آخر میں رؤسائے قریش کے مشورے سے عبد اللہ کے بجائے سو اونٹ قربان کر کے منت پوری کی۔ اس کے بعد عبد المطلب نے قبیلہ زہرہ کے رئیس وہب بن وہب بن عبد مناف کی بیٹی آمنہ سے عبد اللہ کی شادی کر دی، تھوڑے عرصے بعد عبداللہ کا مدینہ میں انتقال ہو گیا۔
عبدالمطلب کی کنیت ابو حارث اور ابوالبطحاء تھی۔ ان کا انتقال 578ء یا 579ء میں ہوا۔ عبدالمطلب بڑے خوبصورت، طویل القامت، دانشور، فصیح و بلیغ تھے۔ وہ ملت ابراہیمی کے مطابق عبادت کرتے تھے، رمضان کا پورا مہینہ جبل حرا پر عبادت میں گزارتے۔ پرندوں، غربا اور مساکین حتیٰ کہ وحشی جانوروں کو بھی کھانا کھلاتے۔ شراب نوشی، محرم عورتوں سے نکاح اور لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے سے سخت متنفر تھے۔ حطیم میں ان کے بیٹھنے کے لیے غالیچہ بچھا رہتا تھا، جس پر کوئی دوسرا آدمی نہیں بیٹھتا تھا۔ عبدالمطلب کے پانچ بیٹوں نے کفر یا اسلام کی بنا پر شہرت پائی۔ ابولہب، ابو طالب، عبداللہ، حضرت حمزہؓ، حضرت عباسؓ۔ عبدالمطلب نے دوسرے بیٹوں کے نام ضرار، قثم، زبیر، حارث، مقوم، عبدالکعبہ اور الفیداق تھے۔ اپنے جوان بیٹے عبداللہ کے انتقال کے بعد نبی اکرمؐ کی پیدائش پر عبدالمطلب نے پوتے کا نام محمد (ﷺ) رکھا اور آٹھ سال آپؐ کی پرورش کی۔
عبدالمطلب مستجاب الدعوات تھے۔ اپنے دسترخوان سے قصداً پرندوں اور جانوروں کے لیے خوراک بچا لیتے تھے اور پہاڑوں پر لے جاکر ڈال دیتے۔ اسی بنا پر ان کو مطعم الطیر یعنی پرندوں کو کھلانے والا اور فیاض یعنی حد سے زیادہ سخی کہا جاتا تھا۔ ناگہانی مصائب میں قریش ان سے مدد حاصل کیا کرتے تھے، عام معاملات میں وہی ان کے مرجع اور ماویٰ تھے، وہ قریش کے باکمال اور فعال سردار تھے۔ عبدالمطلب 120 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ ہمیشہ اپنے بیٹوں کو ظلم و زیادتی سے منع فرماتے تھے، حاجیوں کو پانی پلانے کا کام انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ اپنے پوتے حضور اکرمؐ کی انتہائی تعظیم فرماتے اور کہا کرتے تھے ’’میرے اس بیٹے کو بڑی شان حاصل ہوگی۔‘‘ طبری کے مطابق عبد المطلب نے کاہنوں اور راہبوں سے آپؐ کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ عام الفیل میں ابرہہ کے خانہ کعبہ پر حملے پر عبد المطلب نے قریش کے چند سرداروں کے ساتھ حرم میں حاضر ہو کر حق تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔
ابن ہشام اور ابن جریر کے مطابق ان کا ترجمہ ہے: ’’الٰہی بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے، تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما۔ کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر کے مقابلے میں غالب نہ آنے پائے۔ اگر تو ان کو اور ہمارے قبیلے کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہتا ہے تو جو چاہے کرے۔ صلیب کی آل اور اس کے پرستاروں کے مقابلے میں آج اپنی آل کی مدد فرما۔ اے میرے رب! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا۔ اے میرے رب! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما۔ اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے، اپنی بستی کو تباہ کرنے سے ان کو روک۔‘‘
یہ دعائیں مانگ کر عبدالمطلب اور ان کے ساتھی اپنے بال بچوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے گئے اور ان کی دعائوں سے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچ اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے آئے اور ابرہہ کے لشکر پر سنگریزوں کی بارش کر دی، جس سے سارا لشکر تباہ و برباد ہو گیا۔ یہ واقعہ محرم میں پیش آیا، اس سال کو عام الفیل کہا گیا۔ نبی اکرمؐ کی پیدائش عام الفیل کے واقعہ کے پچاس دن بعد ہوئی۔
٭٭٭٭٭