مشاہدہ گواہ ہے کہ اگر آپ کا پڑوسی اچھا ہے تو زندگی کے نصف مسائل ازخود حل ہو جاتے ہیں اور خدا نخواستہ ہمسایہ شیطانی خصوصیات کا حامل ہو تو زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ نیک اطوار اور مددگار پڑوسی کو ہمسایا ماں جایا کہا جاتا ہے، یعنی وہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک ماں کی اولاد… دکھ درد کا سانجھی اور خوشیوں کا پرخلوص شریک اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جائے تو حیات مجبوری بن جاتی ہے اور سماجی روابط میں زہر سرایت کرجاتا ہے۔
پڑوس یا ہمسائے کے حوالے سے میں اپنے ذاتی تجربات اکثر شیئر کرتا رہتا ہوں اور ایک تازہ واقعے کے رونما ہونے کے بعد ان تجربات کے خلاصے کا اعادہ کرتا ہوں، تاکہ آپ باخبر رہیں کہ انسانوں کے عجائب خانے میں کیسے کیسے شیطان روپ بہروپ کے ذریعے معاشرے کو پراگندہ اور انسانی اقدار کو پامال کررہے ہیں… قارئین سے میں نے عرض کیا تھا کہ تقریباً چار عشرے کورنگی کراچی میں رہنے کے بعد اب ہم وسط شہر سے چالیس کلو میٹرز کی مسافت پر گڈاپ ٹائون میں واقع ایک ہائوسنگ اسکیم میں رہتے ہیں۔ اس وسیع و عریض پراجیکٹ میں مکان کا قبضہ لیتے وقت میری اہلیہ نے یاد کیا کہ اس رحمت کدے اور کورنگی والے گوشہ عافیت میں ایک چیز مشترک ہے، وہاں بھی ہم غالب کے قول…
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئےکوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو کے مصداق ویرانے کو گلزار بنا رہے تھے کہ قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو… خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو… ہر طرف سبزہ و گل اور نیم اور سفیدے کے پودے اوائل جوانی کے چُھو رہے تھے، دور دور تک کوئی مکان نہ تھا۔ ہم پڑوس کی نعمت سے محروم تھے۔ آج نئی بستی میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ مکانات تو ہمارے گرد وپیش سیکڑوں ہیں، مگر نامکمل اور زیر تعمیر ہیں۔ مکینوں سے محروم مکانات کنکریٹ کے جنگل کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اس ہائوسنگ پراجیکٹ میں چوراسی ہزار یونٹس کی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ دس ہزار گھرانے یہاں بس چکے ہیں، مگر 45 ہزار ایکڑ پر محیط اس پراجیکٹ میں یہ تعداد اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ جہاں ہمارا نشیمن واقع ہے، وہ مین گیٹ سے چودہ کلو میٹرز کی مسافت پر ہے، یہاں مکانات کی تعمیرات جاری ہیں اور الاٹیز انتظار کر رہے ہیں کہ انہیں کب مکان کا قبضہ ملتا ہے اور وہ یہاں سکونت اختیار کرسکتے ہیں۔ 2013ء سے 2018ء تک 5 برسوں میں اس منصوبے میں مکانات کی تعمیرات اور رہائش اختیار کرنے کے خواہشمند گھرانوں کا تناسب نہایت معنی خیز ہے۔
میں اس عظیم الشان اور جناتی اسکیم کے مالکان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے ماضی کے شاندار ریکارڈ کو برقرار رکھیں اور اپنے منصوبے کے معزز اراکین کو ہنگامی اور انقلابی بنیادوں پر ان کے مکانات میں بسا دیں۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ 2004ء سے 2006ء کے دوران میرے رفاہی اور فلاحی کاموں میں ہاتھ بٹانے کیلئے میرے دو دوستوں نے جاری رہائش گاہ کے عقبی پلاٹوں پر سکونت اختیار کرلی۔ ہم اپنے عزیز و اقارب کو پڑوس میں آباد ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر وقت گزرنے پر یہ راز کھلا کہ وہ اقارب نہیں، عقارب (بچھو) ہیں۔ ہم نے رشتہ مواخات کی پیروی میں انہیں تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ان کی مدد کی۔ لیکن ’’کھائے ہیں فریب اتنے… دوستی سے ڈرتے ہیں‘‘کی صورتحال ابھرنے لگی۔ دونوں پڑوسی آستین کا سانپ ثابت ہوئے۔ گویا بغل میں چھری منہ پہ رام رام جپنے والے ہمسایوں نے ہمارا جینا حرام کر دیا۔
ان میں سے ایک شخص انتھونی ہوپ کے ناول ’’دی پرزنر آف زینڈا‘‘ کا ولن بلیک مائیکل تھا۔ اسم بامسمیٰ جیسا نام ویسا ہی رنگ و روپ۔ وہی عادات و اطوار اور چال چلن… شیطانی چالوں کا ماہر اور پس پردہ رہ کر ابلیسی ڈوریاں ہلانے والا چالباز… رشوت اور سود خوری کا رسیا، پلاٹوں کے ہیر پھیر کا ماہر… میں نے ایسا دوغلا شخص آج تک نہیں دیکھا۔ اس نے بھاری داموں پر اپنا مکان فروخت کیا اور پتلی گلی سے کٹ لیا۔ دوسرا دجال صفات رکھنے والا آج بھی مایا کا سانپ بنا وہاں بیٹھا ہوا ہے اور زہریلی پھنکاریں مار رہا ہے۔ اس کی وجہ سے میں 2010ء سے دو دیوانی مقدمات بھگتا رہا ہوں۔ 2015ء میں سٹی کورٹ سے پیشی کی خواری نمٹا کر واپسی پر ایک رکشہ کے پیچھے یہ شعر پڑھا کہ ’’انسان انسان کو ڈس رہا ہے… سانپ دیکھ کر ہنس رہا ہے‘‘۔
اس موضوع پر ’’امت‘‘ میں میرا کالم مورخہ 11-08-15 کو شائع ہوا تو بے شمار ٹیلی فون کالز آئیں اور متاثرہ افراد نے کہا: ’’پروفیسر صاحب! آپ نے درست تحریر کیا ہے، سانپ اور بچھو تو بلاوجہ بدنام ہیں، اصل زہر تو خود انسانوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘ میرے یہ منافق دوست چور ہمسائے ثابت ہوئے… اس کی مختصر روداد کچھ یوں ہے کہ ہم نے ایک سب میٹر کے ذریعے چور پڑوسی کو پاور سپلائی فراہم کر رکھی تھی۔ وہ آئے دن میرے پاس آتے اور اپنی پتھر کی آنکھ سے مگرمچھ کے آنسو ٹپکاتے، کیونکہ ابلیسی منافقت کی وجہ سے ان کی حقیقی آنکھ کا پانی مر چکا تھا۔ ان کا مسلسل اصرار ہوتا کہ ان کے گھر بجلی کی سپلائی کیلئے باقاعدہ لیگل میٹر لگوا دیا جائے، چونکہ بجلی کے محکمے نے پی ایم ٹی سیلف فنانسڈ اسکیم کے تحت ہمارے نام نصب کی تھی، اس لئے اس پی ایم ٹی سے کسی دوسرے کے نام میٹر جاری نہیں ہوسکتا تھا، اس کیلئے ماہرین سے مشاورت کے بعد ایک ’’ٹیپنگ میٹر‘‘ ہمارے نام سے نصب کرا کر پاور سپلائی شیطان کے چیلے کے مکان میں دیدی گئی۔ اس میٹر کا بل ہمارے نام جاری ہوتا اور ہم وہ بل دو منہ کے سانپ کو دیتے۔
چند ماہ بعد میں نے غور کیا کہ اس طاغوت کا بل بہت کم آرہا ہے اور اس سفلی نابکار کے استعمال شدہ یونٹ نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ ہمارا ماہانہ بل غیر معمولی طور پر زیادہ ہو گیا ہے، پھر ہمیں دھیان ہوا کہ مہینہ میں کئی مرتبہ وہ دروغ گو کسی الیکٹریشن کے ساتھ مل کر میٹر باکس میں چھیڑ چھاڑ بھی کرتا ہے۔ میں نے فی الفور اپنے مشیر برقیات کو معاملے کی کھوج لگانے کو کہا۔ اس نے انکشاف کیا کہ میٹر کے تاروں میں فنکاری کرکے زیادہ لوڈ ہمارے میٹر پر لاد دیا گیا ہے۔ ہم نے اس کاذب کا میٹر کاٹ دیا اور اس چوری سے جان چھڑائی۔ بعد میں اس کے ساتھ رزم کا معاملہ ہوا، جس کی تفصیل میں نے ’’امت‘‘ میں ایک سے زائد مرتبہ بیان کی ہے۔ مورال آف دی اسٹوری یہ ہے کہ کسی پر اندھا دھند اعتماد نہ کیا جائے۔ ورنہ ساری زندگی پچھتاوے کا روگ لگ جائے گا… جب حالات کا جبر ہماری برداشت سے باہر ہو گیا تو ہم نے نقل مکانی کرلی۔ جن صاحب کے حوالے ہم نے اپنی عمارت کی ہے، وہ ایک شریف النفس، معاملہ فہم اور عالی نسب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک فنی مسئلے کے حوالے سے انہوں نے مجھے فون کیا۔ تمام معاملات پر تفصیلی بات چیت کے بعد انہوں نے پڑوسی کی خباثت اور بددیانتی کا ایک تازہ واقعہ سنایا۔ کہنے لگے: ’’پروفیسر صاحب! ہمارا ہمسایہ تو چور ہے، اس نے ہم سے عاجزانہ درخواست کی کہ اسے دو تین دنوں کیلئے بجلی فراہم کر دی جائے، کام پورا ہو جانے پر وہ تار نکال دے گا۔ دو ماہ بعد جب بجلی کا قیامت خیز بل آیا تو رقم دیکھ کر ہمارے ہوش اڑ گئے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ اس بے ایمان اور جھوٹے شخص نے ابھی تک پوشیدہ تار کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے اور لوڈ شیڈنگ کے دوران بھی اسی تار سے ہمارے جنریٹر کی پاور سپلائی لے رہا ہے۔ میں نے اس فریبی اور مکار ہمسائے کو بہت باتیں سنائی ہیں۔ تار نکال کر توبہ کی ہے کہ آئندہ اس پر کوئی احسان نہیں کروں گا۔ میں نے بھاری رقم پر مبنی بل بھی اس سے ادا کروایا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں دغا باز اور نیچ ذہنیت کے لوگوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔‘‘
پڑوسیوں کے حقوق کے ضمن میں حق تعالیٰ نے اتنی تاکید فرمائی ہے کہ ہمارے نبیؐ کو یہ خیال آیا کہ شاید میراث میں بھی ہمسائے کا حصہ ہو جائے گا۔ فقہ میں حق شفعہ اسی تاکید کی کڑی ہے۔ اس حوالے سے میرا کہنا یہ ہے کہ اچھا ہمسایہ ایک نعمت ہے۔ وہ اپنے پڑوسی کا اسی اہتمام کے ساتھ خیال رکھتا ہے جیسے اپنی فیملی کے ممبران کا… وہ اس چیز کا دھیان رکھتا ہے کہ ہمسائے کے گھر کی روشنی، ہوا، پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ اور کچرا پڑوسیوں کے گھروں کے آگے نہ ڈالے۔ سیوریج واٹر کے اوور فلو کا رخ ہمسائے کے گھر کی طرف نہ پھیر دے۔ یہ تمام اعمال مذمومہ ہمارا مذکورہ پڑوسی سرانجام دیتا رہا ہے اور آج بھی بدخصلت کا اسیر ہے اور اپنے ہمسایوں کو مسلسل ڈس رہا ہے۔
گڈاپ ٹائون میں واقع جس ہائوسنگ منصوبے میں ہم شفٹ ہوئے ہیں، وہاں اس وقت ہمارے پڑوس میں تو درکنار، اردگرد بھی کوئی مکین نہیں ہے۔ مستقبل کا حال تو خدا جانتا ہے، وہی خالق، مالک، علیم، خبیر، سمیع اور بصیر ہے۔ ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے پڑوس اور محلے میں پر خلوص، ہمدرد، غم گسار اور دلسوز سچے پکے مسلمان اور انسانیت سے پیار کرنے والے گھرانے آباد ہوجائیں، تاکہ زندگی آسان اور پرسکون رہے۔ آپ سے بھی گزارش ہے کہ اس حوالے سے ہمارے لئے خصوصی دعا فرمائیے۔
٭
٭٭٭٭٭