انکشافات نہیں، عملی اقدامات ضروری ہیں

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر، معاون خصوصی برائے ذرائع ابلاغ افتخار درانی اور تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے پیر کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے پانچ ارب تیس کروڑ ڈالر، (تقریباً سات کھرب روپے) مالیت کے اثاثوں کا سراغ لگا لیا ہے۔ پانچ ہزار سے زائد جعلی اکائونٹس کا بھی پتا چلا ہے۔ ان اکائونٹس کے حوالے سے تمام تفصیلات سامنے آچکی ہیں۔ جو لوگ بڑھ چڑھ کر جمہوریت کا ماتم کررہے ہیں، وہی اس تمامتر صورت حال کے ذمے دار ہیں۔ پریس کانفرنس میں پیپلزپارٹی کے ایک دھڑے کے چیئرمین آصف علی زرداری کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کا چالان جلد عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ شہریوں کے اکائونٹس میں پیسے ڈالنے والا ٹی وی پر آکر کہتا ہے کہ ثابت کر کے دکھائو۔ رکشے اور فالودے والے سمیت شہریوں کے ناموں پر پانچ ہزار سے زائد جعلی اکائونٹس کے ذریعے دس کھرب روپے کی رقوم بیرون ملک بھیجی گئیں، جن میں سے دس ممالک نے سات کھرب روپے کی تفصیلات فراہم کر دی ہیں۔ سوئٹزر لینڈ اور برٹش ورجن آئی لینڈ سے مزید معلومات حاصل ہونے کے بعد اس رقم میں کافی اضافے کا امکان ہے۔ جن لوگوں نے دوبئی اور یورپی بینکوں میں رقوم رکھیں، وہ چھپ نہیں سکیں گے۔ جعلی اکائونٹس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہونے کی وجہ سے بات کر سکتے ہیں نہ مقدمات دائر ہونے تک فہرست سامنے لاسکتے ہیں۔ افتخار درانی نے دعویٰ کیا کہ پندرہ ارب ڈالر کی جائیدادیں صرف دوبئی میں بنائی گئی ہیں۔ اثاثے وصولی کا یونٹ سرگرم ہے، تاہم اب تک یونٹ کی جانب سے عدالت میں کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئے سو دن ہونے والے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس مدت کے دوران کچھ نہ کچھ ٹھوس کام کر دکھائیں گے، تاکہ عوام کے ان پر اعتماد میں اضافہ ہو اور وہ اسی جذبے کے تحت آگے بڑھتے رہیں۔ تین حکومتی زعما کی جانب سے سات کھرب مالیت کے اثاثوں کا سراغ لگانے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اور پانچ ہزار سے زائد جعلی اکائونٹس کی جو تفصیلات حاصل کی گئی ہیں، عوام کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے تاوقتیکہ کہ نئی حکومت کے کسی اقدام سے انہیں معمولی سہولت بھی حاصل ہو سکے۔ اہل وطن کا اولین مطالبہ یہ ہے کہ لوٹی ہوئی رقم فوراً واپس لائی جائے لیکن اس سمت میں جو سست رفتاری نظر آرہی ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ معمول کے مقدمات کی صورت میں اکثر مجرموں ہی نے فائدہ اٹھایا ہے۔ غیر معمولی حالات کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پیر ہی کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دے چکے ہیں کہ سسٹم کو شرم آنی چاہئے۔ جب سے پاکستان بنا ہے، لوگ انصاف کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ ایک اور مقدمے میں فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اومنی گروپ عوام کا (لوٹا ہوا) پیسا واپس کر دے تو اس کے خلاف کیس ختم کر دیں گے۔
ہمارے عدالتی و قانونی سسٹم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کی پیچیدگیوں، نیز حکومتوں کی جانب سے مقدمات میں عدم دلچسپی، بدعنوانی اور نااہلی کے باعث اکثر اوقات عدالتیں بھی بے بس ہو جاتی ہیں، اس لیے کہ وہ قانون کے مطابق صرف ثبوت و شواہد کی روشنی میں فیصلے صادر کرنے کی پابند ہیں۔ پاکستان اس وقت جس شدید مالی بحران سے گزر رہا ہے، اس کے پیش نظر کام کی رفتار بہت تیز ہونی چاہئے اور یہ معمول کی قانونی کارروائیوں سے ممکن نہیں ہے۔ حکومت اگر اعلیٰ عدالتوں اور فوج کو اعتماد میں لے کر ضروری آرڈی نینس جاری کر کے مجرموں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا اہتمام کرے تو عوام نہ صرف اس کی تائید و حمایت کریں گے، بلکہ بہت خوش ہوں گے۔ حکومتی دعوے کے مطابق فوری طور پر اسے اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے بارہ ارب ڈالرز درکار ہیں، جس کے لیے وہ سعودی عرب، چین اور دوسرے ممالک کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ مذکورہ پریس کانفرنس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کے پانچ ارب تیس کروڑ مالیت کے اثاثوں کا سراغ لگا چکی ہے، جبکہ بقول افتخار درانی پندرہ ارب ڈالر کی جائیدادیں صرف دوبئی میں موجود ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کچھ درجن مگرمچھوں کی جائیدادیں اور اثاثے سامنے آجائیں اور پاکستان کے اندر موجود ان کی دولت، کاروبار، عمارتوں اور اراضی کی مالیت بھی ان میں شامل کر لی جائے تو ملک اور عوام کو خوشحالی و ترقی کی منزل تک پہنچنے میں چند ماہ سے زیادہ نہ لگیں گے۔ موجودہ حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح اب تک عوام کو دیا کچھ نہیں، مسلسل چھیننے میں مصروف ہے۔ صرف تیل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے وہ شہریوں سے اب تک بہت کچھ چھین چکی ہے اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کے لیے پر تول رہی ہے۔ صرف انکشافات سے لوگوں کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ٹھوس اور عملی اقدامات چاہتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی زندگی میں کوئی سہولت اور سکون محسوس کر سکیں۔ سابق گورنر سندھ اور لیگی رہنما محمد زبیر کا یہ الزام خصوصی طور پر قابل توجہ ہے کہ فالودے والے کے نام پر اکائونٹ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین نے کھلوایا تھا۔ اسی طرح مالیوں اور باورچیوں کے نام پر کھاتے کھلوانے میں بھی وہ ملوث ہیں۔ وزیراعظم عمران خان، ان کے وزیروں، مشیروں اور تحریک انصاف کے بڑے رہنمائوں کی جائیدادوں اور اثاثوں کی تفصیلات حاصل کی جائیں تو شاید وہ شریف خاندان اور زرداری گروپ سے کچھ کم نہ نکلیں۔ انہیں سامنے لائے بغیر دوسرے سیاست دانوں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور نوکر شاہی کے کل پرزوں کے پیچھے دوڑنا انتقامی سیاست قرار پائے گا۔ لہٰذا عمران خان کی حکومت احتساب کا آغاز اپنے گھر سے کرے تو اس کا اعتماد بحال و قائم ہو گا، ورنہ ماضی کی لکیروں کو پیٹنے سے نہ ان کو اور ان کی حکومت کو کچھ ملے گا نہ ملک و قوم کا بھلا ہو گا۔ پاکستان کے عوام کا فی الوقت ایک ہی مطالبہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت سب سے چھین کر عوامی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ اس کے لیے ہنگامی اور غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہیں۔ افسوس کہ موجودہ حکومت کی سو دنوں کی کارکردگی کے تناظر میں اس جانب کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment