ملازمت کے بہانے ڈھائے جانے والے مظالم (حصہ اول )

میں نے علی سے ایک دن کہا کہ میں چینیوں کی مارکیٹ ’’چوکٹ‘‘ (Chowkit) جانا چاہتا ہوں۔ جب میں ملائیشیا میں ملازمت کرتا تھا تو ان ایام میں میرا جب بھی کوالالمپور آنا ہوتا تو میں ’’چوکٹ‘‘ کا ایک چکر ضرور لگاتا تھا۔ اس سے پہلے، جب میں جہاز پر ہوتا تھا اور ہمارا جہاز پورٹ کلانگ آتا تھا، تو میں کوالالمپور پہنچ کر تلکو عبدالرحمان روڈ پر واقع سندھی ہندوؤں کی دکانوں سے خریداری کرتا تھا۔ مسجد انڈیا اور چوکٹ بازار بھی ضرور جاتا تھا۔ اس مارکیٹ میں سبزیاں، پھل اور قسم قسم کے جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا ہوا دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
میں پچھلی مرتبہ کوالالمپور آیا تھا تو پاکستان ایمبیسی کے کمرشل/ ٹریڈ سیکریٹری اطہر جمال ابڑو بھی مجھے چوکٹ مارکیٹ لے گئے تھے، جہاں انہوں نے ان ہی ایام میں پہلی مرتبہ اپنی کوششوں سے پاکستانی آم متعارف کرایا تھا۔ اب ماڈرن ہوجانے کے سبب چوکٹ مارکیٹ میں پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ اس کے علاوہ ملائیشین حکومت نے کئی جانوروں کے گوشت اور دیگر چیزوں کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ جبکہ ہمارے دور میں یہاں کچھوے، نیولے، گلہری، سانڈے، کتے، بلے ایسا کونسا جانور تھا جس کا گوشت یہاں فروخت نہ ہوتا ہو۔ مچھلی اور سانپوں کی بے شمار اقسام تھیں، جنہیں خریدار، خاص طور پر چینی زندہ حالت میں خرید کرلے جاتے تھے، کئی لوگ ان کا گوشت بنوا کر لے جاتے تھے۔ یہاں کے ریسٹورنٹس پر ہر قسم کا گوشت کڑاہی اور کڑچھوں میں اس طرح فرائی کیا جاتا تھا، جیسے ہمارے ہاں کراچی کے برنس روڈ اور حیدرآباد کے سول اسپتال کے باہر بکرے کی کلیجی، دل، گردے وغیرہ فروخت ہوتے ہیں۔
میں نے علی کو بتایا کہ 1970ء اور اس سے پہلے تک اس مارکیٹ میں ہم نے چین کے شہروں کی طرح زندہ بندروں کا مغز نکال کر فروخت ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
’’لاحول ولاقوۃ…‘‘ علی نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔ ’’یہ چینی بھی عجیب لوگ ہیں، کیسی کیسی چیزیں کھا جاتے ہیں‘‘۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’علی! یہاں کے چینی پھر بھی کچھ سدھرے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ملئی سیاستدان اور حکومت اس سلسلے میں سختی کرنے لگی ہے، جس کے سبب کم از کم شہر کے عام ہوٹلوں میں کوے، گوہ، کاکروچ جیسی چیزیں فرائی ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں‘‘۔
’’چینی نہ صرف ہر چیز کھا جاتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں‘‘۔ علی نے کہا ’’وہ کئی چیزیں اس خیال سے کھاتے ہیں کہ اس سے ان کی مردانہ قوت میں اضافہ ہوگا‘‘۔
’’چینیوں کیلئے مشہور ہے کہ وہ ٹانگوں والی ہر چیز کھا جاتے ہیں، سوائے ٹیبل کرسی کے۔ پانی میں تیرنے والی ہر چیز کو ہڑپ کرجاتے ہیں سوائے سب میرین کے اور ہوا میں اڑنے والی کسی چیز کو نہیں چھوڑتے سوائے ہوائی جہاز کے‘‘۔ میں نے علی کو بتایا۔
بہرحال ہمارا یہ پروگرام طے ہوا کہ اگلی صبح گھر سے روانہ ہوکر علی بینک میں اپنا کام نمٹائیں گے، پھر وہ مجھے چوکٹ مارکیٹ میں چھوڑ کر خود اپنے آفس چلے جائیں گے۔ پھر میں کوالالمپور کی اس مارکیٹ کی سیر کرکے اور فوٹو وغیرہ بنا کر قریب ہی واقع جامع مسجد اور پاکستان مسجد سے ہوتا ہوا اپنے اسٹوڈنٹس سے ملنے ان کے پیٹروناس آفس چلا جاؤں گا، جہاں وہ جہازوں کے کیپٹن اور چیف انجینئر ہیں۔
ہم اگلی صبح سب سے پہلے بینک پہنچے، جہاں زیادہ بھیڑ نہ ہونے کے سبب علی کا کام چند ہی منٹ میں ہوگیا۔ باہر نکل کر علی نے کہا ’’چوکٹ مارکیٹ کے کھلنے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے، چلیے! میں آپ کو گنتنگ ہائی لینڈ، لانگ ڈرائیور پر لے چلتا ہوں‘‘۔
گنتنگ ہائی لینڈ یہاں کی ایک ہل اسٹیشن ٹائپ کی پہاڑی ہے، جہاں انگریزوں کے دور سے ہوٹلز اور جوا خانے قائم چلے آرہے ہیں۔ اب سیاحوں کی متوجہ کرنے کیلئے یہاں چھوٹے بڑوں کیلئے کھیل اور امیوزمنٹ پارک وغیرہ تعمیر کئے گئے ہیں۔ بہرحال ملائیشیا میں اس جگہ کی اس لئے بھی زیادہ اہمیت ہے کہ یہاں کا موسم ہمیشہ گرم، جس زدہ اور نم رہتا ہے۔ سو مقامی لوگ سردی کا احساس
پانے کیلئے یہاں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی اور مقامی چینی جوا کھیلنے کے لئے بھی آتے ہیں۔ مقامی اور غیر ملکی مسلمانوں کیلئے جوا اور کیبرے ڈانس وغیرہ دیکھنا ممنوع ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں عرب اپنے روایتی لباس کے بجائے کمپلیٹ سوٹ میں نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایرانی لڑکیاں حجاب کے بجائے ٹائٹ جینز میں ملبوس دکھائی دیتی ہیں۔ دریافت کرنے پر وہ اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کرتیں، بلکہ یوکرین یا آذر بائیجان سے اپنا تعلق بیان کرتی ہیں۔
یہاں کے تمام ملئی مسلمان بھی فرشتے نہیں ہیں، ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے جوا خانے اور مساج گھر، چوری چھپے چلنے والے جسم فروشی کے اڈے انہی کی آشیرباد سے چلتے ہیں۔ حکومت بھی اس سلسلے میں خاموش رہتی ہے۔ اسے یہاں سے خاصی مالیت کا ٹیکس ملتا ہے، اس لئے حکومت بھی کئی معاملات کو نظر انداز کرتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کسی کو دادا گیری یادنگا فساد کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جھگڑا اور قانون شکنی کرنے والے کو گرفتار کرکے کورٹ میں پیش کیا جاتا ہے، خواہ وہ سلطان کا سپوت ہو یا خود سلطان ہی کیوں نہ ہو!
’’فی الحال گنتنگ ہائی وے کو چھوڑیئے‘‘۔ میں نے علی سے کہا۔ ’’اگر لانگ ڈرائیو کرنی ہے تو میں آپ کو کوالالمپور کی کچھ سڑکیں بتاتا ہوں۔ آپ ان پر چلتے رہیں، یہ وہ سڑکیں ہیں جن پر میرا جوانی کے دنوں میں اکثر گزر ہوتا تھا‘‘۔
میں نے انہیں ’’جالان کچنگ‘‘ اور اس کے بعد ’’جالان کنا بالو‘‘ سے ہوتے ہوئے ’’جالان تن رزاق‘‘ پر چلنے کی ہدایت کی۔ میں پہلے بھی تحریر کرچکا ہوں کہ ملئی زبان میں ’’جالان‘‘ کا مطلب ’’سڑک‘‘ یا روڈ ہے، جالان کا مطلب چلنا بھی ہے۔ کسی رشتے دار یا دوست سے رخصت ہونے کے وقت سلامت جالان کہا جاتا ہے، یعنی مبارک آپ کا چلنا، مبارک آپ کا سفر۔
کچنگ اور کنابالو، مشرقی ملائیشیا کی ریاستوں سباح اور سرواک کے شہر ہیں۔ تن رزاق اس ملک کے دوسرے وزیراعظم اور موجودہ وزیراعظم کے والد تھے۔ یاد رہے کہ ملائیشیا کے پہلے وزیراعظم تنکو عبدالرحمان تھے، بہرحال جالان تن رزاق کافی طویل سڑک ہے اور تقریباً نصف شہر کے گرد گھومتی ہے۔ اس طرح جالان مہامیرو اور جالان دامانسارا۔ باقی نصف دائرہ بناتے ہیں۔ آسمان پر بادل چھائے تھے اور موسم انتہائی خوشگوار تھا، ایسے میں کوالالمپور کی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے لطف آرہا تھا۔
جالان کچنگ پر گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے علی نے بتایا ’’یہاں ’’بکت امان‘‘ کے علاقے میں ایک پیٹرول پمپ ہے، جہاں میرا بھائی غلام باقی کار واشنگ کا کام کرتا ہے۔ وہ اور ہمارا ایک بھانجا حسین علی بھی میرے ساتھ رہتا ہے۔ وہ بھی یہاں کی ایک کمپنی میں ملازم ہے اور بلند عمارتوں کے شیشے صاف کرتا ہے‘‘۔
’’یہ اچھی بات ہے کہ وہ کسی نہ کسی روزگار سے لگے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے کہا۔
’’کیا کریں جناب! ہمارے ہاں (پاکستان میں) سخت غربت ہے‘‘۔ علی نے گہرا سانس لیتے ہوئے مزید کہا
’’نہ ملازمت آسانی سے ملتی ہے نہ کسی روزگار کا ذریعہ دستیاب ہے، کئی نوجوان بے روزگار بیٹھے ہیں۔ یہاں کم از کم ہر ایک کو چالیس، پچاس رنگٹ (ہمارے گیارہ بارہ سو روپے) یومیہ مل جاتے ہیں، ان کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام میرے گھر پر ہے۔ جب وہ دو سال کے بعد اپنے گھر (پاکستان) جاتے ہیں تو ٹکٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد بھی گھر کیلئے کچھ نہ کچھ رقم لے جاتے ہیں۔
علی نے بتایا تھا کہ ان کے دوسرے بھائی اور بھانجے بھی بے روزگار بیٹھے ہیں، ایک بھائی کسی ٹی وی چینل پر سینئر کیمرہ مین ہے۔
’’وہ دن بھر ڈیوٹی کرتا ہے اور اسے تنخواہ بمشکل آٹھ ہزار روپے ملتی ہے، اب وہ اس رقم سے وہ اپنے اخراجات آنے جانے کا کرایہ اور گلشن حدید میں لئے ہوئے گھر کا کرایہ ادا کرے یا اپنے اور فیملی کے کھانے پینے پر خرچ کرے؟ اس لئے میں کچھ اس کی اور کچھ دوسرے لوگوں کی مالی مدد کرتا ہوں۔ میں نے یہاں رہنے والے اپنے بھائی اور بھانجے سے کہہ دیا ہے کہ اب وہ کوشش کرکے اپنے کسی اپنے کسی ایک بھائی یا رشتے دار کے لئے ملازمت کا انتظام کریں تاکہ جب وہ یہاں آئے تو پھر وہ تینوں مل کر الگ کہیں کرائے کا مکان حاصل کرلیں۔ جب وہ رہائش اور کھانے پینے کا انتظام خود کرلیں گے تو اس طرح مجھ سے کچھ بوجھ کم ہوگا۔ پھر میں اپنے گاؤں میں رہنے والے عزیزوں کی امانت بہتر طور سے کرسکوں گا‘‘۔ علی نے بتایا تھا۔
’’آپ خود ہی اپنے بھائی کو یہاں بلوالیں‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’یہاں تو کئی جاب ہوں گی‘‘۔
’’جی ہاں، لیکن اس طرح ٹورسٹ ویزا پر آکر ملازمت کرنا بھی تو جرم ہے نا! میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا اور نہ ہی کسی کو یہ مشورہ دوں گا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں جاکر ایسا غیر قانونی کام کریں‘‘۔ علی نے جواب دیا۔
’’پھر یہ آپ کے بھائی اور بھانجے یہاں کس طرح آئے؟‘‘
’’میں ان کیلئے کوشش کرتا رہا ہوں۔ میں ایک عرصے سے یہاں کی کچھ کمپنی کے مالکان سے بات چیت کرتا رہا، ان کی منت سماجت تک کی۔ پھر جب ان کی طرف سے ملازمت کا لیٹر اور ورک ویزا ملا تو میں نے بھائی اور بھانجے کو یہاں بلوالیا۔‘‘
’’آپ انہیں اپنی کمپنی میں کیوں نہیں ملازم رکھ لیتے؟‘‘ میں نے علی سے پوچھا۔ ’’آپ خود کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں‘‘۔
’’ہر کمپنی کا مالک اپنی انکم اور گورنمنٹ کو ادا کئے جانے والے انکم ٹیکس کے مطابق ضرورت کے لوگ منگوا سکتا ہے۔‘‘ علی نے بتایا۔ ’’اور ان میں بھی ایک بڑا حصہ مقامی لوگوں کیلئے مخصوص ہوتا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں اس ملک کی کچھ شرائط اور قواعد و ضوابط ہیں، ان کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔ غیر قانونی کام کرنے کی صورت میں پکڑے جانے کے بعد وہ مقررہ سزا سے نہیں بچ سکتا‘‘۔
علی نے بتایا کہ یہاں رہنے والے پاکستانی اور ہمارے ملک کے ٹھگ ایجنٹ کئی سادہ لوح اور کم فہم لوگوں کو یہاں ملائیشیا میں ملازمت دلانے کا جھانسا دے کر ایک تو اچھی خاصی رقم اینٹھ لیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ انہیں قانون کی نظر میں مجرم بنادیتے ہیں۔ پھر جب پولیس انہیں گرفتار کرتی ہے تو کئی لوگوں کو انہی کے اخراجات پر واپس بھیج دیتی ہے، کئی لوگوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی رہنمائی کی جانے چاہئے۔ انہیں آگاہ کرنا ضروری ہے کہ انہیں جس طرح یہاں ملائیشیا میں لایا جارہا ہے، یہ طریقہ درست ہے یا غلط۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment