سیلانی کے لئے یہ اطلاع یقین کی حد سے دور پرے حیرت کی انگلی تھامے کھڑے تھی، سرکاری مسلح اہلکار اور وہ بھی کراچی پریس کلب میں… سیلانی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے سیل فون کے ذریعے آنے والا پیغام دوبارہ پڑھا، پھر پڑھا اور اس کے ساتھ آنے والی تصاویر دیکھنے لگا۔ رات کے اندھیرے میں اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں سیل فون کے کیمرے سے محفوظ کئے گئے مناظر میں سفید اور سیاہ لینڈ کروزریں دکھائی دے رہی تھیں۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کا ایک اہلکار بھی سادہ لباس میں دکھائی دے رہا تھا، جسے نہایت رسک لے کر سیل فون سے ویڈیو بنانے والے ایک نڈر کورٹ رپورٹر سمیع فاروق نے جا لیا اور سوال جواب شروع کر دیئے۔
’’کیوں آئے ہیں آپ یہاں؟‘‘
شکل ہی سے پولیس اہلکار لگنے والا جوان العمر کہنے لگا: ’’بڑے بھائی میں تو ایسے ہی آیا ہوں۔‘‘
’’پھر بھی اندر کیوں آئے تھے؟‘‘
’’اندر میں تھوڑا گیا تھا، زینب مارکیٹ آیا تھا۔‘‘
’’تھانہ کون سا ہے؟‘‘
’’بھائی جان میں پرائیوٹ آدمی ہوں۔‘‘
’’پرائیوٹ آدمی ہیں تو اندر کیوں گئے تھے؟‘‘
جواب میں سی ٹی ڈی کا سیاہ لباس میں ملبوس وہ شخص کہنے لگا ’’میں تو اندر نہیں گیا تھا، میں تو یہاں سے گزر رہا تھا۔‘‘ اور پھر وہ ان لینڈ کروزروں میں سے ایک میں بیٹھ کر قتل ہونے والی روایت کی لاش پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھ گیا، جیسے اس جیسے یہ لاش روندتے ہوئے آگے بڑھے تھے۔ سچی بات ہے یہ سب دیکھ کر سیلانی کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی، ایسے لگا جیسے اندر کچھ ٹوٹ گیا ہے۔
وہ اسلام آباد میں افغان تاجر زیارت خان کے ساتھ بیٹھا گرم گرم قہوے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ زیار ت خان کا خشک میوہ جات اور دست کاری کا کاروبار ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے چھتیس سالہ زیارت خان پڑھا لکھا نوجوان ہے اور نمک حراموں کے برعکس پاکستان کا احسان مند ہے۔ وہ کھل کر پاکستان کا احسان مانتا ہے اور کہتا ہے کہ مشکل وقت میں پاکستان نے ہمارا ساتھ نہ دیا ہوتا تو افغانیوں کو آج روس کے پاسپورٹ پر سفر کرنا پڑتا… شستہ لہجے میں انگریزی بولنے والا زیارت خان افغان تاجروں کی کسی انجمن کا بھی عہدیدار ہے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم بڑھانے کے راستے سوچتا رہتا ہے۔ زیارت خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم پانچ بلین ڈالر سالانہ تک ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس باہمی تجارت میں حائل رکاوٹوں کا محتاط انداز میں ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہا تھا کہ بھارت افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ افغان تاجروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ اس کے باوجود پاکستا ن اور افغانستان کی تجارت بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ زیارت خان نے سیلانی کو بتایا کہ کراچی پورٹ سے 2017-18ء میں 3.321 بلین ڈالر کا سامان افغانستان کے لئے درآمد کیا گیا تھا… سچی بات ہے ملین بلین ویسے ہی سیلانی کو سمجھ نہیں آتے۔ وہ اپنی صحافتی زندگی میں کبھی کامرس رپورٹر نہیں رہا۔ یہ ہندسے اور اسٹاک ایکسچینج کے بھاؤ تاؤ اس کے لئے کراچی میں بھی معمہ بنے رہے تھے۔ اسلام آبا د میں بھلا یہ کیسے حل ہوتے؟ سیلانی منہ میں گڑ کی ڈلی رکھ کر قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے مجلس میں خاموش بیٹھا تھا کہ کراچی
سے ایک دوست نے کراچی پریس کلب پر چھاپے کی اطلاع دی۔ سیلانی کے لئے یہ ناقابل یقین بات تھی۔ اس نے جواباً پوچھا:
’’کلب کے آس پاس کہیں چھاپہ پڑا ہوگا، کلب میں ہے ہی کیا، جو چھاپہ پڑے گا؟‘‘ سیلانی نے واٹس اپ پر آنے والی اطلاع پر لکھ بھیجا اور پوچھا ’’آپ خود وہاں موجود ہو؟‘‘
سیلانی کے دوست نے جواب نہیں دیا، لیکن جواب میں واٹس اپ پر کراچی پریس کلب کے گروپ میں دھڑا دھڑ چھاپے کی بنائی گئی تصویریں پوسٹ ہونے لگیں۔ یہ تصاویر اور ویڈیو کلپ وہاں موجود کچھ صحافیوں نے اپنے سیل فون سے بنائی تھیں۔ یہ ویڈیو کلپ اور تصاویر بتا رہی تھیں کہ آٹھ نومبر کی رات سی ٹی ڈی کے اہلکار جرأت و ہمت اور وقار کے استعارے کراچی پریس کلب میں زبردستی گھسے، ان کے پاس کوئی وارنٹ نہیں تھا، ان میں سے کسی نے کسی ادارے کی وردی بھی نہیں پہن رکھی تھی۔ بظاہر ان میں اور بدمعاشوں کے کسی ٹولے میں کوئی فرق نہیں کر سکتا تھا۔ وہ کلب میں داخل ہوئے۔ کینٹین میں گئے۔ کینٹین کے اوپر بنے کمرے میں گئے۔ مختلف جگہوں پر دندناتے پھرتے رہے اور ایک واضح پیغام دے کر چلے گئے کہ پاکستان میں صرف ایک ہی قانون ہے اور وہ ہے طاقت و اختیار کا قانون۔
اطلاع سے سیلانی کو دل بجھ سا گیا۔ پریس کلب، کراچی میں صحافیوں کا گھر ہی نہیں ہے، جدوجہد کا استعارہ بھی ہے۔ آمریت کے بدترین دنوں میں اگر کہیں سے ڈکٹیٹر شپ پر ضرب پڑتی تھی، تو وہ اسی عمارت کے مکینوں سے ہی پڑتی تھی۔ ان کے قلم آمروں ڈکٹیٹروں کے شاہانہ آمرانہ فیصلوں کی دھجیاں اڑا دیا کرتے تھے اور جواب میں گرفتار ہو کر جیل کی کوٹھڑیوں کے ننگے فرش پر سرد دیواروں سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے، لیکن کبھی نہ جھکتے۔
اس عمارت کا ایسا ’’خوف‘‘ رہا کہ اس کی ساٹھ سالہ تاریخ میں کسی آمر، ڈکٹیٹر، طالع آزما نے اس کی جانب دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ پریس کلب کا وقار اور ایک طرح سے پیلے پہاڑی پتھروں سے بنی چار دیواری پر بھروسہ اور اعتماد بھی تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلوم تھا کہ اس عمارت میں رات کے چار چار بجے تک چائے کی پیالیاں ہاتھوں میں لئے سیاہی مائل ہونٹوں سے سگریٹ پھونکنے والے تو ملیںگے، لیکن وطن کے خلاف کہیں لگنے والی آگ کو ہوا دینے والے نہیں۔
بحیثیت کراچی پریس کلب کے رکن اور ایک رپورٹر کے سیلانی کی آنکھوں نے اس عمارت کے عزت، وقار اور رعب کے کئی مناظر دیکھ رکھے ہیں۔ پریس کلب کی دیواروں کو دیوار گریہ سمجھ کر یہاں آنے والے جب اپنی ’’اوقات‘‘ سے باہر نکل کر گورنر ہاؤس یا وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب بڑھنے کے لئے روڈ عبور کرتے تو پولیس والے ان پر مضبوط لاٹھیوں کے ساتھ پل پڑتے۔ دھائیں دھائیں گولیاں چلا کر انہیں ڈرایا جاتا اور پھر آنسو گیس کی شیلنگ سے ان کے حلق چھیل دیئے جاتے۔ ایسے میں اگر کوئی پریس کلب میں داخل ہو جاتا تو گویا اسے امان مل جاتی۔ اس کے پیچھے لپکنے والے کلب کے پھاٹک تک پہنچتے ہی رک جاتے، جیسے کسی غیر مرئی قوت نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر آگے بڑھنے سے روک دیا ہو۔ کڑوا بولنے والا براڈ کاسٹر طارق حبیب گواہ ہے کہ ایک بار صحافیوں کو قابو کرنے کے لئے پولیس کو حکم ملا۔ پولیس صحافی قیادت کو گرفتار کرنے آئی اور کلب کے سیکریٹری جنرل نجیب پیجی مرحوم نے کلب میں موجود نوجوانوں سے کہا:
’’چلو بچہ پارٹی گرفتاریاں دینی ہیں‘‘ اور پھر کلب میں سوائے عملے اور گنتی کے دو چار لوگوں کے شاید ہی کوئی بچا ہو۔ پولیس کے کلب میں آنے سے پہلے ہی سب صحافی باہر تھے اور پولیس موبائلوں میں بیٹھ چکے تھے۔ یہ تو ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے ایم کیو ایم کے قائد نے پریس کلب کے باہر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی، جس کے بعد ایم کیو ایم دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ ایک نے لندن کو اپنا قبلہ مانا اور دوسرے نے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ پہلے دھڑے کے امجد اللہ خان اور ڈاکٹر حسن ظفر مرحوم نے پریس کلب میں پریس کانفرنس کا اعلان کیا اور وہ پریس کلب پہنچ بھی گئے۔ پیچھے پیچھے رینجرز بھی کلب تک چلی آئی اور محاصرہ کر لیا۔ کلب کی قیادت کو پیغام پہنچوایا کہ ایم کیو ایم لندن کی قیادت کو گرفتارکرنا ہے۔ انہیں باہر نکالا جائے اور اب کلب کی انتظامیہ بھلا کیسے باہر نکالے؟ کئی گھنٹے گزر گئے، وہ باہر آنے کو رضامند ہوئے نہ رینجرز جانے کو۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گویا رینجرز کلب کا پھاٹک کھول کر آگے بڑھی تو بڑھی۔ کلب کے سینئرز نے سیلانی سے رابط کیا اور کہا کہ رینجرز کو سمجھائیں، ایسی بے وقوفی نہ کرے۔ رینجرز نے قدم آگے بڑھایا نہیں اور کل دنیا جہاں کے اخبارات میں خبریں لگی نہیں۔ یہ بات رینجرز کو سمجھ آگئی، جس کے بعد امجد اللہ خان کو اسی وقت گرفتار کیا گیا، جب انہوں نے پریس کلب سے قدم باہر نکالا، کوئی عجلت نہیں کی۔ افسوس کہ پیپلز پارٹی کی جمہوری جیالی حکومت میں پریس کلب کا یہ وقار بھی گیا۔ سی ٹی ڈی نے یہی بونگی حرکت نہیں کی، اس کے بعد کراچی پولیس کے اسی کاؤنٹر ٹیرر ازم نے پٹیل پاڑہ سے کلب کے رکن اور سینئر صحافی نصر اللہ کو بھی گھر سے اٹھا لیا اور صحافیوں کے شدید احتجاج پر ممنوعہ جہادی لٹریچر رکھنے کا الزام لگا کر عدالت میں پیش کر دیا… اس اٹھاخ پٹاخ کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہئے تھا۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ سمیت بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کا نام ایک بار پھر لیا جانے لگا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہ کام کیا، جس کے لئے بھارت کو کسی لابنگ فرم کو ٹھیک ٹھاک ڈالروں کی گڈیاں دینی پڑتیں… سیلانی یہ سوچتے ہوئے کراچی پولیس کے بے وردی بدمعاشوں کی پریس ریلیز دیکھنے لگا، جس میں انہوںنے ’’دو‘‘ سادہ لباس اہلکاروں کی ایک ممکنہ دہشت گرد کے تعاقب میں پریس کلب میں داخلے پر معذرت مانگی تھی…ہائے اب پچھتائےکیاہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت… سیلانی افسردگی کے ساتھ قانون کو جیب میں رکھ کر پھرنے والے قانون کے محافظوں کے اس معذرت نامے کو دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭