گھٹنے ٹیکنے کا آغاز

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے زیر صدارت دو سو پندرھویں کور کمانڈرز کانفرنس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ریاستی اداروں کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ کانفرنس کے شرکاء نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ آئین و قانون کی بالادستی سے ہی ملک ترقی کرے گا اور یہاں خوش حالی آئے گی۔ ادھر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بنی گالا تجاوزات کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے پاس اہلیت ہے نہ صلاحیت اور نہ منصوبہ بندی۔ تیسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے کراچی سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مشکل حالات میں حکومت سنبھالی ہے، تاہم آئندہ چند ماہ میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئے گی۔ عالمی بینک نے پاکستان میں غربت سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہاں غربت کی شرح تیس فیصد ہے۔ بلوچستان ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔ اس کی بیالیس اعشاریہ دو فیصد شرح غربت کے مقابلے میں پنجاب کی پچیس فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔ سندھ میں چونتیس اعشاریہ دو فیصد اور خیبر پختونخوا میں ستائیس فیصد غربت ہے۔ ملک میں بہتر تبدیلی اور وسیع تر سوچ (وژن) کے دعوے لے کر برسر اقتدار آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کو ابتدا میں عوام کی جانب سے اس امید پر زبردست پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہ ماضی کے بدعنوان اور نااہل حکمرانوں سے عاجز آچکے تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے باری باری وطن عزیز کو بری طرح لوٹنے کھسوٹنے میں جو کردار ادا کیا، اس کے پس منظر میں 2018ء کے عام انتخابات میں اہل وطن ان سے نجات کے لیے تبدیلی کے خواہاں تھے۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب خواہ کالے چور ہی اقتدار میں آجائیں، لیکن پرانے لٹیروں اور ڈاکوئوں سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔ عمران خان کے ساتھ پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت اور پارٹی کی جانب سے دیئے جانے والے اس تاثر کے باعث کہ انہوں نے نئے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے مکمل ہوم ورک کر رکھا ہے، لوگوں نے یہ توقعات وابستہ کر لی تھیں کہ عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی فوراً دودھ اور شہد کی نہریں بہنی شروع نہ ہوں تب بھی عام لوگوں کے فوری، ضروری اور بنیادی مسائل حل ہونے لگیں گے۔ تحریک انصاف کی ایک خوش قسمتی یہ رہی کہ فوج اور عدلیہ اس کی وفاقی اور تین صوبائی حکومتوں کی پشت پر کھڑی رہی تاکہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی کے لیے آگے بڑھ سکے۔
افواج پاکستان اپنی آئینی ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے آج بھی ریاستی اداروں کی حمایت کا عزم ظاہر کررہی ہیں، اس توقع پر کہ آئین و قانون کی بالادستی قائم رہے تو ملک ترقی کرے گا اور یہاں خوش حالی آئے گی۔ لیکن اعلیٰ عدالتوں نے پوت کے پائوں پالنے ہی میں دیکھنے کے بعد اپنی رائے کا دوٹوک انداز میں اظہار کر دیا ہے کہ حکومت کے پاس اہلیت ہے نہ صلاحیت اور نہ وہ کوئی منصوبہ بندی رکھتی ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ کی اس رائے میں اب عوام کی اکثریت بھی شامل ہو گئی ہے، کیونکہ انہیں تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں بہتر تبدیلی تو کیا، اس سمت میں پیش رفت کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے وزراء و مشیران بڑے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کی فہرستیں بنا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے اسی انداز میں کررہے ہیں، جیسے ماضی کی حکومتیں کرتی رہیں، لیکن ان کے پاس عوام کو فوری طور پر سہولتیں فراہم کرنے کا کوئی قلیل مدتی منصوبہ ہے نہ پروگرام۔ تحریک انصاف نے ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافہ کر کے اپنی حکومت کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے، بلکہ اس میں مسلسل اضافے کے اشارے دیئے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب اور چین جیسے دوست ملکوں سے تعاون کی امید پر وزیر خزانہ اسد عمر نے برسر اقتدار آتے ہی بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملکی وسائل اور دوستوں کی معاونت سے ہم اپنے اقتصادی بحران پر قابو پالیں گے، لیکن ان کا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کو یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے مشکل حالات میں حکومت سنبھالی، اس لیے عوام فوری تبدیلی کی خوش فہمی دور کر لیں۔ آئندہ چند ماہ میں لوگوں کو واضح تبدیلی نظر آنے لگے گی۔ ان کے اس دعوے یا وعدے کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں، اس لیے کہ حکومت اس وقت قرضے اور امداد کا کشکول ہاتھ میں لیے آئی ایم ایف کے در پر جانے کے لیے مجبور نظر آتی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ حکومت اقتصادی تبدیلی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے امداد حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ حکومت کے اس کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، جن میں قرضے اور امداد کی شرائط طے کی جائیں گی۔ ایک خبر کے مطابق موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، جس نے بجلی پر ایک کھرب چھیالیس ارب روپے کی سہولت (سبسڈی) واپس لینے کی سفارش کی ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا یہ حکم مان لیا گیا تو بجلی کے نرخ عوام کی دسترس میں نہیں رہیں گے اور اس کے اثرات صنعت و تجارت پر پڑنے کی وجہ سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ آئی ایم ایف کی اس ایک شرط کو تسلیم کر لیا گیا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت دیگر کن کن مدوں اور شعبوں میں گھٹنے ٹیکنے کے لیے آمادہ ہو جائے گی۔ اس کا قومی دولت کے لٹیروں پر قابو پانا مشکل ہے یا اپنی مصلحتوں کے خلاف؟ لیکن عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبائے چلے جانا، سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کے لیے بھی سب سے آسان نسخہ ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment