مسعود ابدالی
اسرائیل کے وزیر دفاع ایویڈور لائیبرمین (Avigdor Lieberman) نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ استعفے کا اعلان کرتے ہوئے روسی نژاد لائیبر مین کا انداز ویسا ہی جذباتی اور جوشیلا تھا، جو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے تاشقند معاہدے کے بعد وزیر خارجہ کی حیثیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے اختیار کیا تھا۔
جیسا کہ احباب خبروں میں دیکھ رہے ہوں گے گزشتہ چند دنوں سے غزہ پر آتش و آہن کی بارش ہو رہی ہے۔ حالیہ کشیدگی کا آغاز 11 نو مبر کی شام ہوا، جب غزہ کے قصبے خان یونس پر راکٹ و میزائل کی بارش کر دی گئی۔ اسی دوران سادہ گاڑی میں اسرائیلی چھاپہ مار وہاں آگئے اور اندھا دھند فائرنگ کرکے امدادی کاموں میں مصروف حماس کے 7 رہنمائوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حماس نے فرار ہوتی اس کار پر حملہ کرکے ایک سپاہی کو ہلاک اور 3 کو زخمی کردیا، لیکن یہ گاڑی غزہ سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ رہنمائوں کی شہادت پر مشتعل ہوکر فلسطینیوں نے اسرائیل پر راکٹ برسائے۔ اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم نیتھن یاہو جنگ عظیم اول کی اختتامی تقریب میں شرکت کے لئے پیرس گیا ہوا تھا۔ تصادم کی خبر سن کر وہ تقریب ادھوری چھوڑ کر اسرائیل واپس آگیا اور 12 نومبر کو علی الصبح اسرائیلی بمباروں نے سارے غزہ پر آگ برسانی شروع کردی۔ وزہر دفاع لائیبر مین نے غرور سے چور لہجے میں کہا کہ بمباری اس وقت تک جاری رہے گی جب تک فلسطینی میزائلوں کے تمام اڈے اور فیکٹریاں تباہ نہیں کر دی جاتیں۔ ساتھ ہی اس نے اہل غزہ سے کہا کہ اگر وہ مکمل تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو حماس کی پشت پناہی بند کر دیں۔ کچھ ایسا ہی پیغام محمود عباس کی طرف سے بھی جاری ہوا۔
تاہم بھیانک بمباری کے باوجود فلسطینیوں نے راکٹ باری جاری رکھی۔ فلسطینیوں کا بانکپن کہ ایک راکٹ داغنے سے پہلے انہوں نے اسرائیلیوں کو پیغام دیا کہ اس راکٹ کا ہدف اسرائیلی فوج کی ایک وین ہے۔
پیغام ملتے ہی اسرائیلی فوجیوں نے چھلانگ لگا کر وین خالی کر دی اور دوسرے ہی لمحے حماس کے القسام میزائل نے وین کے پرخچے اڑا دیئے۔ اس کے ساتھ ہی حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ نیتھن یاہو آگاہ رہے کہ اب سارا اسرائیل ہمارے میزائیلوں کی زد میں ہے۔ ہم خونریزی نہیں چاہتے، لیکن اگر اسرائیلیوں نے نہتے فلسطینیوں پر بمباری جاری رکھی تو ہم بھی اسرائیلی بستیوں کو اپنے راکٹوں سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے بعد غزہ میں چار سو میزائلوں کی نمائش بھی کر دی گئی۔
اس دھمکی پر اسرائیل نے مصری حکومت کے ذریعے مذاکرات شروع کردیئے اور ایک ’’امن معاہدہ‘‘ طے پا گیا، جس کے مطابق اسرائیل نے بمباری اور حماس نے بھی راکٹ باری بند کر دی۔ معاہدے کے تحت اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی نرم کرنے پر راضی ہوگیا ہے اور قطر سے آنے والے ڈیزل کے ٹرکوں اور امدادی سامان کے لئے سرحد کو کھول دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ڈالروں سے بھرے سوٹ کیسوں کی غزہ آمد پر بھی پابندی نہیں ہوگی۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے خیال میں یہ معاہدہ ’’وطن فروشی‘‘ ہے اور نیتھن یاہو حکومت نے ’’دہشت گردوں‘‘ سے مصالحت کرلی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قطر سے آنے والی نقدی میزائل اور اسلحے کی تیاری میں استعمال ہوگی۔ دوسری طرف نیتھن یاہو شیخی بگھار رہا ہے کہ امن کے لئے حماس گھٹنوں پر آگئی تھی، جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ شدید ترین بمباری کے باجود ان کی میزائل بنانے والی فیکٹریاں اور لانچر محفوظ ہیں اور اگر اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تو ان کے لئے جوابی راکٹ باری کا راستہ کھلا ہوا ہے۔
وزیر دفاع کے استعفیٰ سے نیتھن یاہو کی حکومت کمزور ہوگئی ہے۔ اس کے لیکڈ Likud اتحاد کو اسرائیل کی 120 رکنی کنیسہ (Knesset) یا قومی اسمبلی میں 61 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ وزیر دفاع کی مادرِ وطن پارٹی یا Yisrael Beiteinuبھی لیکڈ کی اتحادی ہے، جس کے پاس 5 نشستیں ہیں۔ وزیر دفاع کے استعفے سے لیکڈ حکومت غیر مستحکم نہیں ہوگی، لیکن امن معاہدے پر مخلوط حکومت میں شامل سفادری فرقے کی قدامت پسند شاس Shas پارٹی نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ شاس کے ارکانِ پارلیمان کی تعاد 7 ہے اور ان کی علیحدگی پر وزیر اعظم نیتھن یاہو کیلئے قبل از وقت انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں حکومت بچانے کیلئے اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے امن معاہدے کی منسوخی خارج ازامکان نہیں، یعنی بے اماں فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کسی بھی وقت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔