ہائیڈ پارک
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جہاں جاتے ہیں، لوگوں سے ایسے لڑتے ہیں، جیسے سوتنیں آپس میں لڑتی ہیں، جس طرح وہ عالمی رہنمائوں سے لڑتے ہیں، عورتوں کی طرح طعنے دیتے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ٹرمپ عالمی رہنمائوں کی سوتن ہیں۔ اب وہ جنگ عظیم اول کی یاد میں تقریب میں شرکت کیلئے فرانس گئے تھے، لیکن وہاں بہت سی جنگیں چھیڑ آئے، امریکہ سے روانگی سے قبل ہی انہوں نے اپنے میزبان فرانسیسی صدر میکرون پر پسندیدہ ہتھیار ٹوئٹ کے ذریعے لفظی حملہ کیا اور پھر یہ لفظی جنگ واپس امریکہ پہنچنے تک جاری رکھی، موصو ف جنگ عظیم اول کی یاد میں تقریب کیلئے گئے تھے، لیکن پیرس پہنچ کر بارش کی وجہ سے تقریب میں ہی نہیں گئے، اس پر بہت لے دے ہوئی تو ٹرمپ نے سارا ملبہ اپنے خفیہ اہلکاروں پر ڈال دیا اور ان سے بھی لڑنے لگے۔ کہا کہ خراب موسم کی وجہ سے ہیلی کاپٹر نہیں جا سکتا تھا، وہ بذریعہ سڑک جانا چاہتے تھے، لیکن خفیہ اہلکاروں نے روک دیا، اس گوشمالی کے بعد امید ہے کہ خفیہ والے آئندہ ٹرمپ کو روکنے میں احتیاط کریں گے، ورنہ ٹرمپ یہ نعرہ بھی لگانے پر مجبور ہو سکتے ہیں کہ ’’روک سکو تو روک لو‘‘۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان میں جس نے یہ نعرہ لگایا تھا، اسے اگلوں نے ایسا روک دیا کہ اب تو زبانیں اور ٹوئٹ بھی رک گئے ہیں، تو بات ہو رہی تھی ٹرمپ کے دورئہ پیرس میں چھیڑی گئی نئی جنگوں کی، امریکی صدر کی سوتنوں کی طرح طعنے دینے کی عادت سے یورپی رہنما پریشان ہیں، یورپ کو نیٹو کے ذریعے تحفظ دینے کے ٹرمپ طعنوں سے تنگ آکر فرانسیسی صدر میکرون نے یورپی فوج بنانے کی تجویز دی تھی، جسے جرمنی کی حمایت بھی حاصل تھی، جو خود بھی ٹرمپ کے طعنوں سے تنگ ہے، اس پر ٹرمپ نے فرانسیسی صدر کے خلاف جنگ چھیڑ دی، میکرون کو ڈرامہ باز قراد دے دیا، یہ طعنہ بھی دیا کہ اس جرمنی کے ساتھ مل کر فوج بنائو گے، جس نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فرانس پر حملہکیا تھا اور ساتھ یہ بھی جتا دیا کہ امریکہ نے ہی اس وقت فرانس کو جرمنی سے بچایا تھا، ٹرمپ نے یورپی ممالک کو نیٹو کے خرچے کا بھی طعنہ دیا اور کہا کہ پہلے اس کے خرچے تو ادا کرو، پھر یورپی فوج کی بات کرنا، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میکرون فرانس میں غیر مقبول ہو رہے ہیں، اس لئے ایسی چول مار رہے ہیں۔ ٹرمپ صحافیوں سے نہ لڑیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، اس لئے پیرس میں فرانسیسی صدر سے لڑتے لڑتے واپس وائٹ ہائوس پہنچے تو سی این این سے وابستہ جم اکوسٹا سے لڑ پڑے، اکوسٹا نے ٹرمپ کی دکھتی رگ یعنی روسی مداخلت کے معاملے پر سوال کر دیا تھا، بس پھر کیا تھا، ٹرمپ نے عملے کو ان سے مائیک چھیننے کا حکم دے دیا، وائٹ ہائوس سے دیس نکالا بھی دیا، ایک اور صحافی نے اکوسٹا کے حق میں بولنے کی کوشش کی تو اسے بھی نکلوانے کی دھمکی دے دی، جس پر اس نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی بھی ٹرمپ کی دوستی کے بڑے دعویدار ہیں، مگر امریکی صدر نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی بننے کی دعوت ٹھکرا کر مودی کو اس کی حیثیت خوب یاد دلائی ہے، ویسے ٹرمپ اگر آجاتے تو پھر زیادہ مزا آتا، کیوں کہ وہ میزبان کے ساتھ جس طرح کا سلوک کرتے ہیں، وہ دیکھنے والا ہوتا ہے، کسی کو یقین نہ آئے تو فرانسیسی صدر سے پوچھ لیں جنہیں ابھی ٹرمپ کی میزبانی کا تازہ تجربہ ہوا ہے۔
ٹرمپ کے ہوتے ہوئے امریکہ بھی پاکستان پاکستان جیسا لگتا ہے، انہوں نے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سارے اطوار امپورٹ کرلئے ہیں، جس طرح ہمارے سیاستدان الیکشن ہارنے پر بھی جیت کے دعوے کرتے ہیں، کچھ ایسا ہی ٹرمپ بھی ایوان نمائندگان میں اکثریت کھونے کے بعد کرتے نظر آئے۔ ٹرمپ کے طفیل پہلی بار زیادہ پرزور انداز سے امریکی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات سامنے آئے ہیں، انہوں نے ہمارے الیکشن آئٹم بھی درآمد کرلئے ہیں، جیسے ہمارے الیکشن میں کئی حلقوں میں یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ مخصوص علاقوں میں پولنگ سست کرادی جاتی ہے، امریکہ میں بھی سیاہ فام اورغیر ملکی نژاد امریکیوں کے علاقوں میں یہ الزام پہلی بار سامنے آیا ہے، دوسری جانب یہ بھی کمال ہوا ہے کہ ایک ہفتے بعد بھی ایریزونا سمیت بعض حلقوں کا نتیجہ نہیں آیا، وہاں بار بار گنتی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح جیسے ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو ڈراتے ہیں کہ میرا کیس کھولا تو میں تمہارے فلاں اسکینڈل کو اچھال دوں گا، بالکل یہی کام ٹرمپ بھی کرتے نظر آرہے ہیں، انہوں نے اپوزیشن ڈیموکریٹس کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے ایوان نمائندگان میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ان کے ٹیکس گوشواروں یا صدارتی الیکشن میں روسی مداخلت کے معاملے کو چھیڑا تو وہ سینیٹ میں جہاں ان کی جماعت کی اکثریت ہے، اپوزیشن رہنمائوں کا کچا چھٹا کھول دیں گے۔
ٹرمپ کوئی مہینہ کسی کو بغیر برطرف کئے گزار دیں، یہ تو نہیں ہو سکتا، وہ تو زکوٹا جن کی طرح ہر ماہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مجھے کام بتائو، میں کس کو کھائوں اور پھر کسی نہ کسی عہددیدار کی نوکری کھا جاتے ہیں، اب اٹارنی جنرل جیف سیشن کی پہلے انہوں نے چھٹی کی ہے، لیکن اس پر بس نہیں، ہوم لینڈ سیکورٹی کے چیف کرسجٹن نیلسن کی بھی بس چھٹی ہوا ہی چاہتی ہے، بلکہ امریکی میڈیا تو چیف آف اسٹاف جان کیلی کا دانہ پانی بھی وائٹ ہائوس سے اٹھنے کی باتیں کر رہا ہے، کیوں کہ بتایا جاتا ہے کہ جان کیلی نے کچھ لوگوں کو تسلی دیدی تھی کہ اب کسی کو وائٹ ہائوس سے نہیں نکالا جا ئے گا، سو ٹرمپ نے سوچا ہوگا کہ کیوں نہ اسے ہی نکال دیا جائے، تاکہ ماہانہ برطرفیوں کا کوٹہ بھی پورا ہو جائے اور جان کیلی کو بھی سبق مل جائے کہ اس نے کس طرح برطرفیوں کی مخالفت کی ہے۔ جیسا کہ ٹرمپ مزاجاً خاصے دیسی واقع ہوئے ہیں، سو جس طرح ہمارے ہاں حکمران ہی نہیں ان کے گھر والے بھی حکمرانی کرتے ہیں، بیوی اور بچوں کی بھی موجیں ہوتی ہیں اور ان کے کہنے پر بھی افسر تبدیل ہو جاتے ہیں، ٹرمپ اب یہ عادت کاپی کرنا کیسے بھول جاتے، ان کی لاڈلی بیٹی ایوانکا اور داماد جیرڈ کشنرتو پہلے دن سے ہی وائٹ ہائوس میں سرکاری عہدوں کی موجیں لوٹ رہے ہیں، اب خاتون اول میلانیا بھی پیچھے نہیں رہیں، انہوں نے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر میرس ارچڈل کی برطرفی کا مطالبہ کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی آدھی حکمران ہیں، میلانیا کا یہ مطالبہ منظور بھی ہوگیا، کیوں کہ ٹرمپ دنیا میں کسی اور سے ڈریں نہ ڈریں، اپنی بیوی سے بہت ڈرتے ہیں،یہ ساری دنیا ویڈیوز میں دیکھتی بھی رہتی ہے، ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ میں بہت سے کام پہلی بار ہو رہے ہیں، اس میں اب یہ نیا اضافہ ہے کہ خاتون اول کی وجہ سے کسی عہدیدار کی چھٹی کردی گئی، میلانیا ٹرمپ کی ناراضگی کی وجہ بھی ایسی ہے، جیسے ہمارے ہاں شاہی خاندانوں کے افراد کی ہوتی ہے، وہ دورئہ افریقہ میں اپنے ذاتی اسٹاف سے نیشنل سیکورٹی عہدیدار کے روئیے سے ناخوش ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑائی بھی عورتوں والی ہے، یعنی کہ طیارے میں مرضی کی سیٹوں پر نہیں بیٹھنے دیا، پروٹوکول پورا نہیں ملا، سرکاری وسائل سے اخراجات پر اعتراض کیا وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد تو ہمارا احساس محرومی کچھ نہ کچھ دور ہوجانا چاہئے کہ امریکہ میں بھی ہماری طرح ہی نظام آتا جا رہا ہے۔