اس بار بھی نام نہاد امن کے گرینیڈ سے پن نکالنے والے ہاتھ اسرائیل کے تھے۔ اسرائیل نے اپنی اس مجرمانہ کارروائی کو ’’خفیہ آپریشن‘‘ کا نام دیا ہے۔ نام بہت اچھے ہو سکتے ہیں، مگر کسی گھناؤنے جرم کے خوف ناک چہرے پر اچھے نام کا نقاب بہت دیر تک نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں الفاظ کی بہت توہین ہوئی ہے۔ بہت ساری بری چیزوں کیلئے بہت سارے اچھے نام رکھے گئے ہیں۔ امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر جو ایٹم بم گرایا تھا، اس کا نام تھا :Little Boy یعنی چھوٹا بچہ! کیا وہ چھوٹا بچہ تھا ؟ جس نے لاکھوں ماؤں اور بچوں سے بھرے ہوئے ہنستے شہر کو شعلوں میں تبدیل کردیا اور پھر وہاں صرف راکھ ہی رہی۔ وہ راکھ جس میں ایٹمی تابکاری کے اثرات برسوں تک نہیں بجھے۔ امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت نے بھی ایسا کیا تھا۔ بھارت نے پوکھران میں جو ایٹمی دھماکہ کیا تھا، اس ایٹمی دھماکے میں استعمال ہونے والے ایٹم بم کا نام رکھا گیا تھا: Smiling Budha یعنی مسکراتا ہوا بدھ! کہاں ایٹم بم اور کہاں بدھ؟ ریاست اور سیاست نے الفاظ کا احترام کرنا نہیں سیکھا۔ دنیا کے منفی آپریشنز کے مخفی نام بڑے من موہنے رکھے جاتے ہیں۔ مگر پرکشش نام یا اچھے الفاظ سے بری چیز بہتر نہیں ہو سکتی اور ’’خفیہ آپریشن‘‘ کے دونوں الفاظ میں کوئی اچھائی نہیں اور جو برائی اسرائیل میں جنم لیتی ہے وہ تو بہت بڑی برائی ہوتی ہے۔
یہ خفیہ آپریشن بھی بہت بڑی برائی تھا، جس خفیہ آپریشن نے ایک بار پھر بندوقوں کے منہ کھول دیئے۔ اس چند دنوں کے تصادم جس میں ایک طرف وہ اسرائیل ہے، جس کو امریکہ کی مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف وہ غزہ ہے، جو غم کو غصے میں تبدیل کرتے ہوئے گزشتہ بارہ برس سے مسلسل مزاحمت کر رہا ہے۔ اسرائیل نے ہمیشہ اس شہر پر میزائلز اور بموں کی بارش کی، جس شہر میں حماس نے بارہ برس قبل الفتح کے سابق صدر محمود عباس کو شکست دی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک اسرائیل نے غزہ کو محاصرے میں لیا ہے۔
غزہ دنیا کا واحد شہر ہے، جو برسوں سے بدترین گھیرے میں ہے۔غزہ کی طرف آنے اور غزہ سے جانے والی گاڑیوں کی سخت چیکنگ ہوتی ہے۔ غزہ کے شہری صہیونی محاصرے میں رہنے کے باوجود بھی اپنے حق پرست مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ غزہ کے شہریوں سے اسرائیل کے آگے سر تسلیم خم کرانے کے لیے بہت ساری قوتوں نے کوششیں کی ہیں۔ ان قوتوں میں کچھ قوتیں تو وہ ہیں، جو بندوق کے منہ سے بارود بھرے لہجے میں بات کرتی ہیں، مگر کچھ قوتیں ایسی بھی ہیں، جو عربی بولتی ہیں۔ وہ قوتیں غزہ کے شہریوں کو سمجھدار ہونے کی تلقین کرتی ہیں۔ وہ قوتیں کہتی ہیں کہ ’’جس ہاتھ کو توڑ نہیں سکتے، اس ہاتھ کو چومنے میں ہی بھلائی ہے۔‘‘ مگر غزہ کے زخمی بدن میں جو سرکش روح موجود ہے، وہ کسی سمجھوتے کے آگے سجدہ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ سرکش روح صرف اس یقین کے ساتھ بارہ برس سے لڑ رہی ہے کہ ’’آخری فتح حق کی ہوگی۔‘‘
اسرائیل کو اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ غزہ کے فلسطینی کس طرح محسوس کرتے ہیں؟ غزہ ان فلسطینیوں کا گھر ہے، جو ہر رات اپنے جوان بیٹوں اور معصوم بچوں کو خواب میں دیکھتے ہیں۔ وہ جوان بیٹے اور وہ معصوم بچے جو کبھی بڑے نہیں ہوتے۔ بہت سارے برس گزر چکے ہیں، مگر نوجوان شہید اب بھی نوجوان ہیں اور معصوم شہیدوں کے ہاتھ اب بھی بہت چھوٹے اور ان کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمکتی ہیں۔ وہ سب ہر رات اپنے خاندان والوں سے خواب میں ملاقات کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
’’میرے قاتل کو میرا خون معاف مت کرنا‘‘
اسرائیل اب جان چکا ہے کہ عرب اپنے دشمنوں کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ ان کے جھگڑے برسوں پر نہیں، صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔ ان کے سینوں میں نسل در نسل انتقام کی آگ دہکتی رہتی ہے۔ اسرائیل کو عربوں کی اس بات سے ڈر لگتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ جب عربوں کا وقت آئے گا تب وہ ایک ایک زخم کا بدلہ لیں گے۔ ایک ایک زخم کا مطلب ایک ایک زخم کا! وہ سارے زخم جو ماؤں کے دلوں میں مر جانے والے بیٹوں کے حوالے سے اب تک ہرے ہیں۔ وہ سارے زخم جو بیوہ عورتوں کی آنکھوں میں اس وقت انگاروں کی مثل دہکتے ہیں، جب وہ سردیوں کی راتوں میں اپنے یتیم بچوں کو نیند کی گود میں سوتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ وہ سارے زخم جو محبت کرنے والے سینوں میں لے کر گھومتی ہیں۔ وہ سارے زخم جو ان دوستوں کے حصے میں آتے ہیں، جو دوست شہید دوست کے جنازے کو کندھا دیتے ہیں۔
اسرائیل اس بات کو جانتا ہے اور اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر اس نے لاکھوں عربوں کو قتل کیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے اور عرب ڈر گئے ہیں۔ کیا عرب ڈر گئے ہیں؟ کیا ڈرے ہوئے انسان ایسے ہوتے ہیں؟ گوگل کی معرفت ایک نظر ان مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں پر ڈالو اور پھر بتاؤ کہ کیا زخموں نے ان کو کمزور کیا ہے؟ وہ جو اپنے ہر پیارے کے قتل کو قربانی سمجھتے ہیں۔ وہ اس طرح آگے بڑھتے ہیں جس طرح طوفان میں سمندر کی لہریں آگے بڑھتی ہیں۔ جس طرح تیز ترین بارش میں سیاہ بادل آگے بڑھتے ہیں۔ جس طرح جنگل میں شیر آگے بڑھتے ہیں۔ وہ اس طرح لڑتے ہیں جس طرح کوئی مجاہد آخری لڑائی لڑے۔ وہ دشمن پر اس طرح حملہ آور ہوتے ہیں، جس طرح زمین کا سینہ چاک ہو جائے اور اسے نمودار ہو جائے وہ جنگجو جو برسوں سے میدان میں اترنے کا منتظر اور انتظار کے مٹی میں مدفون ہو۔ یہودیوں نے عرب سرزمین میں اسرائیل کو خنجر کی طرح تو اتارا ہے، مگر اس خنجر سے پیدا ہونے والے زخم سے ابھی تک خون بہہ رہا ہے۔ عرب تاریخ اپنے جغرافیہ کا کوئی گھاؤ مٹانے کو تیار نہیں۔ اسرائیل کو خوف ہے کہ وہ عربوں کے گھیرے میں ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ عرب کے حکمران غداری کر سکتے ہیں، مگر عرب عوام کبھی اپنے دین اور اپنے دیس کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ عرب سرزمین میں پیوست ہونے والے اسرائیلی خنجر کا زخم بھر جائے۔ وہ زخم ایک داغ کی صورت رہ جائے۔ عربوں کی نئی نسل اس جنگ کو بھلا دے جو جنگ عیاری سے لڑی گئی تھی۔ جس جنگ کا مقصد عرب دنیا میں امریکہ کا اسرائیل نامی مورچہ قائم کرنا تھا۔
وہ جنگ بے شمار لڑائیوں کا مجموعہ ہے۔ اس جنگ کی ایک لڑائی وہ بھی تھی، جب صابرہ اور شتیلہ پر آگ برسائی گئی تھی۔ اس جنگ کی ایک لڑائی وہ بھی تھی، جب عرب بستیوں پر اسرائیل کے فضائی حملے ہوئے اور ٹوٹی ہوئی عمارتوں کے پتھروں تلے معصوم بچے مردہ تتلیوں کی طرح ملے تھے۔ اس جنگ کی ایک لڑائی وہ بھی تھی، جس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک عرب شاعرہ نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا ’’میں اذیت محسوس کر رہی ہوں۔ ایسی اذیت جو ناقابل بیان ہے۔‘‘ اس جنگ کی ایک لڑائی وہ بھی تھی، جب ابو عمار عرف یاسر عرفات نے سامراج کے دباؤ میں آکر فلسطین کی عظیم جدوجہد کو ’’اوسلو معاہدے‘‘ کی میز پر ایک جواری کی طرح ہار دیا۔ یہ ساری زخم کھانے والی یادداشتیں ہیں۔ مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ صابرہ اور شتیلہ کے غم کو عربوں نے غصے میں تبدیل کیا۔ یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ جب فلسطینیوں کے گھر ہوائی حملوں کے بعد ملبوں میں تبدیل ہوئے، تب عرب عوام نے اپنے بچے اپنے دل میں دفن کیے تھے۔ وہ اذیت جو عرب اسرائیل جنگ کی شرمندہ شکست کے باعث عربوں کے دل میں آگ کی طرح بھڑک اٹھی، وہ آگ ابھی بھی نہیں بجھی اور بجھے گی بھی نہیں۔ کیوں کہ یہ صحرا میں بسنے والے عربوں کے سینوں میں جلتی ہوئی آگ ہے۔
اور ’’اوسلو معاہدے‘‘ کے حوالے سے پوری دنیا دیکھ چکی ہے کہ وہ عرب ہیرو جس کی تصویر فلسطین کے ہر باسی، چاہے وہ وطن میں ہو یا جلا وطن، اس کے گھر کی دیوار اور ہر فلسطینی کے دل پر آویزاں تھی، جب اس نے آزادی کے نام پر اسرائیل کا تیار کردہ بلدیاتی نظام قبول کیا، تب وہ مزاحمت کی مورت ریت کے ذروں کی طرح بکھر گئی۔ فلسطین میں الفتح کے بینر تلے آج بھی کچھ رعایت یافتہ لوگ یاسر عرفات کا نام لیتے ہیں، مگر وہ شخص اب تاریخ کے کباڑ خانے میں تلاش کیا جائے گا، جو لیڈر ہو کر بھی عرب قوم کی قربانیوں کا تحفظ نہ کر سکا۔ کیا یہ کوئی اتفاق ہے کہ چھ روز قبل 11 نومبر کے روز یاسر عرفات کی 14 ویں برسی تھی، مگر اس دن فلسطین سے ایسی کوئی بڑی خبر نہیں آئی، جیسی بڑی خبر کسی ہیرو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے آتی ہے۔ اس دن بھی فلسطین سے خبر آئی، مگر اس مزاحمت کی جو مزاحمت غزہ کے لوگ مستقل کر رہے ہیں۔ جنگ صرف وہ نہیں، جس میں میزائل داغے جاتے ہیں۔ جس میں جہازوں سے بم گرائے جاتے ہیں۔ جس میں توپوں سے گولے برسائے جاتے ہیں۔ جنگ وہ بھی ہے جس میں ایک معذور فلسطینی ویل چیئر پر بیٹھ کر اسرائیلی فوج کی طرف پتھر پھینکتا ہے۔ جنگ وہ بھی ہے، جس میں اسکول سے گھر آنے والی ایک ٹیچر اپنا سینڈل اتار کر اسرائیلی فوجیوں پر پتھر برساتی ہے۔ جنگ وہ بھی ہے، جس میں اب تک کروڑوں عربوں نے وہ قدم نہیں رکھا، جس قدم کا خدشہ اسرائیل کے دل میں خوف کا سبب بنا ہوا ہے۔
اسرائیل اب چاہتا ہے کہ اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینیوں سے کوئی ایسا معاہدہ کرے، جس سے ماضی کی تلخیاں مٹ جائیں۔ مگر ایسے کسی بھی معاہدے میں وہ شہداء رکاوٹ ہیں، جو نیند کی نیلی دیوار پھلانگ کر خوابوں کی خوبصورت اور خطرناک دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ شہداء جو ہر غلامی کے خلاف مزاحمتی شور مچاتے ہیں۔ وہ شہداء جو وطن پر قربان ہونے کے بعد وطن کے تاابد محافظ بن گئے ہیں۔ وہ شہداء جن کے جنازوں کو فلسطین کے پرچموں میں لپیٹا گیا۔ وہ شہداء اپنے ہاتھوں میں اپنے وطن کے پرچم اٹھا کر چلے آتے ہیں، کبھی پہاڑوں پر، کبھی صحراؤں میں، کبھی دیہاتوں میں اور کبھی شہروں کی تنگ و تاریک گلیوں میں آزادی کا مارچ کرتے ہیں اور جب وہ اپنے پیارے سے ملتے ہیں تب وہ اس کے گریبان سے پکڑ کر اس سے کہتے ہیں: ’’میرے قاتل کو معاف نہ کرنا!‘‘٭