پاکستان میں حکومتوں کی ناکامی کا ایک بڑا سبب برسر اقتدار آنے کے بعد مسائل کا تعین اور ترجیحات کی فہرست بنا کر ان پر عملدرآمد نہ کرنا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے عوام سے ایسے ایسے وعدے کرکے ان کی تکمیل کے بلند بانگ دعوے کر لئے جاتے ہیں جو تمام پانچ سال کی مقررہ مدت میں پورے ہو ہی نہیں سکتے۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کی سابقہ حکومتوں کے بارے میں بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ انہیں ملک اور قوم کے مسائل حل کرنے سے کوئی دلچسپی تھی نہ غرض۔ ان کی اولین ترجیح اپنے اقتدار کا تحفظ اور اپنی دولت، جائیداد و املاک میں اضافے کے یقینی اقدامات کرنا تھا۔ اسی لئے انصاف کا کوڑا حرکت میں آیا تو اس کی سب سے زیادہ زد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے وابستگان پر پڑی۔ تحریک انصاف پہلی مرتبہ وفاق میں برسراقتدار آئی ہے۔ اس کی مدت ختم ہونے کے بعد کیا کیا انکشاف ہوں گے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم موجودہ صورتحال بھی کچھ ایسی ہے کہ پارٹی کے سربراہ عمران خان نے تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے لگاکر نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ تو کرلیا۔ وطن عزیز کے عام شہری بھی ان نعروں سے متاثر ہوگئے اور انہوں نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو عام انتخابات میں منتخب کرکے بڑی تعداد میں قومی اور دو صوبوں کی اسمبلیوں میں بھیجا۔ تاہم ان کی سو دن کی کارکردگی کا کوئی ایک بھی مثبت نتیجہ اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں۔ بیرون ملک سے امداد اور قرضوں کیلئے مذاکرات ہو رہے ہیں، قومی اور بین الاقوامی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن ملک کے معروضی حقائق سامنے آنے پر ان میں سے کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ کام کا آغاز کہاں سے اور کیسے کیا جائے۔ برسر اقتدار آتے ہی اپنے وعدوں اور دعوئوں کے برعکس ماضی کی کسی حکومت نے عوام کو جلد از جلد مہنگائی کے اس قدر تحفے نہیں دیئے، جتنے تحریک انصاف کی حکومت سو دنوں سے بھی پہلے دے چکی ہے۔ ملک کے غریب عوام روٹی، پانی، بجلی، صحت، تعلیم اور دیگر ضروری اشیاء کو آج ترس رہے ہیں، لیکن انہیں سابقہ حکومتوں کی طرح بڑے بڑے منصوبوں کے سنہرے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کا یہ عجیب مزاج ہوتا ہے کہ وہ جس محکمے، ادارے اور شعبے میں جائیں، اسی کے مسائل کو اپنی اولین ترجیح قرار دے کر اس سے وابستہ افراد کو مطمئن اور خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے یوتھ پروگرام کے حوالے سے اپنے دفتر میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور ہر شعبے میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا تحریک انصاف حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اولین ترجیح کوئی ایک ہوسکتی ہے، لیکن وزیراعظم نے بالکل سرسری، رسمی اور روایتی انداز میں تعلیم، صحت، روزگار اور ہر شعبے میں نوجوانوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بیک وقت چار باتیں گڈ مڈ کردی ہیں۔ ایک قومی اخبار میں وزیراعظم عمران خان کابینہ کی کارکردگی کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی شائع ہونے والی ایک خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اگلے روز وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس طلب کرلیا ہے، جس میں گیارہ نکاتی ایجنڈے پر غور کیا جائے گا۔ کوئی وزیر اعظم کو یہ بتانے والا نہیں کہ حکومتی اور قومی شعبوں کے تمام کام معمول کے مطابق اور بہتر طریقے سے چلانے کیلئے دیانتدار، اہل، تجربہ کار، محب وطن، فرض شناس اور عوام دوست افراد کو سربراہ مقرر کردیا جائے تو نصف سے زائد مسائل از خود حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں دوسری جماعتوں کے بہت سے بددیانت اور نااہل افراد کو اس لئے شامل کرنا پڑا کہ وہ ’’قابل انتخاب‘‘ قرار پائے، یعنی اپنے اپنے حلقوں میں ان کی کامیابی یقینی تھی۔ اسے ملک اور قوم کی خدمت کے حوالے سے کسی طور پر بھی اچھا معیار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب جو یہ الیکٹ ایبلز تحریک انصاف میں در آئے ہیں اور وفاق و پنجاب میں حکومت سازی کیلئے دوسری جماعتوں کو شامل کرنے کی مجبوری بھی درپیش رہی تو ان سب کو خوش کرنے کیلئے تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کیا کریں؟ وطن عزیز کا پہلا اور سب سے اہم کام غربت کا خاتمہ ہے جو وزیراعظم کی اولین ترجیح ہونی چاہئے تھی، لیکن اس جانب فوری طور پر ان کی کوئی توجہ نظر نہیں آتی، کجا یہ کہ امیر و کبیر اور موقع پرست سیاسی رہنمائوں کا جمگھٹا ساتھ لے کر مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا خواب پورا کیا جا سکے۔
عوام کی جان و املاک کی کسی کو پروا نہیں
کراچی میں شاہ لطیف ٹائون کے علاقے میں واقع موٹر سائیکل بنانے والی ایک کمپنی میں کام کے دوران بوائلر پھٹنے کی وجہ سے فوری طور پر چھ مزدور جل کر جاں بحق ہوگئے۔ ایک مزدور کی حالت نازک ہے، جبکہ بوائلر کے قریب کام کرنے والے کئی مزدور کیمیائی مادے اور گرم پانی سے جھلس گئے، جنہیں شدید زخمی حالت میں سندھ کے واحد برنس سینٹر متصل سول اسپتال منتقل کردیا گیا۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے غریب شہریوں کی جانوں کو خطرات سے بچانے کیلئے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ بوائلر ہوں یا فیکٹریوں کا فضلہ، دھواں ہو یا گیس، ان سب کو غریبوں اور مزدوروں کے قریب ہی کیوں رکھا جاتا ہے، جبکہ حکام و افسران اور مالکان ان سے بہت دور اپنے ایئرکنڈیشنڈ دفتروں میں ہمیشہ بالکل محفوظ و مامون رہتے ہیں۔ کانوں میں کام کرنے والے محنت کش، گٹر کی صفائی کرنے والے مزدور اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے باعث ہلاک ہونے والے عام شہری تو رہے ایک طرف، حکمرانوں کو تو یہ توفیق بھی نصیب نہیں ہوتی کہ وہ بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آگ لگا کر دو سو ساٹھ محنت کش خواتین اور مزدوروں کو زندہ جلا دینے والوں ہی کو نشان عبرت بنا دیں۔ عوام کی جان و املاک سے بے حسی اور بے تعلقی کا مظاہرہ کرنے والے یہ ظالم ان کی خدمت کا دعویٰ کرکے ان کے سروں پر مسلط رہیں تو وہ کب تک عذاب الٰہی سے بچے رہیں گے۔