’’یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ کئی لوگوں کو بتانے کے باوجود وہ غلط کام کر گزرتے ہیں، وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ انہیں جو ایجنٹ ملائیشیا بھیج رہا ہے، وہ ان کا رشتے دار ہے اور پہلے بھی کئی لوگوں کو بھیج چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی لوگ غیر قانونی طور پر بھی یہاں کام کررہے ہیں، جو فی الحال پولیس کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں، لیکن وہ کسی بھی وقت پکڑے جاسکتے ہیں۔ پھر انہیں اپنے ملک ڈی پورٹ کیا جائے گا یا اپنے جرم کی سزا کاٹنے کیلئے انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
علی نے بتایا کہ ہمارے ملک میں کئی غریب، مجبور اور بے روزگار لوگوں کو ٹھگ اور نوسرباز قسم کے ایجنٹ ملازمت کے جعلی کاغذات تو دیتے ہی ہیں، مگر ویزا بھی جعلی لگوا کر دیتے ہیں۔ پہلے جب کمپیوٹرائزڈ سسٹم نہیں تھا، تب تو کچھ لوگ ان جعلی ویزا اور پاسپورٹ کے باوجود بچ نکلتے تھے، لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔
ماضی قریب میں ایک ایسا ہی واقعہ میری نظروں سے گزر چکا ہے۔ پچھلی مرتبہ میں کوالالمپور سے کراچی لوٹ رہا تھا تو کوالالمپور ایئر پورٹ پر جہاز میں سوار ہونے کے وقت چھ سات ایسے مسافر میرے سامنے آکر بیٹھے جن کے پاسپورٹ ملائیشیا کے ایک پولیس افسر کے ہاتھ میں تھے۔ اس نے مسافروں کو جہاز میں بٹھانے کے بعد ان کے پاسپورٹ انہیں دینے کے بجائے ایئرہوسٹس کو تھما دئیے اور اسے ہدایت کی کہ وہ پائلٹ کے حوالے کردے۔ جہاز کے روانہ ہونے کے بعد ان میں سے ایک مسافر میرے قریب خالی سیٹ پر بیٹھ گیا، اس سے معلوم ہوا کہ اس کا تعلق لاہور سے ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی تفریحی ویزا پر کوالالمپور آئے تھے اور لاہور کے ایجنٹ نے انہیں بتایا تھا کہ کوالالمپور ائیر پورٹ سے باہر آتے ہی اس کا آدمی ان سے آملے گا جو انہیں ملائیشیا میں ملازمت دلوائے گا۔
’’اس نے ملازمت دلانے، ویزا اور ریٹرن ٹکٹ کے ہم سے ایک لاکھ اسی ہزار روپے لئے تھے، لیکن یہاں پہنچتے ہی امیگریشن والوں نے ہمارے پاسپورٹ ضبط کرلئے اور ہمیں ائیر پورٹ سے باہر جانے کی اجازت
نہیں دی گئی‘‘۔
’’آپ کے پاس یہاں رہنے کا وزٹ ویزا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی ہاں، ہمارے پاس ایک مہینے کا وزٹ ویزا تھا، لیکن ہمیں باہر نکلنے نہیں دیا گیا‘‘۔ اس نے بتایا۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’ویسے تو ویزا دینے کے بعد کسی بھی ملک کا امیگریشن عملہ بغیر کوئی سبب بتائے کسی بھی غیر ملکی کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے‘‘۔
’’اور انہوں نے ہمیں واپس اپنے وطن جانے سے بھی روک دیا تھا‘‘۔
’’کیوں؟ کیا آپ کے پاس ریٹرن ٹکٹ نہیں تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ بھی تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں نیا ٹکٹ لینا پڑے گا۔ ہم پورے دس دن اس ایئر پورٹ پر خوار ہوتے رہے‘‘۔
’’دس دن…!‘‘ میں چیخ پڑا تھا۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’پھر آپ کے کھانے پینے کا انتظام کیسے ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ دنیا کے ہر ایئر پورٹ پر کھانے پینے کی اشیاء انتہائی مہنگی ہوتی ہیں اور یہاں کوالالمپور ایئر پورٹ پر جو دو تین ریسٹورنٹس ہیں، وہاں سے ہم جیسے ایشیائی ملکوں کے لوگ چائے اور کافی پینے کیلئے بھی دو مرتبہ سوچتے ہیں۔
’’بس جناب! اس بارے میں نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے…‘‘ اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’کبھی کوئی چیز خرید لیتے تھے، کبھی کوئی شخص کھانا کھلا دیتا تھا، زیادہ تر وقت فاقے کرتے ہوئے گزرا ہے۔ ہمارے پاس جو رقم تھی، ہم نے وہ جمع کرکے چار سو ڈالر فی آدمی کے حساب سے ٹکٹ خریدا۔ تب ہمیں اس جہاز کا ٹکٹ ملا ہے۔ یک طرفہ بتیس ہزار روپے کا ٹکٹ اور وہ بھی کراچی تک کا بنا کر دیا ہے۔‘‘
’’لیکن آپ نے تو بتایا تھا کہ آپ کے پاس پی آئی اے کا ریٹرن ٹکٹ ہے‘‘۔ میں نے پوچھا۔
اس نے جیب سے ’’اے ٹکٹ‘‘ کی سلپ نکال کر میرے حوالے کی۔ ’’ہمارے ایجنٹ نے اس کاغذ کی فوٹو اسٹیٹ کاپی ہمیں دی تھی اور کہا تھا کہ یہ لاہور تک کا ریٹرن ٹکٹ ہے‘‘۔
میں نے اس کاغذ کو غور سے دیکھا۔ اس پر کچھ عجیب انداز سے ٹائپ شدہ سطریں تھیں۔ بالکل سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ڈپارچر کے دن اور وقت کونسے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ ایجنٹ نے انہیں صرف جانے کا ٹکٹ دیا ہے اور ریٹرن ٹکٹ ایسے ہی جعلی تیار کرکے کاغذ کا پرزہ انہیں تھما دیا ہے۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ یہ لوگ دوسرے ملک جا کر محنت مزدوری کریں گے اور پھر اپنی ہی کمائی سے واپسی کا ٹکٹ خرید لیں گے۔ ممکن ہے اس کے ذہن میں یہ ہو کہ وہ لوگ پاکستان سے تو ٹل جائیں، پھر بے شک دوسرے ملک میں خوار ہوتے رہیں۔ یہ سوچ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے یہ ایجنٹ کس قدر ظالم ہوتے ہیں۔ وہ غریب، بے روزگار اور پہلے سے پریشان حال لوگوں کو نوکری اور روزگار کا جھانسا دے کر مزید کتنا پریشان کرتے ہیں۔
’’کوالالمپور ایئر پورٹ پر امیگریشن والوں نے پوچھا تھا کہ ہم باہر جا کر کس کے ہاں ٹھہریں گے؟‘‘ اس نے بتایا۔
’’پھر، آپ نے کیا بتایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہم کیا بتاتے… ہمارے ایجنٹ نے ہمیں ایسا کوئی ایڈریس نہیں بتایا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس کا آدمی ایئر پورٹ پر آکر ہمیں رسیو کرے گا۔ پھر وہ ہمیں کسی فیکٹری یا کارخانے میں روزگار سے لگا دے گا۔‘‘
’’آپ نے یہ بات امیگریشن افسر کو بتائی تھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔ ’’ایجنٹ نے ہمیں سختی سے منع کیا تھا کہ ہم ایسی کوئی بات نہیں کریں گے، ورنہ ہمیں جیل بھیج دیا جائے گا۔‘‘
’’آپ نے ملائیشیا کا ویزا لاہور سے لیا تھا یا اسلام آباد سے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جناب! ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے‘‘۔ اس نے بے بسی سے جواب دیا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ ایجنٹ نے انہیں ویزا بھی جعلی لگوا کردیا تھا۔ ان کی باتوں سے اندازہ کرکے یقیناً ملائیشیا کے امیگریشن افسر ساری بات سمجھ گئے ہوں گے، اس لئے انہیں ایئر پورٹ سے باہر جانے سے روک دیا گیا تھا۔
’’افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کی اتنی رقم برباد ہوگئی‘‘۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’ایک طرف تو آپ نے ایجنٹ کو رقم دی اور دوسری طرف یہاں آپ کو چار سو ڈالر بھی خرچ کرنے پڑے‘‘۔ میں نے ہمدردی سے کہا۔
’’جناب، ہمیں اب یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ آگے کیا ہوگا…؟ ہمیں لاہور تک پہنچایا جائے گا یا کراچی ہی میں پھینک دیں گے۔ وہاں سے آگے کے سفر کے لئے ہمارے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملائیشیا کی پولیس نے ہمارے پاسپورٹ پائلٹ کے حوالے کر دیئے ہیں۔ معلوم نہیں کراچی پہنچ کر وہ ہمیں دے گا یا FIA پولیس کے حوالے کر دے گا۔ اگر ہمارے پاسپورٹ FIA کے حوالے کردیئے گئے تو ہم اپنے بچوں کی صورت دیکھنے کو ترس جائیں گے۔‘‘
ذرا سوچئے… کتنا کرب ہے ان باتوں میں۔ ہمارے لاچار اور بے بس لوگ پردیس میں اور اپنے ملک میں کس طرح بے یارو مددگار ہوکر نوسر بازوں سے لٹتے ہیں اور کہیں کے نہیں رہتے۔
٭٭٭٭٭