سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی جماعت، جماعت اسلامی کے بارے میں خامہ فرسائی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سید صاحبؒ بذات خود کئی کتابوں کے مستحق ہیں۔ ان کی صحافت، ان کی سیاست، ذاتی زندگی میں اپنے عزیزوں، اپنے اہل و عیال، دوستوں اپنے کارکنوں، اپنے ملنے والوں اور اپنے بدترین مخالفوں کے بارے میں ان کے رویوں پر الگ الگ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ سید علیہ الرحمۃ اس قوم کے لیے خدا کا بڑا انعام تھے۔ جس کی ہم نے قدر نہیں کی۔ ان کی جماعت اسلامی کے کئی ادوار ہیں۔ سید صاحبؒ کے بعد ان کی زندگی میں میاں طفیل محمد، سید منور حسن، قاضی حسین احمد اور اب سراج الحق تک جماعت اسلامی نے کیا کھویا کیا پایا، یہ بھی ایک طویل کہانی ہے۔ مرشد مودودیؒ کو اقتدار کے آرزومندوں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ چاہتے تو اقتدار اور اختیار کو ہر حکمران ان کے گھر کی لونڈی بنانے پر آمادہ تھا۔ مرشد کی آرزو تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظام رائج ہو اور اس کے لیے رجال کار تیار کرنا ان کا مقصود تھا۔ اپنوں پرایوں کی غلط بات، غلط کہنے کا حوصلہ بھی جناب میں تھا۔ جمعیت کے نوجوانوں نے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی علامہ علائوالدین کے گھر میں بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا تو سید مودودیؒ نے سب سے پہلے مذمت کا بیان جاری کیا۔ ذات کے سید اور صفات کے بھی سید تھے۔ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے لیے تشریف لائے تو فوٹوگرافروں کی خواہش تھی کہ سیدؒ صاحب کی تصویر بنائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے کانشش کر کے شوٹ نہ کریں۔‘‘
65ء جنگ کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے صدر ایوب خان سے ملاقات کی یہ بتانے کے لیے کہ بھارت کی جارحیت کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔ اس ملاقات کی جو تصویر شائع ہوئی، اس میں ایوب خان، سید مودودیؒ کا ہاتھ تھامے کھڑے ہیں اور حاضرین قہقہہ لگا رہے ہیں۔ اگلے دن سید مودودیؒ پریس کلب راولپنڈی تشریف لائے تو صحافیوں نے ہنسنے اور قہقہہ لگانے کی وجہ دریافت کی۔ سیدؒ نے فرمایا کہ ایوب خان نے سوال کیا کہ ’’مولانا دین اور سیاست کا تعلق کیا ہے؟‘‘ جواب میں سیدؒ نے کہا کہ ’’دین اور سیاست کا تعلق تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آیا، البتہ فوج اور سیاست کا آپس میں کیا تعلق ہے، یہ کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بعد جماعت کی امارت کا منصب میاں طفیل محمد نے سنبھالا۔ حضرت آغا شورش کاشمیریؒ کا کہنا یہ تھا کہ کسی کو قرون اولیٰ کا مسلمان دیکھنا ہو تو میاں طفیل محمد کی زیارت کرے۔ میاں طفیلؒ لاء گریجویٹ تھے۔ پنجاب کے ایک چیف سیکریٹری گزرے ہیں (نام اس وقت ذہن میں نہیں) جو میاں صاحب کے کلاس فیلو تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر طفیل محمد وکالت کرتے تو نامور وکلا میں شمار ہوتے۔ سید منور حسن (مولا سلامت رکھے) ایک لاجواب مقرر ہیں۔ مظفر آباد میں آزادی کے زیر عنوان تقریر کی تو یوں لگا آزادؒ نظم سنا رہے ہیں۔ میں نے پریس کلب میں ٹیپ کی ہوئی تقریر، احباب کو سنائی اور کہا کہ دوستو ایک بڑا شاعر کراچی سے آیا ہوا ہے، اس کو میٹ دی پریس میں بلائو۔ سید صاحب مدعو کئے گئے تو سارے پریس کلب کو گرویدہ بنا لیا۔ پھر قاضی حسین احمد آئے اور اپنے ساتھ محمد علی درانی بھی لائے۔ مزاج اور طرز عمل سے کوئی خاص فائدہ نہ ہوا، البتہ محمد علی درانی بہت جلد ساتھ چھوڑ گئے۔ سیدؒ کا مطمع نظر اقتدار و اختیار تھا ہی نہیں۔ وہ اسلام کے نام پر بننے والے مسلمانوں کے وطن کو اغیار کی نوآبادیاتی مملکت کے طور پر چلانے کے خلاف تھے۔ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں جو حضرات جماعت کو چھوڑ گئے، وہ فرد فرد ہوکر رہ گئے۔
70ء کے انتخابات کا زمانہ آیا تو جماعت اسلامی نے یوم شوکت اسلام منایا۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ریلیاں نکالی گئیں اور جلوس میں حاضری اس قدر تھی کہ انگریز کی پروردہ بیوروکریسی اور جاگیرداروں نے اسے اقتدار کا اختتام سمجھا اور سازشوں میں لگ گئے۔ پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ البتہ قدرت کا انتقام نرالا ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے کے ذمہ داروں میں کسی کو طبعی موت نصیب نہیں ہوئی۔ سب اپنے اپنے محافظوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار کی لت ایسی پڑی کبھی براہ راست اور کبھی پس پردہ رہ کر سیاست دانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتی رہی۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں صحیح معنی میں کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں ہے۔ خاندانوں، برادریوں اور قبیلوں کے نام پر گروہ بندیاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں رکن سازی کی کوئی اہمیت ہے نہ انتخاب کا کوئی طریقہ۔ جو نعروں کے ذریعے عوام کا پسندیدہ ہو وہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں، بھائیوں کو جماعت کی عہدیداری بخشتا ہے۔ اس کے سہارے نام نہاد جمہوریت چل رہی ہے۔ منظم قسم کی جماعت قائدین کے وارے میں نہیں۔ اس قسم کی جماعت ہو تو اپنی جماعت کی حکومت کی نگران ہوتی ہے۔ غلط فیصلوں پر ٹوکتی ہے کہ انہیں عوام سے منوانے میں دشواری ہوتی ہے۔ جمہوریت میں دائمی فتح اور دائمی شکست کا کوئی تصور نہیں ہے۔ عوام آئین میں طے شدہ مدت کے لیے کسی جماعت کو ملک چلانے کا اختیار دیتے ہیں اور پھر پانچ برس بعد کڑا احتساب کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے، جس میں مرکزی سربراہ (امیر جماعت) انتخاب کے ذریعے آتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭