مسعود ابدالی
امریکہ کے حالیہ انتخابات میں مسلمانوں کی بھرپور شرکت کے نتائج بلکہ انقلابی تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ یہ 181 سالہ پرانی روایت ہے کہ امریکی کانگریس کے گنبد یا Capitol کے نیچے سر نہیں ڈھکا جاتا۔ اس ضابطے کا تعلق مذہب سے نہیں، بلکہ امریکہ کے اقتدار اعلیٰ یعنی کانگریس کے احترام میں ایسا کیا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے لوگ کمرئہ عدالت میں داخل ہونے سے پہلے ہیٹ اتار دیتے ہیں۔ یہودی مرد مذہبی ٹوپی پہن کر داخل نہیں ہوتے، جسے عبرانی میں یامکا (Yarmulke) کہتے ہیں۔ انگریزی ڈکشنریوں میں اس کی ہجے kippah ہے۔ اسی طرح عیسائی راہبائیں اور مذہبی خواتین بھی یہاں سر نہیں ڈھانکتیں۔
تاہم اس بار ایک صومالی نژاد خاتون الحان عمر بھی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہوگئی ہیں۔ جب گزشتہ ہفتے وہ تعارف یا Orientation کے لئے یہاں تشریف لائیں تو انہوں نے اسکارف اوڑھا ہوا تھا۔ الحان اپنے حجاب اور عقیدے کے معاملے میں کسی مداہنت کے لئے تیار نہیں۔ چنانچہ وہ اسی ’’حلیے‘‘ میں ’’رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق‘‘ کہتی ہوئی بے دھڑک Capitol میں داخل ہوگئیں۔ 37 سالہ الحان کا انداز ایسا جارحانہ تھا کہ کوئی ان کو روک نہ سکا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور متوقع اسپیکر نینسی پلوسی کی سفارش پر الحان کے اسکارف کو عبوری استثنیٰ دے دیا گیا۔
جب کسی نے الحان سے ان کے اسکارف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بے حد اعتماد سے کہا کہ اسکارف میرے لباس کا حصہ ہے اور میں اس کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک ٹویٹ بھی داغ دیا کہ:
No one puts a scarf on my head but me. It’s my choice-one protected by the first amendment. And this is not the last ban I’m going to work to lift.
یعنی: ’’ میں اپنی مرضی سے اسکارف اوڑھتی ہوں۔ (لباس کے انتخاب) کو (امریکی آئین) کی پہلی ترمیم کا تحفظ حاصل ہے۔ میں دوسری ناروا پابندیاں بھی ختم کرانے کی کوشش کروں گی۔‘‘
سر کھلا رکھنے کا قانون 1837ء سے نافذ العمل ہے، جسے ختم کرنے کی کئی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ 1822ء میں تو کچھ ارکان نے یہ عذر بھی پیش کیا کہ ایوان نمائندگان کی لابی میں کوئی ایسی جگہ نہیں، جہاں وقتی طور hat ٹانگے جاسکیں، لیکن کسی کی ایک نہ چل سکی۔ 2010ء میں فلوریڈا کی رکن کانگریس محترمہ فریڈریکا ولسن اپنی ریاست کا روایتی Cowboy hat سر پر رکھ کر آئیں، لیکن انہیں یہ اتارنا پڑا۔
تاہم الحان عمر پر عزم ہیں کہ وہ اسکارف پر پابندی ہٹوا کر رہیں گی اور نینسی پلوسی سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کی خواتین نے اس تجویز کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ لطف کی بات الحان عمر کو کوئی ’’مُلانی‘‘ یا تنگ نظر ہونے کا طعنہ نہیں دے رہا، بلکہ یہودی ارکان جوش و خروش کے ساتھ ان کی پشت پر ہیں، تاکہ انہیں بھی اپنی مذہبی ٹوپی پہننے کی اجازت مل جائے۔ رنگ برنگے ہیٹ پہننے کی شوقپین خواتین بھی الحان کی حامی ہیں، یعنی اب امریکی کانگریس میں قوس و قزح کے رنگ بکھرنے کو ہیں۔
شکست تسلیم کرنا بہت مشکل ہے:
یہ کم بخت انا بڑی نامراد شے ہے۔ اگر خدا کی مہربانی سے انا کو فنا کیا جاسکے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے پر آنے والے جاہل و مشرک جادوگروں کو ایسی عظمت نصیب ہوئی کہ فرعون کے سامنے ان کے نعرہ مستانہ کا ایک ایک لفظ قیامت تک بار بار پڑھا اور سنا جائے گا۔ دوسری طرف انا کا مارا فرعون رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا رہے گا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ امریکہ بہادر کو افغانستان میں درپیش ہے کہ طالبان کا اقبال اور فتح مبین نوشتہ دیوار ہے، لیکن اعتراف کی ہمت نہیں۔ گزشتہ سال صدر ٹرمپ کو جرنیلوں نے لارا دیا کہ موئے اوباما نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے تھے، باگیں کھنچی ہوئی تھیں اور کوئی آزادی حاصل نہ تھی۔ بس داد شجاعت کی آزادی دیجئے اور پھر دیکھئے کہ ہم ان ملائوں کا کیا حشر کرتے ہیں۔ چنانچہ صدر ٹرمپ نے قتل عام کی کھلی آزادی دے دی، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شقی القلب جرنیلوں نے سارے افغانستان پر آتش و آہن کی بارش کردی اور 6000 ہوائی حملے فی مہینہ کے حساب سے سارے افغانستان کو جلاکر خاک کردیا گیا، مگر یہ داڑھی والے معلوم نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی قوت ویسی کی ویسی ہی لازوال، بلکہ اب تو ان ملائوں کو امریکی فوج کی حفاظت پر تعینات انتہائی وفادار فوج سے بھی ہمدرد میسر آگئے ہیں۔ چند ماہ پہلے قندھار میں ایک سرکاری افغان فوجی نے ایسا ہی ایک حملہ کیا، جس میں قندھار پولیس اور صوبائی انٹیلی جنس کے سربراہ مارے گئے اور افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ بال بال بچے۔
کل کینیڈا کے شہر ہیلی فیکس Halifax, Nova Scotia کی روایتی سیکورٹی کانفرنس میں امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے افغانستان میں زمینی صورتحال کا جائزہ پیش کیا۔ جنرل صاحب کے لئے یہ کہنا مشکل تھا کہ طالبان جیت رہے ہیں یا ہم ہار رہے ہیں۔ چنانچہ شرماتے ہوئے فرمایا: ’’طالبان اس وقت ہار نہیں رہے۔‘‘ جب سامعین اس انوکھے اعتراف پر مسکرائے تو جنرل صاحب نے بات کو گول مول کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی میں تعطل ہے، جس کے لئے انہوں Stalemate کا لفظ استعمال کیا، جو شطرنج میں اس صورت حال کو کہتے ہیں کہ جب بادشاہ کو شہہ دیئے بغیر کسی مہرے کو آگے بڑھانا ممکن نہ ہو یا یوں کہئے کہ امریکی شطرنج کے شاہ صاحب نرغے میں آچکے ہیں۔ اس مرحلے پر جنرل صاحب نے ایک باعزت پسپائی کے لئے سیاسی دبائو کے ساتھ پرکشش ترغیبات پر زور دیا۔ جنرل صاحب نے ترغیبات کی وضاحت تو نہیں فرمائی، لیکن ان کی گفتگو سے ایسا لگا کہ جیسے افغانستان میں چچا سام کے ترکش کے سارے تیر ختم ہو چلے ہیں اور اب طالبان کی شرائط مان لینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔