حکومت کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ صدر مسلم لیگ شہباز شریف نے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ انہوں نے ساٹھ کروڑ روپے ہوائی سفر پر خرچ کئے اور اتنی ہی راقم رائے ونڈ کی سیکورٹی پر خرچ ہوئی۔ سابقہ حکومت کے خلاف چار مزید ریفرنسز نیب کو بھیجے جا رہے ہیں۔ مریم نواز کے خلاف بھی جہاز کا خرچہ کرنے کا کیس نیب کو بھیجا جائے گا۔ شریفوں کے دور حکومت میں تفریح و تحائف پر بھی کئی گنا اخراجات کئے گئے۔ میاں برادران نے ملک کو بے دردی سے لوٹا۔ دوسری طرف چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں قومی خزانے کو زبردست نقصان پہنچانے والے آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں انور مجید، ان کے صاحبزادے عبد الغنی مجید اور ایک نجی بینک کے سابق سربراہ حسین لوائی کو کراچی سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی بااثر لوگ ہیں۔ کراچی میں رہتے ہوئے ان سے شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔ دریں اثنا پیپلز پارٹی کے ایک دھڑے کے چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف احتساب کا شکنجہ سخت ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس خبر کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنی گرفتاری کی خبروں سے خوفزدہ نہیں، بلکہ خوش ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ عوام میں زیادہ مقبول ہوں گے۔ شریف خاندان اور ان کے حواریوں کے خلاف پہلے ہی کئی مقدمات درج اور زیر سماعت ہیں۔ عدالتی فیصلے تک ان تمام ملزموں کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن ساری قوم منتظر ہے کہ شریف اور زرداری خاندانوں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف معمول کے مقدمات چلانے کے بجائے ہنگامی قوانین کے تحت فوری سزاؤں کا اہتمام کرکے ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت فوری طور پر کب وصول کی جائے گی۔ جب تک یہ نہیں ہوتا وہ بچنے کے لئے ہاتھ پیر مارتے ہوئے اپنی مقبولیت نہ صرف برقرار رکھیں گے، بلکہ اس میں اضافے کے بھی خواہش مند رہیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت اس عوامی مطالبے پر توجہ دینے کے بجائے قرضوں اور امداد کے حصول کے لئے کشکول ہاتھ میں لئے نگر نگر بھیک مانگتی پھر رہی ہے۔ قوم کے لوٹے ہوئے پیسوں کو واپس لانے کے لئے نیک نیتی کے علاوہ عوامی مفاد میں سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کی خاطر ضروری آرڈی نینس جاری کرکے فوری کارروائی ہونی چاہئے۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی حکومتوں نے مجرم سیاست دانوں کی گرفت میں ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیا، کیونکہ انہیں اپنے خلاف بھی ایسی ہی کارروائیوں کا خوف لاحق رہتا ہے۔ اسی بنا پر ہم یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ملک و قوم کو قرضوں سے نجات دلانے اور ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کے لئے عدلیہ اور فوج کو غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت اس پر آمادہ ہو تو فبہا، ورنہ عوام کے وسیع تر مفاد میں ان دو معتمد اداروں کی جانب سے ہونے والی کسی بھی کارروائی کا اہل وطن خیر مقدم کریں گے۔
سعودی حکومت اور چین سے امید کے مطابق قرضوں سے حصول میں ناکامی کے بعد وزیر اعظم عمران خان متحدہ عرب امارات گئے۔ اس دورے کے بارے میں بھی حکومتی زعما اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہاں سے بہت کچھ مل جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے انکار کرنے والی حکومت اس کے در پر کیوں جاتی؟ سعودی امداد اور قرضے کے بارے میں وزیر اعظم کا یہ بیان نہایت حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے کہ اس کی تفصیل قوم کو نہیں بتائی جا سکتی۔ وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہاں سے ہمیں بہت کچھ ملا ہے، لیکن اسے عام کر دیا جائے تو دوسرے ممالک بھی سعودی عرب سے ایسے ہی پیکیج کا مطالبہ کریں گے۔ سعودی عرب سے بارہ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کا دعویٰ کرنے والی حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک انگریزی معاصر کو بتایا کہ توازن ادائیگی کے لئے پہلی قسط کے طور پر سعودی عرب اگلے ہفتے ایک ارب ڈالر پاکستان کو دے گا۔ یہ رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کی جائے گی۔ دوسری جانب موجودہ دور حکومت میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) نے پاکستان کو اب تک ایک دھیلا بھی نہیں دیا ہے، لیکن اس کی سخت شرائط حسب توقع سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ آئی ایم ایف حکومتی اصلاحات کے لئے زور ڈالنے کے بجائے ہمیشہ کی طرح اب بھی یہی مطالبہ کر رہا ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے، زر تلافی (سبسڈی) ختم کرکے مہنگائی کا مزید بوجھ عوام پر ڈالا جائے۔ بجلی، گیس اور تیل کے نرخ بڑھائے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس ہم کسی خسارے کو پورا کرنے کے لئے قرضہ لینے نہیں جا رہے ہیں، بلکہ اقتصادی ترقی کے لئے اس سے قرضہ لینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے حکومتی اقتصادی ماہرین اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر عوام کو ہمیشہ ترقی و خوشحالی کے سبز خواب دکھاتے چلے آئے ہیں۔ اسد عمر سے قوم نے کچھ بہتری کی توقعات وابستہ کرلی تھیں، لیکن وہ بھی ان سے مختلف نہیں، بلکہ عوام کو الجھانے میں شاید سب پر بازی لے جائیں۔ پاکستانی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں بہت نیچا دکھانے کا کارنامہ موجودہ حکومت پہلے ہی انجام دے چکی ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ڈالر کی قدر و قیمت کو مزید بڑھایا جائے۔ مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافے کے علاوہ نئے ٹیکس دہندگان کا شکار کیا جائے۔ اس تناظر میں چائنا ڈیلی میں شائع ہونے والا ایک مضمون حکومت کی آنکھیں کھولے نہ کھولے، محب وطن ماہرین معاشیات اور عوام کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم پچانوے ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جبکہ 2022-23ء میں ادائیگی سود و قرض کی حد اکتیس ارب ڈالر تک ہو جائے گی۔ اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قرض دینے والے مغربی ممالک اور مالیاتی ادارے ملک کی خود مختاری اور مالی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس چین نے پاکستان کو جو قرضے دیئے ہیں، وہ توانائی سمیت کئی منصوبوں کے لئے ہیں اور جو روزگار کے مواقع بڑھانے کے علاوہ پاکستان کی شرح نمو میں اضافے کے لئے ناگزیر ہیں۔ سی پیک کے تحت پاکستان نے جو قرضے حاصل کئے ہیں، ان کا فائدہ براہ راست عوام کو پہنچ رہا ہے۔ اخبار کو شکوا ہے کہ بدقسمتی سے مغرب کے زیر اثر کام کرنے والے پاکستانی ذرائع ابلاغ اپنے عوام کو درست معلومات فراہم نہیں کرتے۔٭