منصور اصغر راجہ
ربِ کائنات نے اپنے حبیبؐ کو ان گنت اعزازات سے نوازا۔ بارگاہ ربانی سے نبی کریمؐ کو سب سے بڑا اعزاز یہ بخشا گیا کہ یہ بزم دنیا صرف اور صرف آپؐ ہی کے لئے سجائی گئی۔ آپؐ وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ پروردگار عالم نے صرف آپؐ ہی کی خاطر اس کارخانہ عالم کو وجود بخشا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ نے ’’فضائل ذکر‘‘ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ’’حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب وہ خطا صادر ہو گئی، جس کی وجہ سے جنت سے دنیا میں بھیج دیئے گئے تو ہر وقت روتے تھے اور دعا و استغفار کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آسمان کی طرف منہ کیا اور عرض کیا: ’’خدایا! محمدؐ کے وسیلے سے تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں‘‘۔ وحی نازل ہوئی: ’’محمدؐ کون ہیں جن کے واسطے سے تم نے استغفار کی؟‘‘ عرض کیا: ’’جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر تیرے نام کے ساتھ ان کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں سمجھ گیا کہ محمدؐ سے اونچی ہستی کوئی نہیں ہے جن کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ رکھا۔‘‘ وحی نازل ہوئی: ’’وہ خاتم النبیین ہیں، تمہاری اولاد میں سے ہیں، لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کئے جاتے‘‘۔ (ص 497)
آپؐ ازل سے نبی ہیں اور تاابد نبی اور رسول رہیں گے۔ آپؐ کو اس وقت خلعت نبوت عطا فرمائی گئی، جب ابھی آدم علیہ السلام کی بھی تخلیق نہیں ہوئی تھی۔ مولانا امیر حمزہ نے اپنی کتاب ’’سیرت کے سچے موتی‘‘ میں مسند احمد اور مستدرک حاکم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت میسرہ الفجر ؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے نبی کریمؐ سے سوال کیا: آپ خدا کے ہاں کب سے نبی ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اس وقت سے خدا کے ہاں نبی ہوں جب آدمؑ روح و جسد کے درمیان تھے‘‘۔ (ص 36)
آنحضورؐ کے سلسلہ نسب میں شامل تمام مرد و خواتین پاکباز اور اعلیٰ نسب کے لوگ تھے۔ صحیح بخاری کی کتاب المناقب، باب صفۃ النبیؐ میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا: مجھے اولادِ آدم میں بہترین لوگوں کے اندر ایک صدی کے بعد دوسری صدی میں منتقل کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ مجھے اس صدی میں مبعوث کیا گیا جس میں میں اب موجود ہوں۔‘‘ ڈاکٹر محمود الحسن عارف اپنی کتاب ’’محمد رسول اللہؐ کے آباء و اجداد کا تذکرہ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس بات پر تمام سوانح نگاروں اور نسب نگاروں کا اتفاق ہے کہ سلسلہ نسب کی تمام کڑیاں اور آنحضورؐ کے تمام اجداد نجابت و شرافت اور عزت و نیک نامی کا پیکر تھے۔ اسی طرح آپؐ کی والدہ محترمہ اور آپ کی تمام نانیاں اور دادیاں بھی پاکباز اور باوقار خواتین تھیں اور آپؐ کے خاندان کے تمام بزرگ شرعی طریقہ نکاح سے پیدا ہوئے اور آپؐ کا سارا سلسلہ نسب محترم اور نامور بزرگوں پر مشتمل ہے۔ وہ سب اپنے اپنے دور میں سردار اور اپنے اپنے قبیلوں یا اپنے اپنے علاقوں کے قائد تصور ہوتے ہیں۔ اس بات کا ذکر خود نبی اکرمؐ نے اپنی ایک حدیث مبارکہ میں کیا ہے۔ چنانچہ معروف سیرت نگار ابن سعدؒ نے ابن الکلبیؒ سے روایت کی ہے اور لکھا ہے: ’’میں نے نبی اکرمؐ کی پانچ سو مائوں (مراد نانیاں اور دادیاں ہیں) کے نام لکھے ہیں۔ میں نے ان میں سے کسی میں برائی اور زمانہ جاہلیت کی کوئی برائی نہیں پائی۔ نامور سیرت نگار ابن ہشامؒ نسب نامہ نبویؐ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’لہٰذا رسول اقدسؐ اپنے مقام نیز اپنے والد اور اپنی والدہ کی طرف سے اپنے نسب نامہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ باعظمت ہیں‘‘۔ اسی طرح السمعانیؒ نے اس مضمون کی کئی احادیث نقل کی ہیں کہ جن میں حضورؐ نے فرمایا ہے کہ ’’حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر میرے ماں باپ کے ہاں میری پیدائش تک (میرے تمام بزرگوں کی پیدائش) ہمیشہ نکاح سے ہوئی، کبھی سفاح (بغیر نکاح کے تعلق) سے نہیں ہوئی، لہٰذا میں حسب و نسب اور اپنے بزرگوں کے اعتبار سے سب سے بہتر ہوں‘‘۔ (ص 30,31)
سفر معراج کے دوران میں آنحضورؐ کو امام الانبیاء کے رتبے سے سرفراز فرمایا گیا۔ استاذ المحدثین مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے ’’سیرۃ المصطفیٰؐ‘‘ میں سفر معراج کے دوران میں براق کو مسجد اقصیٰ میں باندھنے کے بعد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بعد ازاں حضور اقدسؐ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے اور دو رکعت ( تحیۃ المسجد) ادا فرمائی۔ ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ میں اور جبریل امینؑ دونوں مسجد میں داخل ہوئے اور ہم دونوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور آپؐ کے قدوم میمنت لزوم کی تقریب میں حضرات انبیائے کرام علیہم السلام پہلے ہی سے حضور پُر نورؐ کے انتظار میں موجود تھے، جن میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور عیسیٰؑ بھی تھے۔ کچھ دیر نہ گزری کہ بہت سے حضرات مسجد اقصیٰ میں جمع ہو گئے۔ پھر ایک موذن نے اذان دی اور پھر اقامت کہی۔ ہم صف باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ اسی انتظار میں تھے کہ کون امامت کرے۔ جبریل امینؑ نے میرا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھایا۔ میں نے سب کو نماز پڑھائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہو گیا تو جبریل امینؑ نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کن لوگوں کو نماز پڑھائی ہے؟ میں نے کہا مجھ کو معلوم نہیں۔ جبریل امین ؑ نے کہا کہ جتنے نبی مبعوث ہوئے، سب نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ کی آمد پر فرشتے بھی آسمان سے نازل ہوئے اور حضورؐ نے حضرات انبیائؑ اور ملائکہ سب کی امامت کرائی۔ جب نماز پوری ہوگئی تو ملائکہ نے جبریل امینؑ سے دریافت کیا کہ یہ تمہارے ہمراہ کون ہیں؟ جبریل امینؑ نے کہا کہ یہ محمدؐ ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جبریلؑ نے کہا کہ یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیینؐ ہیں۔‘‘ (جلد اول، ص۔ 256,257)
آپؐ پر دین کو مکمل کر دیا گیا اور پروردگار عالم نے سورۃ مائدہ میں اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر ماجد علی خاں اپنی کتاب ’’سیرت خاتم النبیینؐ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’کسی قوم یا طبقے میں نبی خاص طور سے تین مقاصد کے پیش نظر بھیجا جاتا تھا:
1۔ پہلی وجہ یہ ہوتی تھی کہ اس قوم یا طبقے میں اس نبی سے قبل کوئی اور نبی نہیں بھیجا گیا تھا ۔
2۔ یہ کہ متعلقہ قوم یا طبقے میں اس سے پہلے انبیاء کو تو بھیجا جا چکا تھا، مگر ان کی تعلیمات محفوظ نہیں رہی تھیں یا پچھلے نبی (یا انبیائ) کی تعلیمات میں تحریف ہو چکی تھی، جس کی وجہ سے اس قوم یا طبقہ کے لوگ ان تعلیمات پر عمل نہیں کر سکتے تھے۔
3۔ یہ کہ پچھلے انبیاء کی تعلیمات ناکافی تھیں اور وہ سماج کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتی تھیں۔
اگر ہم رسول اقدسؐ کی نبوت کے معاملے کا مندرجہ بالا مقاصد کی روشنی میں جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ آپؐ کی بعثت کے بعد وہ تمام اسباب و وجوہات ختم ہو چکے ہیں، جن کی وجہ سے کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت پیش آئے۔ رسول اکرمؐ کی رسالت عالمگیر ہے۔ اس لیے آپؐ کے بعد اب کسی علاقائی یا قومی نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔ آپؐ جو پیغام لے کر تشریف لائے وہ نہ صرف آپؐ کی بعثت سے اب تک پوری طرح محفوظ ہے بلکہ آپؐ کی نجی اور عوامی زندگی کے بھی تمام پہلو اور تمام گوشے پوری طرح محفوظ ہیں۔ جو شخص بھی آپؐ کی اتباع کرنا چاہے وہ آج بھی آپؐ کی زندگی کے تمام حالات کا پوری طرح جائزہ لے سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کا پیغام مکمل ہے۔ آپؐ کے ارشادات و فرمودات بین الاقوامی سطح پر قابل عمل ہیں۔ انسانی سماج کا ایسا کوئی گوشہ نہیں ہے جس کے لئے آپؐ کی ہدایت موجود نہ ہو اور زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس میں آپؐ نے رہنمائی نہ کی ہو۔ آپؐ کی تعلیمات جامع ہیں، جن میں کسی قسم کی تنقیح و تعدیل کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس لیے حضرت محمدؐ آخری نبی ہیں اور اب کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔ نہ تو دائرئہ اسلام کے اندر اور نہ دائرئہ اسلام کے باہر ہی۔‘‘ (ص۔452,453)
آپؐ کو ایسا دین دے کر بھیجا گیا، جو قیامت سے پہلے ہر کچے پکے گھر تک پہنچ کر رہے گا۔ اس عالی دین کی خوشبو کو اطرافِ عالم میں بکھرنے سے کوئی نہ روک سکے گا۔ سابقہ انبیاء و رسل میں سے بعض پر چند افراد ایمان لائے اور بعض کی دعوت کو کسی ایک فرد نے بھی قبول نہ کیا، لیکن سرکارِ مدینہؐ کا لایا ہوا دین قیامت سے پہلے دنیا کے کونے کونے تک پہنچ کر رہے گا۔ رئیس التبلیغ حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ نے ’’حیاۃ الصحابہؓ‘‘ میں صحابی رسول حضرت ابو ثعلبہ خُشنیؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور اقدسؐ ایک بار سفرِ غزوہ سے واپس تشریف لائے۔ آپؐ نے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھی اور آپؐ کو یہ بات پسند تھی کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جائیں اور اس میں دو رکعت نماز پڑھیں۔ پھر حضرت فاطمہؓ کے گھر جائیں اور اس کے بعد اپنی ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں جائیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ سفر سے واپس تشریف لائے اور اپنی ازواج مطہراتؓ کے گھروں سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہؓ نے اپنے گھر کے دروازے پر آپؐ کا استقبال کیا اور آپؐ کے چہرئہ انور اور آنکھوں کا بوسہ لینے لگیں اور رونے لگیں تو ان سے حضورؐ نے فرمایا کیوں روتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی یہ حالت دیکھ کر رو رہی ہوں، آپ کا رنگ (سفر کی مشقت کی وجہ سے) بدل چکا ہے اور آپ کے کپڑے پرانے ہو گئے۔ تو ان سے آپؓ نے فرمایا: ’’اے فاطمہ! مت روئو۔ اللہ نے تمہارے باپ کو ایسا دین دے کر بھیجا ہے جس کو اللہ روئے زمین کے ہر پکے گھر میں اور ہر کچے گھر اور ہر اُونی خیمہ میں ضرور داخل کریں گے۔ جو اسلام میں داخل ہوں گے وہ عزت پائیں گے اور جو داخل نہیں ہوں گے وہ ذلیل ہوں گے اور دنیا میں جتنے حصہ میں رات پہنچتی ہے، اتنے حصے میں یہ دین بھی پہنچے گا یعنی ساری دنیا میں پہنچ کر رہے گا۔ (جلد اول۔ص 76,77)
آپؐ کو خاتم النبیین بنایا گیا۔ آپؐ پر نبوت و رسالت کی تکمیل ہو گئی۔ قسامِ ازل کی طرف سے مہر لگا کر فیصلہ کر دیا گیا کہ محمد رسول اللہؐ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند۔ اب جو نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب ہو گا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اپنے مجموعہ خطبات ’’رسول اکرمؐ اور ہم‘‘ میں جامع ترمذی اور سنن ابی دائود سے حضرت ثوبانؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ’’میری امت میں تیس ایسے افراد اٹھیں گے جو کذّاب (انتہائی جھوٹے) ہوںگے۔ ان میں سے ہر شخص اپنے بارے میں یہ گمان کرتا ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ اب میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا‘‘۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری، باب خاتم النبیین میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’میری اور دوسرے پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک مکمل گھر بنایا اور بہت اچھا بنایا، مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی تو لوگ اس گھر میں جانے لگے اور تعجب کرنے لگے کہ یہ اینٹ کی جگہ اگر خالی نہ ہوتی تو کیسا اچھا مکمل گھر ہوتا۔‘‘ اسی سے متصل اگلی روایت میں حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ ’’مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی… اور آخر میں فرمایا: ’’وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘۔ اسی طرح صحیح بخاری میں ہی باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ میں حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اکرمؐ نے فرمایا: میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں اور احمد اور ماحی یعنی مٹانے والا، اللہ تعالیٰ کفر کو میرے ہاتھ سے مٹوائے گا اور حاشر یعنی لوگ میرے بعد حشر کئے جائیں گے اور عاقب (یعنی خاتم النبیین میرے بعد دنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا)۔ (مختصر صحیح بخاری، جلد دوم ص 180،181)
اسی ضمن میں مولانا ادریس کاندھلویؒ نے ’’سیرۃ المصطفیٰؐ‘‘ جلد اول میں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ’’خداوند ذوالجلال نے اسراء و معراج کی عزت سے سرفراز فرمایا اور آپؐ کو اس قدر اونچا کیا کہ افضل الملائکۃ المقربین یعنی جبرئیلؑ بھی پیچھے اور نیچے رہ گئے اور ایسے مقام تک سیر کرائی کہ جو کائنات کا منتہیٰ ہے یعنی عرش عظیم تک جس کے بعد اب اور کوئی مقام نہیں۔ اسی وجہ سے بعض عارفین کا قول ہے کہ عرش تک سیر کرانے میں ختم نبوت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ تمام کائنات عرش پر ختم ہو جاتی ہے۔ کتاب و سنت سے عرش کے بعد کسی مخلوق کا وجود ثابت نہیں۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام کمالات آپؐ پر ختم ہیں۔‘‘ (ص 266)
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے ’’تفسیر مظہری‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر میں عجب نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ’’خاتم، ختم کرنے والا، آخری نبی جس کے بعد کوئی نبی نہ آئے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: حق تعالیٰ کے اس فرمان کی مراد یہ ہے کہ اگر میں سلسلہ انبیاء کو محمدؐ پر ختم نہ کر دیتا تو ان کے بعد ان کے بیٹے کو نبی بنادیتا۔ عطائؒ نے ابن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے کہ جب اللہ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ رسول اکرمؐ کے بعد کسی کو نبی بنانا نہیں ہے تو حضورؐ کو کوئی لڑکا (یعنی مرد اولاد) عنایت نہیں کیا۔ ابن ماجہ نے حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اقدسؐ نے صاحبزادہ ابراہیمؓ کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ (384/9)
اسی طرح مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ میں سورۃ احزاب کی آیت 40 کی تفسیر میں ختم نبوت کے ہی سلسلے میں چند احادیث بھی نقل کی ہیں کہ ’’ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضو ر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسالت اور نبوت اب منقطع ہو چکی ہے۔ اب میرے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول۔ اللہ نے مجھے سب انبیاء و رسل کے بعد بھیجا ہے۔ ابن ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے کہ میں آخر الانبیاء ہوں یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور تم آخر ی امت ہو۔ اب تمہارے بعد کوئی امت بھی نہیں ہوگی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر حضور علیہ السلام نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنی نیابت کے لئے چھوڑ دیا تو انہوں نے عرض کیا: حضور! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کی نیابت ان کے بھائی ہارون علیہ السلام نے انجام دی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے بعد تو اور بھی نبی آئے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کی تعریف میں حضور علیہ السلام کے یہ کلمات بھی ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ آپ نے اپنے فرزند ابراہیمؓ کے متعلق بھی فرمایا کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو نبی ہوتا یعنی اللہ نے اس میں بڑی صلاحیت رکھی تھی، مگر میرے بعد تو نبوت کا دروازہ ہی بند ہو چکا ہے۔‘‘ (جلد 15، ص 283، 284)
جسٹس (ر) حضرت پیر کرم شاہ الازہریؒ نے تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ میں مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ سے روایت نقل کی ہے کہ ’’رسول کریمؐ نے فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی:1۔ مجھے جوامع الکلم سے نوازا گیا، یعنی الفاظ مختصر اور معانی کا بحر بے پیدا کنار ۔ 2۔ رُ عب کے ذریعے میری مدد فرمائی گئی۔ 3۔ میرے لئے غنیمت کا مال حلال کیا گیا۔ 4۔ میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنا دیا گیا اور اس سے تیمم کی اجازت دی گئی۔ 5۔ مجھے تمام مخلوق کیلئے رسول بنایا گیا اور 6۔ میری ذات سے انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ (جلد چہارم، ص 71)
٭٭٭٭٭