’’سیلانی بھائی! آپ پشتونوں کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘
’’کیا؟ میں اور پشتونوں کے خلاف… یہ خیال آپ کو کیوں اور کیسے آیا؟‘‘
’’آپ منظور پشتین کے خلاف جو لکھتے رہتے ہیں، آپ کا اخبار بھی ہاتھ دھو کر پیچھے پڑا ہوا ہے۔‘‘
سیلانی نے پرسوچ ہنکارہ بھر ا اور گویا ہوا ’’آپ کی نظر میں منظور پشتین پشتونوں سے محبت کا معیار ہے؟ جس نے منظور پشتین کی حمایت کی اسے پشتونوں سے محبت کی سند مل گئی اور جس نے تنقید کی وہ پشتون دشمن ہوگیا، ایسا ہی ہے ناں؟‘‘
سیلانی نے اپنے سامنے بیٹھے مہمان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا۔ وہ جز بز ہو گیا اور کہنے لگا: ’’منظور پشتین مظلوم پشتونوں کی آواز ہے، وہ ریاستی مظالم کے خلاف پہلی آواز ہے، اس کی آواز میں آواز ملانی چاہئے۔‘‘
’’اور جو نہ ملائے؟‘‘ سیلانی نے مسکراتے ہوئے بسکٹ کی پلیٹ اپنے مہمان کے سامنے کر دی۔
’’ملانی چاہئے ناں، صحافت کا تو مطلب ہی ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہے، ورنہ صحافی اور درباری میں کیا فرق رہا؟‘‘ اسحاق خان نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پلیٹ سے بسکٹ اٹھالیا۔ اسحاق خان وزیرستان کا پشتون بچہ ہے۔ اس کا خاندان ان خاندانوں میں سے ہے، جنہیں فوجی آپریشن کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اسحاق کے چچا کراچی میں گاڑیوں کے اسپئر پارٹس کا کاروبار کرتے ہیں۔ اسحاق اور اس کے گھر والے بھی وہیں آگئے۔ اسحاق کے والد بھی اپنے بھائی کے ساتھ مل کر یہی کاروبار کرنے لگے اور اب بھی وہیں مقیم ہیں۔ البتہ اسحاق تعلیم کے غرض سے اسلام آباد آگیا۔ یہاں اسے علم ہوا کہ سیلانی بھی اسلام آباد میں ہے تو اتوار کی شام دو دوستوں کے ہمراہ ملنے چلا آیا۔
ملاقات میں باتوں سے بات چلی۔ حالات حاضرہ کا ذکر چھڑا اور پھر بات گھومتے پھراتے پشتون سیاست اور پشتونوں کے مسائل پر آگئی۔ اب وہ سیلانی سے منظور پشتین کی مخالفت کا سبب جاننا چاہ رہا تھا: ’’مجھے اس کی پروا نہیں کہ میرے بارے میں کوئی کیا رائے رکھتا ہے، میرے لئے زیادہ اہم میرا اپنا مطمئن ہونا ہے۔‘‘
’’سیلانی بھائی! میں نے آپ کو تو نہیں کہا۔‘‘
’’ٹھیک ہے براہ راست نہیں کہا، خیر آپ نے سوشل میڈیا پر وہ کلپ دیکھا ہے، جس میں ڈرائیور کی گود میں بیٹھا بندر گاڑی کا اسٹیئرنگ پکڑے ہوئے ہے…؟‘‘
’’جی جی بالکل، اس پر مولانا فضل الرحمان نے بھی خوب تبصرہ کیا تھا۔‘‘ اسحاق کے ساتھ بیٹھے ہوئے باریش نوجوان نے گفتگو میں حصہ لیا۔
’’بالکل، مولانا نے بڑا خوبصورت طنز کیا تھا کہ بندر یہ سمجھتا ہے کہ گاڑی وہ چلا رہا ہے… منظور پشتین صاحب بھی اسی طرح کی خام خیالی میں ہیں کہ تحریک وہ چلا رہے ہیں، اب یہ تحریک سرحد پار کہیں اور سے چل رہی ہے اور اسی وجہ سے میں بھی ان کا ناقد ہوں۔‘‘
’’سیلانی بھائی! کیا وزیرستان میں پشتونوں سے ظلم نہیں ہو رہا؟‘‘ اسحاق نے پہلو بدلتے ہوئے پوچھا۔
’’دیکھو سلاد کے لئے کلہاڑی سے ٹماٹر نہیں کٹتے، لیکن مجبوری میں کلہاڑی سے یہ کام لیا جائے تو ٹماٹر کی قاشیں اتنے سلیقے سے نہیں بنتیں، ہم نے یہی کام
وزیرستان میں کیا، فوج اس قسم کے کاموں کے لئے نہیں ہوتی، اسے کھلے اور صاف دکھائی دینے والے دشمن پر گولی چلانے کی تربیت دی جاتی ہے، یہاں ان کا ہدف مشکل اور مختلف تھا۔ خیر آپریشن ہوا اور فوجی آپریشن سے جو ہدف حاصل ہونا تھا وہ تو ہوگیا، لیکن اس کے بعد کے ایشوز کو حل نہیں کیا گیا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ سرجن نے مریض کا آپریشن کر دیا۔ اب اس کے زخموں کی صفائی ہونی ہے۔ روز پٹی بدلنی ہے۔ وقت پر دوا دینی ہے۔ اسے مناسب خوراک پھل فروٹ دینے ہیں۔ اس کا خیال رکھنا ہے اور یہ سرجن کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ اس کام کے لئے نرسنگ اسٹاف ہوتا ہے۔ دوسرے ڈاکٹر ہوتے ہیں، جو آپریشن تھیٹر سے وارڈ میں آنے والے مریض کی نگہداشت کرتے ہیں۔ یہاں وزیرستان کا آپریشن تو ہو گیا۔ اسے وارڈ بوائیز کے ذریعے آپریشن تھیٹر سے آئی سی یو اور پھر وارڈ منتقل بھی کردیا گیا، لیکن نرسنگ کے وقت عملہ بھاگ گیا۔ وہاں فوجی آپریشن ہوا تھا۔ برسوں سے قدم جمائے دہشت گردوں کو بھگانا تھا۔ گولہ باری ہوئی۔ ہیوی مشین گنیں چلیں۔ اس میں بہت نقصان ہوا، جس کا ازالہ ہونا تھا، جو نہیں ہوا۔ پھر آپریشن کے بعد رویہ مصیبت زدوں سے ویسا ہی درشت اپنایا گیا، جیسا جنگجوؤں کا ہوتا ہے۔ چیک پوسٹوں پر جامہ تلاشی، مار پیٹ اور بدکلامی کے واقعات میں کوئی دو رائے نہیں، کیوں کہ وہاں کسی پی آئی اے کے اسٹیورڈ اور ائیر ہوسٹس نہیں تھیں، لانس نائیک، حوالدار اور بارہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے والا سپاہی کھڑا تھا… حکومت کو وزیرستان کی نرسنگ کرنی چاہئے تھی۔ مرہم پٹی، دوا دارو اور اچھی خوراک کا انتظام کرنا چاہئے تھا، لیکن ہوا کیا، یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی‘‘۔
سیلانی چپ ہوا تو اسحاق کہنے لگا: ’’سیلانی بھائی! اور جو لوگ لاپتہ ہوئے ہیں، ان کا کیا کہیں گے؟ اصل معاملہ ہی ان کا ہے، ان کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا، منظور پشتین نے آواز اٹھائی تو اسے غدار قرار دے دیا گیا۔‘‘
’’میری سنتے ہیں تو لاپتہ کرنا قتل کرنے سے بڑا جرم ہے، کوئی قتل ہو جائے، لاش سامنے آجائے تو اس کے گھر والے رو پیٹ کر صبرکرلیتے ہیں، لیکن جس کا کچھ پتہ نہ ہو، اس کا انتظار روز مارتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں، اس کی قومی سطح پر کمیشن بنا کر انکوائری ہونی چاہئے۔ میں اس معاملے میں بالکل کلیئر ہوں، لیکن اس کی آڑ میں سرحد پار کے ایجنڈے کی تکمیل کیوں ہونے دی جائے؟ مجھے یہ بتائیں، ایس پی طاہر داوڑ کی لاش حوالے کرنے پر امریکہ نواز کابل حکومت کھل کر سامنے نہیں آگئی؟ مقتول ایس پی کی لاش حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کے بجائے پی
ٹی ایم کے محسن داوڑ کو دیئے جانے پر کیوں اصرار کیا جاتا رہا؟ صرف اس لئے کہ پی ٹی ایم کو قبائلی پٹی میں اہمیت دلا دی جائے۔ رہی بات پی ٹی ایم کے جلسوں میں لگنے والے آزادی کے نعروں کی تو چلو میں اسے بچوں کی ناراضگی کہہ کر نظر انداز کردیتا ہوں…‘‘
’’سر! وہ نعرے ردعمل ہیں، وہاں جو مظالم ہوئے ہیں، ان کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے، جس طرح باپردہ خواتین کی عصمت دریاں کی گئیں، ایسا تو بھارتی فوج بھی کشمیر میں نہیں کرتی۔‘‘ اسحاق کے ساتھ آئے تیسرے نوجوان نے گفتگو میں پہلی بار حصہ لیتے ہوئے اپنے میزبان کی مخالفت کی اور بے تکے انداز میں کی بھارت کو مثال بنا کر پیش کرنے سے سیلانی کو ویسے ہی چڑ ہے، اس نے حتی المقدور اپنا لہجہ نرم رکھتے ہوئے کہا:
’’بھائی! مقبوضہ کشمیر کو تو جانے دیں، وہاں بھارتی فوج کیا کچھ کر رہی ہے، یہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے، میں رابطے میں ہوں، مجھے آپ لوگوں سے زیادہ پتہ ہے، انٹر نیٹ استعمال کریں، تھوڑا بہت تو آپ بھی جان جائیں گے، اچھا آپ کو پتہ ہے پچھلے مہینے بھارت کے فوجی اسپتال میں ایک معذور عورت کی عزت لوٹ لی گئی تھی۔ غالباً سولہ اکتوبر کو چار فوجیوں کے خلاف پرچہ کٹا ہے اور اسی اکتوبر میں ایک میجر جنرل، دو کرنلوں اور دو کپتانوں سمیت سات فوجیوں کو نو شہریوں کو جعلی مقابلوں میں مارنے کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ انہوںنے آسام میں نو بے گناہ شہری اٹھا کر جعلی مقابلے میں قتل کر دیئے تھے۔ یہ وہ بھارت ہے، جس کی آپ مثال دے رہے ہیں اور یہ کوئی خفیہ رپورٹ نہیں ہے۔ یہ ان کے میڈیا کی رپورٹس ہیں۔ آپ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اب آپ مجھے کسی بھی خاتون کے ساتھ اس قسم کا کوئی ایک واقعہ کہیں رپورٹ ہوا بتا دیں؟ پشتون اور وہ بھی وزیرستان کے پشتون اتنے گئے گزرے نہیں ہو سکتے کہ خدا نخواستہ ان کی بہن بیٹیوں کی عصمت دری ہو اور وہ کچھ نہ کریں، وہ مار دیں گے یا مر جائیں گے، چھوڑیں گے نہیں، آخری حد تک جائیں گے، میں نے آج تک ایسا کوئی واقعہ کہیں رپورٹ ہوتا ہوا نہیں سنا، نہ ہی پڑھا ہے جیسا آپ بتا رہے ہیں‘‘۔
سیلانی کی اس بات پر اسحاق خاموش تو ہو گیا، لیکن اس کے چہرے کا تاثر بتا رہا تھا کہ دلائل نہ ہونے کے باوجود وہ سیلانی سے متفق نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر جس طرح کے پروپیگنڈے کے جھکڑ چلتے ہیں، اس کے بعد فضا میں اڑتی گرد کچھ دیکھنے ہی کب دیتی ہے؟ حد نگاہ بہت کم ہو کر رہ جاتی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ علاقہ غیر کے اپنوں کی سب شکایات ہی غلط فہمی پر مبنی ہوں، چیک پوسٹوں پر سخت رویوں کی شکایات عموماً درست ہی ہوتی ہیں، مارپیٹ کی شکایات میں بھی پروپیگنڈہ کا عمل زیادہ نہیں ہوتا۔ ان شکوے شکایات کو دور کرنا ہوگا، ملبے کا ڈھیر بنے وزیرستان کو تعمیر کرنا ہوگا۔ ان شکایات کا ازالہ نہ کیا گیا تو کوئی نہ کوئی منظور پشتین کبھی بھی کھڑا ہو سکتا ہے اور اس کھڑے ہوئے منظور پشتین کے پیچھے کوئی بھی کھڑا ہو سکتا ہے؟ ہمیں ان وجوہات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ اتنی غیر اہم نہیں کہ انہیں بھلا دیا جائے یا چھوٹا موٹا کچرہ بھی نہیں، جو قالین کے نیچے چھپا دیا جائے… سیلانی یہ سوچتا ہوا سامنے بیٹھے پشتون نوجوانوں کو چبھتے ہوئے سوالوں کی یلغار کرتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭