ساری دنیا کے مسلمان جس دن نبی کریمؐ کی ولادت با سعادت کا جشن منارہے تھے، عین اسی روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں محفل میلاد کے دوران ایک خودکش بمبار نے علما ومشائخ کے درمیان پہنچ کر خود کو بم سے اڑا دیا۔ اس خودکش حملے کے نتیجے میں متعدد علما سمیت پچاس سے زائد افراد شہید اور کم و بیش سو افراد شدید زخمی ہوگئے۔ ان میں چالیس سے زائد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ کسی گروپ نے دھماکے کی ذمے داری قبول نہیں کی، جبکہ طالبان نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس بھیانک کارروائی سے پوری طرح واضح ہوگیا ہے کہ افغانستان کی کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت کی حکمرانی ختم ہوگئی ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے مطابق خودکش بمبار پہلے ہی سے تقریب میں موجود تھا۔ حملہ آور کا نام اور شناخت کچھ بھی ہو، وہ کسی لحاظ سے بھی مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نبی اکرمؐ کی شان مبارک میں معمولی گستاخی بھی کسی مسلمان کو کافر بنا دینے کا موجب بن جاتی ہے تو آپؐ کے ذکر پاک کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریب میں سینکڑوں شرکا کو نشانہ بنانے والا کیونکر مسلمان ہوسکتا ہے؟ اس کا ابدی ٹھکانا یقیناً جہنم ہے۔ اگر وہ اسلام دشمن عالمی قوتوں کا ایجنٹ تھا تو اس سے کسی بھی بہیمانہ کارروائی کی توقع کی جاسکتی تھی اور اگر کسی انتہا پسند مذہبی تنظیم نے اس کی برین واشنگ کرکے محفل میلاد پر حملے کیلئے بھیجا تھا تو اس تنظیم اور اس سے وابستہ لوگوں کو بھی ہر گز اسلام اور مسلمانوں کا دوست، بلکہ مسلمان بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دونوں صورتوں میں ایک دہشت گرد کا میلاد النبیؐ میں پہلے سے موجود ہونا صدر اشرف غنی کی کٹھ پتلی افغان حکومت اور اس کی سرپرست امریکی افواج کی امن و امان کے حوالے سے کارکردگی پر ایک بڑا سوال ہے، جو افغان حکومت اپنے دارالحکومت میں ایئر پورٹ کے حساس علاقے میں واقع ایسے ہال کی حفاظت نہ کرسکے، جہاں جید علما و مشائخ کی موجودگی میں خودکش حملہ آور پہنچ کر محفل میلاد کے شرکا کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوجائے تو اس کی دینی غیرت اور حکومتی رٹ پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ باقی رہا امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک تو وہ سترہ سال سے افغانستان میں امن کی بحالی اور لوگوں کے تحفظ و سلامتی کے نام پر جھک مار رہے ہیں۔ گزشتہ روز کا خودکش حملہ ان کی بدترین ناکامی کا ثبوت ہے یا پھر اس امر کا مظہر کہ اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے مذہبی اجتماعات کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نشانہ بنا کر اسلام اور امت مسلمہ کو انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ فی الوقت افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ اس کے تقریباً ستر فیصد حصے پر طالبان کا قبضہ یا اثرو نفوذ ہے، لیکن دارالحکومت کابل کا کنٹرول اشرف غنی حکومت اور امریکا کے فوجی سنبھالے ہوئے ہیں۔ ادھر ترجمان طالبان نے محفل میلاد پر خودکش حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ ایک سال پہلے ہی خودکش حملوں پر پابندی لگا چکے ہیں۔
افغانستان میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو شہید، زخمی، معذور اور بے در کرنے والا امریکا خود بھی اپنا زبردست جانی و مالی نقصان کرنے کے باوجود افغانستان میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکا ہے۔ اپنی سترہ برس کی بدترین ناکامیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے امریکی حکومت آج بھی پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے شکوہ کرتی ہے کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ مطلوبہ تعاون نہیں کیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ افغانستان پر یہ جنگ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مسلط کی تھی۔ اس کی منصوبہ بندی یا مشاورت میں پاکستان کبھی شریک نہیں رہا۔ دوم یہ کہ پاکستان کے مسلمان فوجی اپنے برادر مسلم ملک کے عوام پر ظلم و ستم میں کیونکر شریک ہوسکتے تھے۔ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکا سے جو بھی تعاون کیا، وہ پاکستانی عوام اور افواج کی مرضی و منشا کے خلاف تھا۔ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہر ممکن تعاون پیش کیا، لیکن امریکا نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ آج بھی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں اور اس کیلئے اپنا کردار جاری رکھیں گے، تاہم پاکستان کا وقار اور سلامتی ہمیشہ مقدم رہے گی۔ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان نے دیگر ممالک سے زیادہ کردار ادا کیا اور قربانیاں دی ہیں۔ ہم نے اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے وطن عزیز کو دہشت گردوں سے تقریباً پاک کردیا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے افواج پاکستان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خطے اور دنیا بھر میں امن کا ہمیشہ خواہاں اور کوشاں رہا ہے۔ اس کے علاوہ برادر پڑوسی مسلم ملک افغانستان کے امن سے پاکستان کا اپنا بھی امن و استحکام وابستہ ہے۔ امریکا نے پاکستان کی خدمات اور کردار کو ہمیشہ نظر انداز کیا اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے افغانستان میں بھارت کی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔ امریکی حکام یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا ملک سات سمندر پار سے آکر افغانستان پر اپنا مستقل تسلط برقرار نہیں رکھ سکتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی افغانستان سے سرحدیں ملتی ہیں، نہ تہذیب و تمدن اور اقدار و نظریات۔ افغان عوام پکے اور سچے مسلمان بالخصوص افغان طالبان ہمیشہ سے بت شکن رہے ہیں، جبکہ بھارت کے انتہا پسند حکمران دل و جان سے بت پرست ہیں۔ پتھر اور مٹی کے بت بنا کر ان کی پوجا کرنے والے اور انہیں غزنوی گرز سے پاش پاش کرنے والے کیونکر ایک ہوسکتے ہیں۔ امریکی اور مغربی حکمرانوں کو جب بھی یہ بات سمجھ میں آگئی وہ کم از کم بھارت کو کسی مسلمان ملک پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور اگر ایسی کوئی جرأت کی گئی تو اس میں انہیں کبھی کامیابی حاصل نہ ہوسکے گی۔ ایک اور بات جو مغربی طاقتیں سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج کے دور میں توپ و تفنگ کے ذریعے کسی ملک یا قوم پر بالادستی حاصل نہیں کی جاسکتی، بلکہ ایک طرف افکار و نظریات اور دوسری جانب معاشی ترقی دوسرے ممالک کو فتح کرنے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کے اہم ذرائع ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام تیزی سے پھیلتا ہوا دین ہے تو چین دنیا بھر میں اقتصادی ترقی کی واضح علامت۔
٭٭٭٭٭