اُم مریم
کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں سے جھگڑے میں ہیں، جن کو ہمارے رب نے ہم سے پہلے کتاب دی۔ ان میں لاتعداد انبیاء پیدا کیے۔ انہیں رہنمائی دی۔ لہٰذا ان سے دوستی کرلینی چاہئے۔ بات یہ ہے کہ خدا کی آخری کتاب قرآن مجید اور آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰؐ کی نبوت کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ ہم نے ان سے کبھی جھگڑا یا نااتفاقی نہیں کی۔ کبھی کسی معاملے میں ان سے الجھنے یا انہیں اپنے سے دور کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ وہی لوگ صدیوں سے اس حسد میں مبتلا ہیں کہ آخری نبی محمد مصطفیٰؐ کیوں حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی اولاد سے پیدا کئے گئے۔ انہیں بھی حضرت اسحاقؑ کی نسل میں پیدا ہونا چاہئے تھا۔ دراصل ان کا جھگڑا حق تعالیٰ اور اس کے آخری رسولؐ سے ہے اور اسی بغض و کینے میں یہ آج تک مبتلا ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ اپنے بعد آنے والے تمام انبیائے کرام کے جد امجد ہیں، صرف حضرت محمد مصطفیٰؐ ہی نہیں، دیگر انبیاء بھی انہی کی اولاد ہیں، لہٰذا وہی ہمارے باپ ہیں، کیوں کہ ہمارے نبیؐ نے بھی فرمایا کہ میں اپنے باپ ابراہیمؑ کی دعا ہوں۔
سورۃ البقرۃ کی آخری آیات میں مسلمانوں کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں تفریق نہیں کرتے۔ دیگر مقامات پر قرآن پاک میں انبیاء کے اقوال درج ہیں کہ سب سے پہلے میں مسلم ہوں اور ان کے ماننے والے بھی مسلمان کہلاتے رہے ہیں۔
پورے قرآن میں بکثرت ایسی آیات ملتی ہیں جن میں اس تاکید کو دہرایا گیا ہے کہ اس کتاب پر اور اسی نبی پر ایمان لاؤ اور عمل صالح کرو، اس میں تمہاری فلاح ہے۔ صرف سورۃ البقرہ، سورۃ آل عمران اور سورۃ النساء میں کم و بیش 93 ایسی آیات ہیں، جن میں خاص طور پر اہل کتاب کو قرآن پاک اور نبی حضرت محمد مصطفیٰؐ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بھی کثرت سے اس حکم کو دہرایا گیا ہے۔
سورۃ الاعراف میں حضور اقدسؐ کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ تمام انسانوں میں یہ اعلان کریں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے پیغمبر ہیں اور لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اس نبی اُمی کی پیروی اختیار کریں، اس کی عزت کریں، اس کی مدد کریں اور جو روشنی اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے اس پر عمل کریں۔
سورۃ الاحزاب میں واضح طور پر یہ فرمایا گیا کہ محمدؐ خاتم النبیین ہیں۔ سورۃ توبہ کا آغاز ہی ان لوگوں کے خلاف جنگ کے اعلان سے کیا گیا، جنہوں نے خدا اور اس کے رسولؐ سے جنگ کی۔
اسی طرح ان گنت قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جو تمام انبیاء کو مانیں اور ان تعلیمات کی پیروی کریں، جو ان انبیاء پر آخری نبی کو دی گئیں اور جنہیں قیامت تک کے لئے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ وہی لوگ سب کے سب مسلمان اور حضرت ابراہیمؑ کے مذہب کے پیروکار ہیں۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نہ یہودی تھے، نہ عیسائی بلکہ ایک ’’حنیف مسلم‘‘ تھے۔
اسی طرح ہم جو نماز میں سلام کرتے ہیں، وہ پہلے اپنے نبی پر اور پھر حضرت ابراہیمؑ اور ان کی پیروکار آل کو کرتے ہیں، کیوں کہ قرآن میں یہ بھی اشاد فرما دیا گیا کہ ابراہیمؑ سے نسب کا حق ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اب یہ نبی اس کے ماننے والے ہیں۔ (آل عمران)
پرانے اہل کتاب یہ سب تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، بس یہیں سے ہمارا نکتہ اختلاف ہے اور ان کے اور ہمارے راستے جدا ہو جاتے ہیں۔ صدیاں گزرنے کے باوجود وہ دل صاف کرنے پر تیار نہیں۔ مسلسل خدا اور اس کے رسولؐ سے جنگ کر رہے ہیں۔
رسول اقدسؐ کی مدنی زندگی میں نبوت کے پورے عرصے کے دوران اس گروہ نے سازشوں، فتنوں، قتل کی تدبیروں اور کوششوں، ظاہری جنگوں اور ہر طرح کے شیطانی ہتھکنڈوں سے ہمارے نبیؐ کی زندگی کو اجیرن بنانے اور خدا کے نور کو بجھانے کی بھرپور کوششیں کیں، بالآخر اسلام کی فتح کے بعد ان کے مکہ، مدینہ سے مکمل اخراج کا حکم دے دیا گیا۔ خدا کا شکر کہ جو یہ حکم نافذ کردیا گیا، ورنہ اگر آج بھی یہ فتنہ پرور لوگ وہاں موجود ہوتے تو اتنے سکون و عافیت سے عمرہ حج نہیں کر سکتے تھے۔
یہ کوئی لمحہ، کوئی موقع ایسا نہ چھوڑتے تھے، جس سے خدا کا کام روکا جاسکے۔ صبح ایمان لاتے، شام کو پلٹ جاتے تاکہ عام مسلمانوں میں بددلی اور دین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کریں۔
ام المومنین حضرت صفیہؓ ایک یہودی عالم کے بیٹی تھیں اور دوسرے عالم کی بھتیجی تھیں، وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرمؐ مدینے تشریف لائے تو میرے باپ اور چچا دونوں آپؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپؐ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کی یہ گفتگو کرتے سنا:
چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟
والد: خدا کی قسم ہاں۔
چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟
والد: ہاں۔
چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟
والد: جب تک جان میں جان ہے، اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔
(ابن ہشام، جلد دوم، صفحہ 165، طبع جدید)
اسی طرح جب قبلے کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا (اس واقعہ کا قرآن میں تفصیل ذکر ہے) تو اس گروہ نے مدینے میں افواہوں اور سازشوں کا طوفان بپا کردیا، ہر کسی کو خاص طور پر نو مسلم غریب مسلمانوں کے دلوں میں شک ڈالنے اور استہزا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ یہ کیسا دین ہے، کیسا نبی، کبھی ایک طرف رخ کرتا ہے اور کبھی دوسری طرف؟ اس وقت بھی مسلمانوں نے ان سے کوئی جھگڑا نہیں کیا، بلکہ یہ لوگ ہی جھگڑے اور انتشار پیدا کرنے میں لگے رہے۔
خدا کی آیات کا مذاق اڑانا، پھبتی کسنا، ہر حکم میں اعتراض کرنا، تاوبلیس کرنا اور تمام مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات اور اپنے دین سے بددلی اور بے اطمینانی ڈالنا، ان میں بدامنی پھیلانا ان کا وتیرہ تھا۔ ان کی ہزاروں سال کی تاریخ کے چیدہ چیدہ واقعات ہمیں قرآن میں بتا دیئے گئے ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب انہیں خدا کی آیات، اس کے رسولؐ کی باتیں تسلیم کرنے سے انکار ہے تو ہم پر بھی کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم انہیں تسلیم کریں۔ ہمارے اندر بھی ایسے منافقین کی سرکوبی ضروری ہے جو بار بار سامنے آکر یہ کہتے ہیں کہ ہم انہیں تسلیم کرنا چاہئے۔ ہمیں انہیں تسلیم کرنے کے نتائج بھی معلوم ہونے چاہئیں۔
دینی معاملے میں اپنی مرضی سے افہام و تفہیم کرنے یا ترمیم کا ہمیں حق حاصل نہیں۔
سورۃ یونس آیت 15 میں اشاد ہے، فرماتے ہیں ’’اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔‘‘ اے نبیؐ ان سے کہو ’’میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدیلی کرلوں۔ میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔‘‘
ہمارا دین ہمیں کسی سے بلاوجہ جھگڑا کرنے سے روکتا ہے، ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی مذہبی نشانیوں کی عزت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے۔ لیکن قرآن کے مطابق ہمیں یہ منع فرمایا ہے کہ ہم انہیں اپنا ولی، (بڑا جس کی بات مانی جائے) بنائیں اور اپنے مسلمانوں سے زیادہ ان سے محبت و رغبت کا تعلق رکھیں۔
ایک اہم ترین بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ دینی معاملات انتہائی حساس اور اہم ترین ہوتے ہیں۔ یہ عا م دنیاوی معاملات کی طرح نہیں۔ ان کے بارے میں بغیر مکمل علم کے رائے دینے یا اپنی سوچ کو عام کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے اپنا ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
نبی کریمؐ کی ایک پیش گوئی میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے قریب ایسے لوگ عالم کہلائیں گے، جو دین کا علم نہ رکھیں گے۔ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ٭
٭٭٭٭٭