اچھے یو ٹرن

ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
جب سے وزیر اعظم عمران خان نے یوٹرن کی ’’تعریف‘‘ کرکے اس انگریزی لفظ کی اردو ڈکشنری یعنی ’’عظیم رہنما‘‘ ایجاد کی ہے، ہر کوئی یوٹرن پر ہی سارے ٹرن لے رہا ہے۔ بات پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر ہمارے ناپسندیدہ ہمسائے بھارت تک جا پہنچی ہے اور وہاں کی سیاست میں بھی یوٹرن کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ بھارت میں بی بی سی کے نمائندے سہیل حلیم نے تو یوٹرن کی ’’تعریف‘‘ میں پورا کالم لکھ مارا، جس میں انہوں نے پہلے اپنے وزیر اعظم نریندر مودی کے یوٹرن گنوائے اور پھر ان کے آخری یوٹرن یعنی پاکستان کے ساتھ کرتارپور سرحد کھول کر سکھوں کو مذہبی رسومات کی اجازت دینے کے فیصلے کو بڑا لیکن اچھا یوٹرن بھی قرار دیا، اس سے پہلے مودی سرکار پاکستانی تجویز مسترد کر چکی تھی۔ مگر لگتا ہے کہ یوٹرن کی نئی تشریح پاکستان میں سامنے آنے کے بعد مودی سرکار نے فیصلہ کیا ہے، اس معاملے پر پاکستانی وزیر اعظم کو کیوں آگے جانے دیا جائے، یوٹرن لے کر ’’عظیم رہنما‘‘ کا سہرا اپنے سر کیوں نہ باندھ لیا جائے۔ سو مودی سرکار نے بھی فوراً بڑا یوٹرن لے کر کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کردیا۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن سکھ اس پر بہت خوش ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’کچھ یوٹرن اچھے بھی ہوتے ہیں‘‘۔
مودی نے کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کرکے یعنی یوٹرن لے کر ’’عظیم رہنما‘‘ بننے کی جو کوشش کی ہے، ہماری حکومت کو اس کا فوراً نوٹس لینا چاہئے اور یہ واضح کرنا چاہئے کہ یوٹرن کی اس نئی تشریح کے جملہ حقوق ہمارے وزیراعظم کے پاس محفوظ ہیں، اس لئے بھارت کو اس میدان میں آگے نہیں نکلنے دیں گے، اس کے لئے ہمارا مشورہ ہے کہ مودی نے یوٹرن لے کر اپنے پنجاب کے عوام کو خوش کیا ہے تو وزیراعظم عمران خان بھی فوراً اپنے پنجاب میں یوٹرن لیں اور عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹاکر صوبے کے عوام کی خوشی کے لئے کچھ ساماں کریں، جو گزشتہ تین ماہ سے حیرانی و پریشانی کے عالم میں اپنے حیران و پریشان وزیراعلیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ یوٹرن اچھا ہونے کا عوامی اور ریاستی سرٹیفکیٹ بھی پالے گا، کیوں کہ اب تو یہ رپورٹس بھی آرہی ہیں کہ قومی اداروں نے بھی عثمان بزدار کو ناکام قرار دے دیا ہے۔ قومی اداروں نے لگتا ہے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور تین ماہ کا وقت دیا، ورنہ عثمان بزدار تو اول روز سے ہی ناکام نظر آرہے ہیں، انہیں صرف ایک ہی کام آتا ہے اور وہ ہے چالیس پچاس گاڑیوں کا پروٹوکول لے کر گھومنا یا پھر دوستوں کی فرمائش پر افسران کو بلا کر ان کے سامنے بٹھا دینا، باقی کام وہ دوستوں پر چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح افسران کی روز اکھاڑ پچھاڑ، جس نے پورے صوبے کی انتظامی مشنری کو جام کردیا ہے۔ ویسے تو یوٹرن کی نئی تعریف کے بعد عمران خان کو یوٹرن پر کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے، بلکہ فخر سے انہیں یہ کام کرنا چاہئے، لیکن پھر بھی کوئی جھجھک ہے تو وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عثمان بزدار نے وی آئی پی کلچر کے خلاف ان کی پالیسی کی تین ماہ میں ٹرن ہی نہیں آنے دی، اس لئے یہ یوٹرن لینا ضروری ہوگیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ کم بولنا چاہئے اور تول کر بولنا چاہئے۔ اگر ہمارے وزیر اعظم عمران خان چند ہفتے قبل یہ خطاب نہ فرما چکے ہوتے کہ جب تک پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، عثمان بزدار ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے، تو اب انہیں زیادہ بڑا یوٹرن لینے کی ضرورت پیش نہ آتی، لیکن کیا کیا جائے کہ عمران خان کو بولنے کا بہت شوق ہے اور وہ بھی بغیر سوچے و سمجھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد تو انہیں محتاط ہو جانا چاہئے تھا، تحریری متن کے بغیر بات کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے تھا، اگر وزیر اعظم اس پریکٹس کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیتے تو شاید انہیں یوٹرن کی تعریف ’’ایجاد‘‘ کرنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی اور نہ ہی پوری کابینہ باقی کام چھوڑ کر ان کے آئے روز دیئے گئے بیانات کے دفاع میں مصروف نظر آتی۔ وزراء جتنا وقت وزیر اعظم کے بیانات کا دفاع کرنے میں لگاتے ہیں، اگر اتنا اپنی وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے میں لگاتے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ملک نے کچھ تو بہتری کی طرف یوٹرن لے ہی لیا ہوتا۔
خیر اب دعا کریں کہ وزیراعظم صاحب جلد پنجاب میں وزارت اعلیٰ پر یوٹرن لیں اور صوبے کو کوئی اچھا حکمران دیں، اگر عثمان بزدار انہیں بہت پسند ہیں تو انہیں وہ اپنی نمل یونیورسٹی کا چانسلر وغیرہ بنا کر یہ شوق پورا کرسکتے ہیں، لیکن اپنی پسند کے نام پر انہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے کا نظم و نسق تباہ نہیں کرنا چاہئے۔ صادق آباد سے لے کر اٹک تک نصف سے زیادہ پاکستان بستا ہے اور ان لوگوں نے کوئی قصور نہیں کیا کہ ان پر عثمان بزدار جیسا وزیر اعلیٰ پر تھوپ دیا جائے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ انسان غلطی کی وجہ سے نہیں، بلکہ غلطی پر اصرار کی وجہ سے تباہ ہوتا ہے، اس لئے وزیر اعظم ایک یوٹرن لے کر اس غلطی کو سدھار دیں، ورنہ یہ نہ ہو کہ ان کا وہ بیان ہی حقیقت بن جائے اور عثمان بزدار کے ساتھ پنجاب میں ان کی حکومت بھی جاتی رہے۔ حالیہ سینیٹ الیکشن میں ان کی جماعت صرف سات ووٹوں کی اکثریت سے جیتی ہے، یہ سرخ بتی ہے، سرخ بتی پر یوٹرن لے لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ پنجاب کی حکومتی گاڑی ایک کے بجائے تین تین ڈرائیور چلا رہے ہیں۔ ایک طرف گورنر چوہدری سرور ہیں، دوسری طرف اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی اور تیسری طرف سرکاری ڈرائیور عثمان بزدار۔ لیکن سرکاری ڈرائیور کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں نہ گاڑی چلانا آتی ہے اور نہ اس میں دلچسپی۔ اس لئے دوسرے دو حضرات ہی گاڑی کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کوشش میں گاڑی ہچکولے کھا رہی ہے اور آپس میں لڑائیاں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ اسٹیئرنگ پر زیادہ کون بیٹھے گا۔ اگر جلد یوٹرن لے کر پنجاب کو اچھا ڈرائیور نہ دیا گیا تو حکومتی گاڑی کے جلد حادثے کا شکار ہونے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بہتری اسی میں ہے کہ عثمان بزدار پر یوٹرن لے لیا جائے، کیوں کہ کچھ یوٹرن اچھے ہوتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment