تیز رفتار آرام دہ ویگن تیزی سے فاصلہ سمیٹتے ہوئے پاکستان کے اس اکلوتے پراسرار شہر کی جانب بڑھ رہی تھی، جہاں ملک کی واضح اکثریت واضح ترین اقلیت کی صورت میں رہنے پر مجبور ہے، جہاں وہ مشکوک ٹھہرتے ہیں، جہاں رہنے کے لئے وہ کوئی مکان خرید سکتے ہیں نہ کاروبار کے لئے کوئی جگہ خرید کر دکان یا دفتر بنا سکتے ہیں، جیسے جیسے قادیانیوں کا چناب نگر قریب آتا جا رہا تھا۔ سیلانی کی بے چینی اور اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے چناب نگر کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا اور آج پہلی بار وہ اس شہر میں داخل ہونے جا رہا تھا، جہاں جماعت احمدیہ کی رٹ قائم ہے، جیسے جیسے وین آگے بڑھتی جا رہی تھی، سیلانی کا اشتیاق بھی بڑھتا جا رہا تھا، لیکن فاصلہ تھا کہ سمٹ کر ہی نہیں دے رہا تھا۔ سیلانی نے وقت گزاری کے لئے ایک بار پھر اپنے سیل فون سے رجوع کیا اور نیٹ کھول کر جہان عالم سے باخبر ہونے لگا۔ سیل فون کی چھوٹی سی اسکرین پر ہر دم رنگ بدلتی دنیا سامنے تھی اور اس رنگ بدلتی دنیا میں روس میں ہونے والی ہائی پیس کونسل کی تصویر نمایاں تھی۔ سفید پگڑیوں اور داڑھیوں والے مزاحمت کار حریت پسند ماسکو میں ان کے مہمان تھے، جن کے ہاتھوں سوویت یونین سمٹ کر روس رہ گیا تھا۔ کبھی جھومتا جھامتا سرخ ریچھ کابل کو لٹل ماسکو بنانے آیا تھا اور اب خود ہی افغان مجاہدین کے ہاتھوں little mascow بن کر رہ گیا تھا۔ کیا عجیب بات کہ کل جو افغانوں پر ٹینک لے کر چڑھ دوڑے تھے، آج وہ ان کے لئے قالین بچھائے ہوئے خاطر داریاں کررہے تھے۔ کانفرنس میں افغانستان سے جڑے پاکستان، بھارت، امریکہ اور چین سمیت بارہ ممالک شریک ہیں۔ بھارت اور امریکہ کی موجودگی میں افغانستان کس حد تک پرامن ہو سکتا ہے، اس سوال کے جواب کے لئے سیلانی کو کسی بوڑھے تجزیہ کار کے ساتھ کافی پینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی اور اس نے تصویر آگے کر دی اور اب سیلانی کے سامنے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی مالدیپ کے نو منتخب صدر کو ڈالی گئی جپھی کی تصویر تھی۔ مالدیپ کے نومنتخب صدر ابراہیم محمد صالح نے الیکشن جیتنے کے بعد ممنونیت و اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تقریب حلف برداری میں جنوبی ایشیائی ممالک سے صرف بھارت کے وزیر اعظم کو مدعو کر کے مکمل مرعوبیت و اطاعت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایک ہزار جزائر پر مشتمل اس چھوٹے سے ملک کو بھارت نے اپنا طفیلی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ پچھلی حکومت میں اس نے بھارتی راج سے علم بغاوت بلند کرکے پاکستان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر چین کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا، لیکن اس کے بعد پاکستان کی عدم دلچسپی کے باعث یہ مسکراہٹ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ انتخابات ہوئے اور مودی سرکار نے بنگلہ دیش میں سیاسی گھس بیٹھ کی تاریخ یہاں بھی دوہرائی اور مرعوب حکومت بنا کر ہی دم لیا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ سیلانی سوچنے لگا کہ اس موضوع پر الگ سے کالم لکھے گا۔ سیلانی اسی سوچ میں تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ’’یہ دریائے چناب ہے، جی بس اس کے پار چناب نگر ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی سیلانی چونک گیا۔ اس نے سیل فون سے نظریں ہٹائیں اور کھڑکی کے شفاف شیشے کے پار سے بہتے بوڑھے بزرگ چناب کو دیکھنے لگا۔ دریائے چناب کا بھی ویسا ہی حال ہے، جیسا حیدر آباد کے قریب دریائے سندھ کا ہے۔ کسی بوڑھے کے جھریوں بھرے گال پر بہنے والے اشک کی طرح چناب بھی ماضی کا قصہ بننے کو ہے، لیکن چناب کے ساتھ آباد چناب نگر میں جماعت احمدیہ کا قبضہ ماضی کا قصہ نہیں۔
وین کا ایک مسافر بتانے لگا ’’ایک ہزار اڑتیس کلومیٹر پر محیط اس شہر کے مالکانہ حقوق جماعت احمدیہ کے پاس ہیں، وہ اس کی وارث اور مختار ہے، جب چاہے کسی کو گھر سے باہر کر سکتی ہے، یہاں کوئی ان کی مرضی کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا، تمام داخلی راستوں پر ان کے پہرے ہیں‘‘۔
سیلانی نے یہ نہیں کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، کیوں کہ کراچی میں وہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر اس قسم کے مناظر دیکھتا رہا ہے۔ نائن زیرو کے اطراف تمام گلیوں سڑکوں پر ایم کیو ایم نے چوکیاں بنا رکھی تھیں، جہاں ان کے مسلح کارکنان وائر لیس کے ساتھ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہتے تھے، اس نے اپنی آنکھوں سے پولیس کے سب انسپکٹر کو داخل ہونے کے لئے وضاحتیں دیتے دیکھا ہے۔
وین دریائے چناب پر باندھا پل عبور کرکے آگے بڑھی اور شہر کے قریب ہونے لگی۔ سیلانی تجسس سے کھڑکھی کے پار بنے گھروں کو دیکھنے لگا۔ آگے بڑھے تو روڈ کی ایک جانب سرخ قمیض پہنے ایک نوجوان سرخ اور سیاہ پٹیوں والا پرچم لئے راہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ یہ یقینی طور پر ’’احراری‘‘ تھا۔ مجلس احرار الاسلام میں شامل ختم نبوتؐ کے پروانے سرخ رنگ کی قمیض یا کرتا پہنتے ہیں۔ سرخ رنگ لہو اور قربانی کی علامت ہے اور یہ قمیض یا کرتا پہن کر وہ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ ختم نبوتؐ کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔
وین آگے بڑھی اور روڈ پر چلتے ہوئے ایک ایسی جگہ پہنچ گئی، جہاں سے روڈ بائیں جانب مڑ رہا تھا۔ اس نکڑ پر رکاوٹیں رکھ کر راستہ بند کر دیا گیا تھا، یہاں سات آٹھ نوجوانوں کا ٹولہ کھڑا ہوا تھا۔ ان میں ایک کے پاس وائرلیس سیٹ بھی تھا۔ سیلانی کو آواز آئی:
’’یہ خدام احمدیہ کے لڑکے ہیں جی، چناب نگر کی سیکورٹی کو یہی کنٹرول کرتے ہیں، کوئی اجنبی آدمی ذرا یہاں جا کر تو دکھا دے، جب تک ان کی تسلی نہیں ہو جاتی، یہ داخلے کی اجازت نہیں دیتے، شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں، گاڑی کا نمبر رجسٹر میں نوٹ کرتے ہیں، اپنی تسلی کے بعد ہی جانے دیتے ہیں‘‘۔
گاڑی آگے بڑھ گئی اور ناہموار روڈ پر آگے بڑھتے ہوئے بالآخر سرخ پوشوں کے استقبالی کیمپ کے سامنے پہنچ گئی۔ یہ چناب نگر کے پیچھے کا مضافاتی علاقہ تھا۔ یہاں ایک زیر تعمیر مسجد میں مجلس احرار کی اکتالیسویں ختم نبوتؐ کانفرنس جاری تھی۔ امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی مجلس احرار یہاں بہت بڑا کمپلیکس بنا رہی ہے، جس کی جامع مسجد بڑی حد تک تکمیل کے قریب ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈسپنسری کا بھی افتتاح کر دیا گیا ہے۔ اس کمپلیکس میں سرخ پوش نوجوانوں کے ساتھ سفید ریش بزرگ بھی سرخ کرتا پہنے دکھائی دیئے۔ ان میں سے کچھ کے کانپتے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ناک کی چھوٹی سی ڈھلوان پر موٹے موٹے شیشوں والی عینکیں دھری تھیں۔ ان عینکوں کے پیچھے اک زمانہ دیکھ رکھنے والی آنکھیں کبھی بھی بند ہونے کو تھیں، لیکن وہ ضعف اور بڑھاپے کے باوجود مشقت اٹھا کر یہاں پہنچے ہوئے تھے۔ چناب نگر کے باسیوں کے سرد رویوں کے برعکس موسم زیادہ سرد نہیں تھا، لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ یہ ضعیف العمر بزرگ نرم گرم بستروں کو چھوڑ کر یہاں اڑتی دھول میں آجاتے، لیکن وہ موجود تھے اور جب مجمع سے کوئی دیوانہ پروانہ تاجدار ختم نبوت کا نعرہ لگاتا تو زندہ باد کی آواز کے ساتھ ان کے کانپتے ہاتھ بھی فضا میں بلند ہو جاتے۔ انہوں نے یقینا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو سن اور دیکھ رکھا تھا اور جس نے شاہ صاحبؒ کو سن رکھا ہو، وہ بڑھاپے، بیماری، گرمی سردی کی کب سنتا ہے؟ ان کے وارڈ روبز میں سرخ کرتا اپنی جگہ موجود رہتا ہے، پھر چاہے ڈاکٹر کہے کہ دل کے چاروں وال بند ہیں، بیٹا کہے کہ راستے بند ہیں، مگر یہ باز نہیں آتے۔ انہیں چناب نگر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا… سیلانی کو وہاں غالب تعداد میں نوجوان بھی دکھائی دے رہے تھے اور ان میں اکثریت مدارس کے طلبا کی نہیں تھی۔ ایک نوجوان سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ ایک بڑے نیوز چینل میں پروڈیوسر ہے۔ ایک اور فربہی مائل نوجوان سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ختم نبوتؐ کا یہ پروانہ چناب نگر میں رہتے ہوئے جماعت احمدیہ کی ’’رٹ‘‘ کو چیلنج کر رہا ہے۔ اس نوجوان کو ضلعی انتظامیہ نے ضلع بدر کرنے کے احکامات دیئے تھے۔ اس نے عدالت میں حکم چیلنج کر دیا اور حکم امتناعی لے لیا۔ اب وہ جان ہتھیلی پر رکھے چناب نگر میں ٹھہرا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ دوسر ے نوجوان کو ڈپٹی کمشنر نے ’’زباں بندی‘‘ کا حکم دے رکھا ہے اور وہ اس پر بھی خوش ہے۔ وہیں مقیم ہے اور قادیانیوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔
سرخ پوش احراری اسلام آباد سے آنے والے مہمانوں کو ایک بڑے سے کمرے میں لے گئے، جہاں دسترخوان بچھا ہوا تھا۔ طویل سفر سے آنے والے تھکے ماندے شرکاء کی یہاں مہمانداری کی جا رہی تھی۔ سیلانی بھی بیٹھ گیا، اس کے سامنے بھی کھانا آنے کو تھا کہ مجلس احرار کے سیکریٹری جنرل عبد اللطیف خالد چیمہ دروازے پر آئے اور اسلام آباد والے مہانوں سے کہنے لگے:
’’پیر جی سے ملاقات کے لئے جگہ بنائی ہے، آجائیں۔‘‘
سب ساتھی کھانا چھوڑ کر تیزی سے باہر نکلے اور سب سے آخر میں بنے کمرے میں آگئے۔ وہاں ایک سفید ریش بزرگ چارپائی پر سرخ کرتا پہنے بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ سید عطاء المہیمن شاہ بخاری تھے، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے اور مجلس احرار الاسلام کے قائد، جنہیں سب احترام سے پیر جی کہتے ہیں۔ پیر جی سے ملنے کے لئے ارادت مندوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ پیر جی نے بظاہر اپنا ضعیف مگر مضبوط نسبت کا ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھاتے ہوئے کہا:
’’معاف کیجئے گا، معذوری کی وجہ سے میں اٹھ نہیں سکتا۔‘‘
پیر جی سے ملاقات کے لئے عقیدت مندوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ سیلانی خواہش کے باوجود ان کے پاس نہ بیٹھ سکا
اور مصافحہ کرکے باہر آگیا۔ کھانے کے بعد سیلانی نے وضو کیا اور کمپلیکس میں مسجد سے متصل میدان میں بچھی کھجور کے پتوں کی چٹائیوں پر آبیٹھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ ایک صف بچھائی جاتی ہے کہ دوسری کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اندر مسجد میں جوشیلے خطابات اور پرجوش نعروں کا سلسلہ جاری تھا۔ تقاریر کے بعد نماز باجماعت ادا کی گئی، جس کے بعد احراریوں کا مرکزی جلوس چناب نگر کی جانب بڑھنے لگا۔ سرخ قمیضوں، کرتوں والے احراریوں کی زبان پر درود شریف کا ورد تھا۔ وقفے وقفے سے تاجدار ختم نبوتؐ کا نعرہ بلند ہوتا اور عشاق رسولؐ پرجوش انداز میں احرار کا پرچم لہرا کر ایسے جواب دیتے کہ دل دھڑک دھڑک اٹھتا۔
عاشقان رسولؐ کا جلوس مکمل نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور اسی طرح چلتے چلتے چناب نگر میں داخل ہو گیا۔ اب منظر یہ تھا کہ گلیوں میں پولیس اہلکار کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے اسلحے کے ساتھ چوکنا کھڑے تھے اور ان کے پیچھے ذرا فاصلے پر قادیانی نوجوان ٹولیوں کی صورت میں موجود تھے۔ سیلانی کو اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ یہ نوجوان عام شہری نہیں، خدام احمدیہ کے تربیت یافتہ کارکنان ہیں، جو اس وقت مشکل ترین ڈیوٹی پر ہیں۔ چناب نگر میں اس وقت عجب سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ جلوس کے راستے پر سوائے پولیس اہلکاروں کے اور کوئی نہ تھا۔ ساتھ والی گلیوں میں بھی ایسی ہی خامشی اور سناٹا تھا۔ آس پاس گھروں کی چھتوں اور بالکونیوں سے چناب نگر کے مکین جلوس دیکھ رہے تھے اور اپنے سیل فون سے تصاویر بنا رہے تھے۔ اسی طرح جلوس آگے چلتے ہوئے چناب نگر کے مین بازار کے عین وسط میں پہنچ گیا اور پھر قادیانیت کے عالمی مرکز قصر محمود کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ یہاں نعروں کی شدت دیکھنے والی ہوگئی، لیکن اس شدت میں کہیں بھی گالم گلوچ تھی، نہ رگڑنے رگیدنے کی باتیں اور نہ ہی مارنے، مار بھگانے کی دھمکیاں… سب سے زیادہ تاجدار ختم نبوت نبوت زندہ باد کا نعرہ ہی بلند ہوتا، جس کا جواب کچھ ایسے جوشیلے انداز میں دیا جاتا کہ رگوں میں لہو دوڑ اٹھتا۔
قصر محمود کے سامنے مسلمانوں کی اکلوتی مسجد کے مینار دکھائی دیئے، یہ چھوٹی سی مسجد اس لئے وہاں موجود ہے کہ یہ سرکاری انتظام میں ہے۔ سیلانی کو چناب نگر میں بظاہر کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوئی۔ صفائی ستھرائی بھی بس واجبی سی ہی تھی۔ ’’قصر محمود‘‘ کے ساتھ ہی غلاظت کی کھلی نالی بہتی دکھائی دی۔ یہاں جلوس جلسہ کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ مجلس احرار الاسلام کے قائدین نے یہاں مختصر خطاب کیا۔ ان کی تقاریر کے دوران بھی ہزاروں کے مجمعے میں منفی ابال نہیں آیا۔ اپنا بدترین دشمن سامنے ہو اور بازوؤں میں طاقت بھی ہو تو جذبات پر کنٹرول رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن سیلانی گواہی دے گا کہ یہاں کسی نے قصر محمود کی طرف کنکر اچھالنا تو دور کی بات، درخت کی شاخ تک نہیں توڑی، حالاںکہ اس شہر میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔ ان کی نقل و حرکت محدود رکھی جاتی ہے۔ یہاں جائیداد کی خرید و فروخت صرف جماعت احمدیہ سے ہی کی جا سکتی ہے، اس لئے یہاں کوئی دینی مدرسہ بھی قائم نہیںکیا جا سکا۔ یہ شہر اس حساب سے عجیب ہے کہ یہاں کے مکین اپنے مکانوں میں رہنے کے باوجود انہیں اپنے گھروں کی شکل نہیں دے سکتے۔ یہی جماعت احمدیہ کی رٹ کو قائم رکھنے کا بڑا ہتھیار بھی ہے۔ یہاں کے مکینوں کو یہ خوف بھی ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے کہ اگر مسلمان ہوئے تو نکال باہر کئے جائیں گے۔ چار دیواری اور چھت سے محروم ہو جائیں گے۔
سیلانی کو یہ سب جان کر حیرت ہو رہی تھی کہ یہ معاملہ ایک دو گھروں کا نہیں، ایک دو محلوں کا بھی نہیں، پورے شہر کا ہے اور یہی نہیں، جماعت احمدیہ نے یہاں اپنا نظام انصاف اور عدالتیں تک قائم کر رکھی ہیں۔ کوئی بھی قادیانی شخص پولیس کچہری میں نہیں جا سکتا۔ یہاں مقدمے سنے جاتے ہیں، تاریخیں پڑتی ہیں اور سزائیں بھی دی جاتی ہیں، جن پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے۔ سیلانی کو ایک دوست نے بتایا کہ اسی روڈ پر 2011ء میں نمائندہ امت رانا ابرار چاند کو قتل کر دیا گیا تھا۔ رانا ابرار قادیانیوں کے متوازی نظام انصاف پر کام کر رہا تھا۔
جلوس کے بعد اسپیکروںسے اعلان کیا گیا کہ ابھی ختم نبوتؐ کے لئے جان مال کی قربانی کا عزم کرتے ہوئے پیر جی کی بیعت کی جائے گی۔ اسٹیج سے پیر جی کی چادر مجمع کی طرف بڑھا دی گئی۔ بے اختیار درجنوں ہاتھوں نے یہ چادر پکڑ لی، جن کے ہاتھ چادر تک نہیں پہنچے، انہوں نے اپنے سامنے والے کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر ہاتھوں کی زنجیر بنتی چلی گئی۔ ہزاروں کا مجمعہ ختم نبوتؐ پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا وعدہ کرنے لگا۔ یہ بڑا والہانہ منظر تھا۔ پیر جی بیعت لے رہے تھے اور لوگ ان کی بات دوہرا رہے تھے۔ عزم کا اظہار کر رہے تھے اور بیعت کر رہے تھے۔ سیلانی ختم نبوتؐ کے ان پرجوش پروانوں کو عقیدت و محبت سے تکنے لگا اور درود و سلام پڑھتے ہوئے ان سرخ پوشوں کو محبت سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭