’’امت‘‘ کی رپورٹنگ ٹیم کے مطابق پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں نے لندن میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے، تاکہ منظم و متحد ہو کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کارروائیوں میں تیزی لائی جا سکے۔ ان پاکستان دشمن تنظیموں میں ایم کیو ایم لندن، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپ، سندھ اور بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیمیں، بلوچ لبریشن آرمی وغیرہ شامل ہیں۔ ایم کیو ایم لندن اور علیحدگی پسند تنظیموں کے بعض ذمہ داروں سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے لوگوں نے لندن میں اہم ملاقاتیں کی ہیں، جبکہ کالعدم تحریک طالبان کی قیادت کو افغانستان سے ہدایات دی جاتی ہیں۔ ان کے درمیان طے پایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں سہولتیں فراہم کریں گے۔ تمام تنظیموں کے دہشت گردوں کا مشترکہ ہدف پاکستان میں بدامنی پھیلانا، جگہ جگہ بم دھماکے کرنا، سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانا اور اہم شخصیات سمیت عوامی اجتماعات پر حملے کرنا ہے۔ پاکستان کو برطانوی غلبہ و تسلط سے آزاد ہوئے ستر سال گزر چکے ہیں، لیکن وہاں کی حکومت اور خفیہ ادارے مسلمانوں سے جذبہ انتقام کے تحت پاکستان دشمن عناصر کو اپنے ملک میں نہ صرف پناہ دیتے، بلکہ وہاں بیٹھ کر انہیں ملک اور عوام کے خلاف سازشیں اور حملے کرنے کی اجازت اور سہولتیں دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کی آزادی سے پہلے لندن سازشوں کا گڑھ رہا ہے۔ جہاں سے آئے دن نت نئے لندن پلان بننے کی خبریں آتی تھیں۔ آزادی کے بعد بھی بالخصوص پاکستان کو ختم کرنا یا اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کے منصوبے لندن میں بنائے جاتے رہے۔ بعد میں امریکا نے بھی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف اس مذموم کھیل میں شامل ہو کر سرغنہ کی حیثیت حاصل کر لی۔ وطن عزیز میں ہزاروں بے گناہ شہریوں اور خود اپنے کارکنوں کو ہلاک کرنے والی انتہائی دہشت گرد تنظیم کا رہنما الطاف حسین آج بھی لندن میں مقیم اور پناہ گزین ہے۔ افواج پاکستان اور دیگر سیکورٹی اداروں نے اگرچہ اس تحریک اور اس کی بغل بچہ تنظیموں کا زور توڑ دیا ہے، لیکن چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے باز نہ آئے کے مصداق الطاف حسین کے اعوان و انصار اب تک مختلف حیلے بہانوں سے غدار وطن الطاف حسین کے نام اور اس کی وحشیانہ کارروائیوں کے حامی نظر آتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف قتل کی سنگین وارداتوں کے ثبوت و شواہد موجود ہونے کے باوجود اس کے خلاف بھارت کی خوشنودی کے پیش نظر کوئی اقدام نہیں کیا، جبکہ برطانیہ کے اپنے اغراض و مقاصد بھی ایم کیو ایم جیسی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ ایم کیو ایم لندن کے قائد الطاف حسین کے علاوہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے حیربیار مری، بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ برہمداغ بگٹی اور لشکر بلوچستان کے عہدیداروں کے علاوہ سندھ میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیموں جئے سندھ قومی محاذ اور سندھو دیش لبریشن آرمی کے پاکستان دشمن افراد لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشوں اور ہدایات لینے دینے میں مصروف ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد تو مستقل طور پر لندن ہی میں مقیم ہے، لیکن کچھ لوگ سوئٹزر لینڈ، ناروے، فرانس، کینیڈا، جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات آتے جاتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے تحقیقاتی اداروں نے دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے کیلئے حکمت عملی تو تیار کر لی ہے اور متعلقہ ممالک کو پاکستانی دہشت گردوں کی تفصیلات سے آگاہ کر دیا ہے۔ لیکن دو وجوہ کی بنا پر ان کی جانب سے خاطر خواہ ردعمل سامنے نہیں آرہا ہے۔ اول پاکستانی حکومتوں کی اپنی کمزوریاں اور بدعنوانیاں اور دوم، ان ممالک کا اپنا پاکستان اور مسلم دشمن رویہ۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اعتراف کرتے ہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہماری جنگ ابھی خم نہیں ہوئی ہے۔ کچھ عناصر دانستہ یا نادانستہ طور پر ملک کو عدم استحکام اور تصادم کی جانب لے جا رہے ہیں، لیکن ہم پاکستان میں مذہب، لسانیت، علاقائیت یا کسی اور بنیاد پر انتشار پھیلانے نہیں دیں گے۔ جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ ہمیں اندرونی قوتوں اور بیرونی دشمنوں کے ایجنڈے سے باخبر رہتے ہوئے بنیادی وجوہ سے نمٹنے کے لئے کام کرنا ہو گا۔ پاکستان کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے اپنے اردگرد کھلے دشمنوں اور کئی دوست نما دشمنوں سے واسطہ ہے۔ جبکہ عوام کی کم علمی یا ان کے بنیادی مسائل میں گھرے ہونے کی وجہ سے وہ دانستہ سے زیادہ نادانستہ طور پر مذہب، لسانیت یا علاقائیت پھیلانے والوں کے دام فریب میں آ کر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں اور کوششوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ اس کے باوجود کئی اندرونی قوتیں آئے دن مختلف ناموں سے تحریکیں چلا کر اور دھرنے دے کر معیشت اور ترقی کا پہیا جام کر دیتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر مذہبی جلسوں میں فحش گالیاں دینے والے بعض نام نہاد علما اﷲ اور رسول ؐ کے نام پر لوگوں کو تخریبی کارروائیوں کیلئے اکسا کراپنی مذہبی و سیاسی قیادت کو چمکانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ناخواندہ و نیم خواندہ عوام ان کے جبے قبے دیکھ کر اور ان کی سحر انگیز تقریروں سے متاثر ہو کر ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ ہمارے دینی و سیاسی رہنمائوں نے اگر عوام کی درست تربیت کی ہوتی تو وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے والوں کو بخوبی پہچان سکتے تھے۔ یہاں زبان اور علاقے کی بنیاد پر تعصب اور نفرت پھیلانے والوں کی بھی کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہ بیرونی امداد کے بل بوتے پر پاکستان میں انتشار پھیلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ برطانیہ ہمہ وقت پاکستان کے خلاف سازشوں کا مرکز بنا رہتا ہے، لیکن ہمارے مشرق میں واقع پڑوسی ملک بھارت تو ازل سے پاکستان کا دشمن ہے، جبکہ شمال مغرب میں افغانستان اور ایران بھی پاکستان دشمن گروہوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ اس کے برعکس ہماری حکومتوں کی نااہلی کا عالم یہ ہے کہ چینی قونصل خانے اور اورکزئی ایجنسی میں دہشت گردوں کے حملوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ یہ حملے اچانک (سرپرائز) نہیں تھے، ہمیں پیشگی اطلاع تھی کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی، لیکن حملے کب اور کہاں ہوں گے یہ پتا نہیں تھا؟ بااختیار وزیراعظم کے اس اظہار بے بسی پر شرم سے کسے ڈوب مرنا چاہئے، یہ قوم کو بھی نہیں معلوم۔
٭٭٭٭٭