وہ جو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت نے بھارت کو بالکل بدل دیا ہے، ان کو ایک نظر اس ایودھیا شہر کی سہمی ہوئی فضاؤں پر بھی ڈالنی چاہئے۔ ان کو سننا چاہئے یہ فلک شگاف نعرہ جو ہر گلی اور ہر چوراہے پر بلند ہو رہا ہے: ’’ہر ہندو کی یہی پکار: پہلے مندر پھر سرکار!‘‘ اور یہ نعرے لگانے والے اور اپنے ہاتھوں میں پیاسی تلواریں لہرانے والے ایودھیا کے مقامی افراد نہیں ہیں۔ ان کی اکثریت پورے بھارت سے امڈ آئی ہے۔ وہ ٹرینوں، بسوں، کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر اس شہر میں ڈیرے ڈال رہے ہیں، جس شہر میں 26 برس قبل ہزاروں انتہا پسند ہندوؤں نے 16 ویں صدی میں تعمیر ہونے والی ’’بابری مسجد‘‘ کو منٹوں میں مسمار کر دیا تھا۔ کیا وہ اس بار بابری مسجد کے ملبے پر گھنٹوں میں رام مندر تعمیر کریں گے؟ کیا اس بار بھی پورے بھارت میں ’’ہندو مسلم فسادات‘‘ کے نام پر وہاں بسنے والے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جائے گا؟
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اب تک بھارتی میڈیا ’’بابری مسجد‘‘ کو انتخابی ایشو قرار دے رہا ہے۔ اب تک بھارت کی عدلیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اب تک مودی سرکار کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔ اب تک کانگریس کی طرف سے کوئی ایسا بیان نہیں آیا، جس میں بھارت کے مسلمانوں کے انسانی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کا یقین دلایا جائے۔ اب تک بھارت کے ادیبوں اور دانشوروں نے مون ورت (چپ کا روزہ) رکھا ہوا ہے۔ اب تک بھارت کی ہزاروں این جی اوز کے ہونٹوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ اب تک بھارت کے وہ لاکھوں لبرلز پتھر کی مورتیاں بنے ہوئے ہیں، جو سیکولرزم کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے دعوے کرتے ہیں!
اور بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمان اپنے سر پر لٹکتی ہوئی تلواروں کے سائے تلے سہمی سانس لینے پر مجبور ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی خوفزدہ یادوں میں خطرناک امکانات ابھر رہے ہیں۔ ہندو شاؤنزم کے گھیرے میں مجبور زندگی جینے والے بھارتی مسلمانوں کے خاندان خوف کی فضا میں ہیں اور مسلمان والدین اپنے بچوں کی آنکھوں میں ابھرے ہوئے سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔
بالی ووڈ کے نقلی آسمان پر چمکتے ہوئے مسلمان اسٹارز بھی ڈر اور خوف کے بادلوں میں گھر گئے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ حکومت ان کے گھروں پر حفاظت کے لیے چند پولیس اہلکار مقرر کر دے گی، مگر بات صرف ممبئی کے امیر علاقوں کی نہیں ہے۔ اصل بات ان کروڑوں غریب مسلمانوں کی ہے، جن کو ڈر ہے کہ اگر ہندو شاؤنزم کی شیطانی آگ کے شعلے بلند ہوئے تو پھر ان کی عورتوں کو آبرو ریزی اور ان کے بچوں کو آگ کا ایندھن بنانے سے روکنے کیلئے وہ بھارتی فوج بھی کچھ نہیں کرے گی، جس کے بجٹ میں ہر سال غیر معمولی اضافہ کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک کچلنے کے لیے لاکھوں بھارتی فوجی تعینات کیے جاتے ہیں، مگر بھارت کے اکثریتی ہندو علاقوں میں عام مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی جاتی۔ مودی حکومت نے جس ہندو کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے بھارت پر حکمرانی کا حق حاصل کیا ہے، وہ مودی حکومت اس اشتعالی طوفان کے سامنے بے بس کھڑی ہے، جس کو پیدا کرنے اور ابھارنے میں اس کا بنیادی کردار ہے۔
بابری مسجد کے حوالے سے پیدا ہونے والی اس صورت حال سے امریکہ بے خبر نہیں ہے، مگر امریکہ نے اب تک اس ایشو پر اپنی تشویش کا اظہار تک نہیں کیا۔ امریکہ کو علم ہے کہ جس بھارت سے اس نے غیر مشروط دفاعی معاہدات کیے ہیں، وہ بھارت اپنی ریاست میں ان مسلمانوں کی حفاظت کیلئے کچھ نہیں کر رہا، جن مسلمانوں کو بھارت دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری بنا کر جمہوریت کے راگ الاپ رہا ہے۔ وہ یورپ جو ایک عیسائی عورت کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے، اس یورپ کو ان کروڑوں مسلمان عورتوں کی عزت اور زندگی کی کوئی تشویش کیوں نہیں ہے؟
آج بھارت میں ہزاروں مسلمان عورتیں ایسی بھی ہیں جن کا نام آسیہ ہے۔ مگر بھارت میں بسنے والی کسی مسلمان آسیہ کے لیے ان کی انسانی حقوق والی رگ کیوں نہیں پھڑکتی؟ یہ سوال کس قدر سادہ ہے اور اس کا جواب کس قدر پیچیدہ ہے؟ بھارت کو معلوم ہے کہ وہ اپنے ملک میں مسلمانوں کا قتل عام ہضم کر سکتا ہے، مگر اس کو خوف ہے کہ افغانستان سے لے کر عرب ممالک تک وہ اس ردعمل کے سامنے کیا کریں گے؟ جو ردعمل بھارت میں بہائے جانے والے مسلمان آبادی کے خون سے پیدا ہوگا۔ اس ضمن میں بات صرف مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی نہیں ہے، بلکہ مسلمان ممالک کے عوام کا غم و غصہ روکنا وہاں کی حکومتوں کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ نریندر مودی کی خاموشی کے پیچھے وہ خوف ہے، جو ان مسلمان ممالک میں امکانی طور پر نہیں، بلکہ یقینی طور پر پیدا ہوگا۔
بھارتی حکومت اس حقیقت سے بھی آشنا ہے کہ یہ دور 26 برس قبل والا وہ دور نہیں، جس میں میڈیا حکومتی ہاتھوں میں مجبور تھا۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس دور میں ایک ویڈیو کلپ اس آتش فشاں کے پھٹنے کا باعث بن سکتا ہے، جس کو کنٹرول کرنے کی طاقت بھارت میں نہیں ہے۔ بھارتی ریاست کو پتہ ہے کہ اگر مسلمانوں کا لہو اس طرح بہا، جس طرح نوے کی دہائی میں بہا تھا، تب وہ افغانستان میں اٹھنے والے رد عمل کے طوفان میں ایک تنکے کی طرح بہتی نظر آئے گی۔ بھارتی ریاستوں میں بسنے والے مسلمان مجبور ہو سکتے ہیں مگر کشمیر تو ایک آگ اگلتا ہوا پہاڑ ہے۔ کیا کشمیر کے مسلمان اپنے ہم مذہب بھائیوں کے قتل عام پر خاموش رہیں گے؟
بھارت اس بار بابری مسجد کے ایشو پر آگ سے کھیلے گا اور اس کا ہندو جنون اس ردعمل کو نہیں روک پائے گا، جو صرف مقامی اور علاقائی نہیں ہوگا۔ وہ ردعمل عالمی ہوگا۔ بھارت کے بہیمانہ جمہوری طلسم کے سارے ڈھکوسلے اس بار کھل کر منظرعام پر آئیں گے۔ بھارت کی بھانت بھانت والی بولیاں گنگ ہو کر رہ جائیں گی۔ اس بار ہندو شاؤنسٹ سوچ اور عمل کے آگے ایک نہیں، ہزاروں رکاوٹیں ہیں۔ کیا بھارت وہ ساری رکاوٹیں عبور کر پائے گا؟
اس بار تاریخ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ بھارت کے چہرے پر پڑا ہوا جمہوریت اور سیکولرزم کا وہ نقاب ہٹنے والا ہے، جس کو بھارت نے اب تک بڑی ہوشیاری اور کمال کی کارگیری کے ساتھ اپنے اصل چہرے کو چھپانے کے لیے اپنے رخ پر ڈال رکھا ہے۔ اب اس نقاب کے ہٹنے کا وقت آگیا ہے۔ اب بھارت کا اصل چہرہ پوری دنیا دیکھے گی۔ جب ایک معصوم مسلمان بچے کی چھاتی میں ایک ترشول پیوست ہوگا تو اس سے بہنے والا خون پورے عالم کی آنکھوں میں اتر آئے گا۔
بھارت کے بارے میں اب اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ بھارت کا روایتی میڈیا وہ منظر اب تک پیش نہیں کر رہا کہ کس طرح لمبی جٹاؤں والے جنونی ایودھیا کے راستوں پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس ظلم اور بربریت کا پردہ فاش کرے گا وہ سوشل میڈیا، جس کے اصل امتحان کا وقت آگیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا جس کی راہ بھارت کی بے ایمان ریاست نہیں روک سکتی۔ اس بار بھارت میں شاؤنسٹ ہندو غنڈوں کا مقابلہ بارودی ہتھیار نہیں کریں گے۔ بھارتی مسلمانوں کے پاس کوئی گلاک اور کوئی کلاشنکوف نہیں ہے۔ مگر ان کے پاس ایسا ہتھیار ہے، جس پر مودی حکومت پابندی عائد نہیں کر سکتی۔ اس بار بھارت میں ’’ٹچ فون‘‘ تاریخ کا سب سے بڑا ہتھیار بن کر اپنا حقیقی کردار ادا کرے گا۔ موبائل فونوں میں موجود کیمرے کا یہ ہتھیار بھارت کی ساری جمہوری اور سیکولر قلعی کھول دے گا۔
بھارت کے مسلمانوں کو اب اپنا پرامن اور جدید ترین ہتھیار استعمال میں لانا چاہئے۔ انہیں دنیا کو دکھانا چاہئے کہ غنڈے سادھو اور ان کے نگہبان نیتا عام طور پر بھارت اور خاص طور پر ایودھیا میں کس طرح لاکھوں مسلمانوں کو جنسی طور نہیں، بلکہ حیاتیاتی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ اور المیے سے کہیں بہت بڑی منافقت کا مظہر ہے کہ جنسی ہراسگی پر میڈیا سوشل سیلاب کے ساتھ امڈ آتا ہے، مگر وہ حیاتیاتی ہراسگی پر کچھ نہیں کہتا۔
بی بی سی اردو اور بی بی سی انگریزی کے ہونٹ تنخواہوں کی تیز سوئیوں سے سلے ہوئے ہیں۔ بھارت کی مدد کے لیے کوئی مقامی چینل تو کیا، سی این این کے کیمرے بھی نہیں آئیں گے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی حقیقت کا حق پیش کرنے کے لیے پاکستانی میڈیا تو کیا، ’’الجزیرہ‘‘ کو بھی آفیشل اجازت نہیں ملے گی کہ وہ بھارتی مسلمانوں میں موجود عدم تحفظ کی وہ حقیقت پیش کر پائے، جو انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔
’’ایودھیا میں زندگی اداس ہے!‘‘
میرے اس کالم کا عنوا ن ایسا ہونا چاہئے۔
مگر زندگی اس قدر رومانوی نہیں۔
زندگی یہاں نہیں ہے
جہاں ہم ’’ٹیبلٹ‘‘ پر ملان کنڈیرا کی کتاب
Life Is Elsewhere
پڑھ رہے ہیں!
میرے دوستو!
زندگی یہاں نہیں ہے
یہاں خودکش حملوں کے باوجود
اتنی تلخ نہیں
جتنی تلخ
وہ ایودھیا میں ہے!
وہ ایو دھیا
جہاں گلیوں اور راستوں پر
بھارتی مسلمانوں کی
سماعتوں میں
یہ نعرہ گھلے ہوئے سیسے کی طرح
آہستہ آہستہ اتر رہا ہے
جہاں وہ جنونی
بے پروا
اور بے خوف ہوکر
یہ نعرہ بلند کرتے ہیں:
’’پہلے مندر پھر سرکار‘‘ ٭