جہاز نے جس وقت کوالالمپور ایئرپورٹ پر لینڈ کیا تھا تو اسی وقت سے بارش شروع ہو گئی تھی۔ میں نے دل میں سوچا کہ میں دوسروں کو نصیحت کرتا رہتا ہوں کہ ایسے ملکوں میں جاتے وقت چھتری ضرور اپنے ساتھ رکھیں اور آج میں خود بغیر چھتری کے آنکلا تھا۔ بہرحال میں بارش میں بھیگتا ہوا علی کی کار تک پہنچ گیا تھا، جب ہم علی کے گھر پہنچے تو ان کی بیگم نے کہا:
’’بھائی جان! میں کل سے دعا مانگ رہی تھی کہ بارش ہو اور گرمی کی شدت کچھ کم ہو۔ اس مرتبہ ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا اور بارش نہیں ہوئی۔ ایسی گرمی کو دیکھ کر میں نے علی سے کہا تھا کہ الطاف بھائی کو بہت گرمی محسوس ہو گی۔‘‘
’’میں یہاں اجنبی نہیں ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اس سرزمین سے واقف ہوں۔ ملائیشیا جغرافیائی طور پر خط استوائی ملک ہے، جہاں سخت گرمی ہونی چاہئے، لیکن وقفے وقفے سے ہونے والی بارش سے موسم خوشگوار رہتا ہے اور ہر طرف سبزہ نظر آتا ہے۔‘‘
’’آج بیگم نے آپ کے لیے اپنے ملک کی ڈش بریانی تیار کی ہے۔‘‘ علی نے بتایا۔ ’’چاول بھی پاکستان سے لائے ہوئے باسمتی ہیں۔‘‘
’’یہ تکلف کیا نا آپ لوگوں نے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں کوئی سال ڈیڑھ سال سویڈن یا نیوزی لینڈ میں رہ کر نہیں آرہا، میں تو پاکستان ہی سے آیا ہوں۔ میں نے آپ لوگوں سے کہا بھی تھا کہ میرے لیے کسی قسم کا اہتمام اور تکلف ہرگز نہ کریں۔‘‘
دراصل ملائیشیا آنے سے قبل میں نے علی سے کہا تھا کہ میں ان کے ہاں ضرور ٹھہروں گا، لیکن کھانے پینے کے معاملے میں مجھے آزاد چھوڑا جائے، تاکہ میں یہاں کے روایتی کھانے کھا کر گزشتہ ایام کی یاد تازہ کر سکوں۔
’’ناشتہ تو ہمارے ساتھ گھر پر کیجئے گا۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔
’’نہیں دوست! ناشتہ تو خاص طور پر باہر فٹ پاتھ پر ملئی عورتوں کے اسٹالوں پر ’’ناسی لماک‘‘ یا ’’روٹی چنائی‘‘ سے کرنا ہے۔‘‘
میں نے علی کو نہ صرف یہ کہا تھا بلکہ انہیں سمجھایا بھی تھا کہ ملائیشیا میں ویسے بھی کھانے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور
میں خاص طور پر ان چھوٹے چھوٹے اسٹالوں سے ناسی ایام، بیف رنڈانگ، اکان اور اڈانگ کھانا چاہتا ہوں جو کہ میں اس شہر کوالالمپور میں چلتے پھرتے کھاتا تھا۔
لیکن آخری دن تک علی اور ان کی بیگم نے میری ایک نہ مانی۔ جب میں باہر سے آتا تو میز پر میرے لیے کھانا موجود ہوتا تھا۔ پھر میں کبھی کھا لیتا تھا اور کبھی باہر ہی سے کھا کر آتا تھا۔ خاص طور پر ان کے گھر کے قریب بس اسٹاپ پر عائشہ اور فاطمہ نامی دو ملئی عورتوں کے اسٹال پر کھانے کا شوق ضرور پورا کیا۔ جہاں آٹھ دس اسٹولوں پر دو چار مجھ جیسے ’’بزرگ‘‘ مرد اور بچوں کے ساتھ عورتیں بیٹھ کر کھانا کھاتی تھیں۔ وہ اس طرح ادھر ادھر کی باتیں کرتے تھے، جیسے ہمارے ہاں گوٹھوں کے بس اسٹاپوں پر واقع ہوٹلوں میں چائے کے کپ پر فارغ اور بے کار مرد بیٹھے گپیں ہانکتے ہیں۔
ایک دن اسٹال کی بوڑھی مالکہ فاطمہ نے مجھ سے کہا ’’جناب! آپ میٹھی چیزیں بہت کھاتے ہیں، کہیں آپ کو شوگر نہ ہو جائے۔‘‘
’’اس عمر میں ’’نہ ہو جائے‘‘ کا کیا مطلب؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’شوگر ہو چکی ہے محترمہ! لیکن میں یہاں دن بھر چلتا رہتا ہوں اور اس شہر میں گزارے ہوئے اپنی جوانی کے دن یاد کرتا ہوں، جب میں اس قسم کی ملئی مٹھائیاں بڑے شوق سے کھاتا تھا۔‘‘
علی ایک دن مجھے اپنے آفس بھی لے گئے، جہاں کمپیوٹر اور تجارتی کام کو سنبھالنے کے لیے شفیق مقرر تھے، ان کا تعلق روہڑی سے ہے اور وہ علی کے بچپن کے دوست ہیں۔ سامان پوسٹ کے ذریعے روانہ کرنے یا بیرون ملک سے آنے والے مال کو سیٹنگ سے رکھنے کے لیے انہوں نے ایک ملئی ڈرائیور ملازم رکھا ہوا تھا۔ ان کا آفس پہلی منزل پر تھا، جس کے ایک ٹیبل کرسیاں اور کمپیوٹر رکھے تھے۔ وہاں بیٹھ کر وہ اور شفیق کمپیوٹر کے ذریعے آرڈرز حاصل کرتے تھے۔ وہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے سرجری اور دیگر میڈیکل کے آلات منگواتے تھے۔
آفس کے جنوبی حصے کو علی نے گودام کی شکل دی ہوئی تھی۔ وہاں مختلف ڈاکٹری اوزار اور سرجیکل ٹول رکھے جاتے تھے۔ اس اسٹور کے ایک حصے میں فینسی قسم کی جیکٹیں اور موٹر سائیکل کے ہیلمٹ رکھے دیکھ کر میں نے علی سے پوچھا تھا۔
’’یہ جیکٹیں یہاں کون خریدتا ہے؟‘‘
ظاہر ہے یہ میرے لیے حیرت کی بات تھی۔ ملائیشیا ایک ایسا ملک ہے جہاں سال بھر میں ایک دن بھی سردی نہیں پڑتی، یہاں ان جیکٹوں کا کیا کام؟
’’یہاں کے ملئی نوجوان موٹر سائیکل چلانے کے شوقین ہیں۔‘‘ علی نے بتایا۔ ’’وہ بڑی بڑی موٹر سائیکلیں چلاتے ہیں اور محض فیشن کے طور پر عموماً اس قسم کی جیکٹیں خریدتے ہیں، کئی نوجوان تو چمڑے کی کالی جیکٹیں بھی لیتے ہیں۔‘‘
’’لیکن علی! سننے میں آتا ہے کہ پاکستان سے چمڑے کا سامان منگوانا خطرے کا کام ہے۔‘‘ میں نے جاننا چاہا۔ ’’کیونکہ میں نے دنیا کے کئی مختلف ملکوں میں دکانداروں کی زبانی سنا ہے کہ پاکستانی چمڑے کے کارخانے دار سمپل ایک دکھاتے ہیں اور مال دوسرا بھیجتے ہیں، جو داغدار اور نقص والا ہوتا ہے، اس لیے ولایت کی مارکیٹوں میں فروخت نہیں ہوتا۔‘‘ ’’ہمیں تو ایسی کوئی شکایت نہیں رہی، شاید اس کا سبب یہ ہو کہ میرے اس کاروبار میں وہ شخص پارٹنر ہے جس کی اپنی چمڑے کی فیکٹری ہے، وہ ہمیں بالکل درست اور بہتر کوالٹی کا مال بھیجتا ہے۔‘‘ علی نے بتایا۔
علی کے دوست اور بزنس پارٹنر محمد شفیق سے ایک دن میری تفصیلی ملاقات ہوئی۔ لاہور میں ان کا اپنا کارخانہ ہے، جہاں چمڑے کی جیکٹیں، ہینڈ گلوز اور مختلف قسم کے بیگ تیار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہاں جالان کچنگ کے قریب ’’تمن باتو‘‘ میں ’’ٹی ایس این اسٹار سنڈیرین برحد‘‘ کے نام سے کمپنی کھولی ہے۔ وہ خود اس کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ مذکورہ بالا تمام چیزیں پورے ملائیشیا میں سپلائی کرنے کے ہول سیل ڈیلر ہیں۔
میں نے ان کے کارخانے سے تیار ہو کر آنے والے دو تین اقسام کے بیگ اور تھیلے دیکھے تھے۔ ان کا ڈیزائن اور مضبوطی بہترین قسم کی تھی۔ ظاہر ہے ایسے ملکوں میں، جہاں بے شمار ملکوں کے تاجر اور کارخانے دار اپنا مال فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں جیت اسی کی ہو سکتی ہے جس کا مال بہتر، پائیدار اور سستا ہو گا۔
محمد شفیق نے بتایا تھا کہ آج کل پاکستان میں لوڈشیڈنگ کے سبب دن بھر کاریگر فارغ بیٹھے رہتے ہیں، اس لیے مال انتہائی کم مقدار میں تیار ہورہا ہے۔ کام کرنے والوں کو مفت کی تنخواہ دینی پڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ چمڑے (لیدر) اور کیمیکل سے لے کر سوئی، دھاگے تک ہر وہ چیز جو ان اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے بے انتہا مہنگی ہو چکی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر پراڈکٹ فی عدد کے حساب سے بہت مہنگا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں روزمرہ کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔ پھر اگر فروخت کے دوران قیمت بڑھائی جائے تو یہ چیزیں ہم سے کون خریدے گا۔
ان کی کمپنی کی ویب سائٹ یہ ہے:
www.w-bpower.com
٭٭٭٭٭