مصنوعی ہیرو

ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
ہر سنجیدہ کام کو بھی غیر سنجیدہ بنانے کا فن کوئی ہم سے سیکھے۔ قدرت نے کرم کیا اور کراچی میں چینی قونصل خانے پر دشمن کا حملہ ناکام ہوگیا، ورنہ خدا نخواستہ دہشت گرد اس میں کامیاب ہو جاتے تو ہمارے لئے نیا بحران کھڑا ہو جاتا۔ اپنے قریبی دوست ملک کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس حملے کو ناکام بنانے والے ہمارے ہیرو ہونے چاہئے تھے اور یہ ہیرو وہ شہید پولیس اہلکار تھے، جنہوں نے اپنی جانیں دے کر ملک کی عزت رکھ لی، یا پھر وہ نجی گارڈ جسے بمشکل دس بارہ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہوگی، لیکن اس نے بھی اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کا وار ناکام بنایا، لیکن شہید پولیس اہلکاروں اور زخمی نجی گارڈ کے بجائے سندھ حکومت، وہاں کی پولیس قیادت اور ٹی وی چینلز کی اکثریت نے خاتون اے ایس پی سوہائے عزیز کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا، جس میڈیا میں شیو کے اشتہار میں بھی خاتون دکھانا لازمی ہو اور جہاں اصل اور نقل کے بجائے اچھے کلپس کو اہمیت دی جاتی ہو، وہاں یہی کچھ ہونا تھا، لیکن اس پر جس طرح سوشل میڈیا پر عوام نے ردعمل ظاہر کیا، سوہائے عزیز کو ہیرو کے طور پر قبول کرنے سے انکار کیا، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہمارا میڈیا اب رائے سازی کی صلاحیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا میڈیا لوگوں کو جو دکھاتا اور سناتا تھا، لوگ اس پر یقین کرلیتے تھے، اس کے مطابق رائے قائم کرلیتے تھے، لیکن اب رائے لوگ میڈیا کو دیکھ کر نہیں بناتے، بلکہ اپنی سوچ سے بناتے ہیں اور پھر اس کے اظہار کا فورم بھی ان کے پاس سوشل میڈیا کی صورت میں موجود ہے، اس کا وہ بھرپور استعمال کرتے ہیں۔
خاتون افسر کی جو ویڈیو چینلز پر چلائی جا رہی تھی، اسے دیکھتے ہی بندہ اس نتیجے پر پہنچ سکتا تھا کہ اس خاتون نے کم از کم مقابلے میں حصہ نہیں لیا، وہ جس طرح بغیر بلٹ پروف جیکٹ پہنے اپنے محافظوں کو پیچھے رکھتے ہوئے چل رہی تھیں، ہاتھ سے اشارے بھی کر رہی تھیں، اس سے تو ذہن فوراً بھارتی فلمی دبنگ کے کسی سین کی طرف چلا جاتا تھا۔ حیرت ہے ہر بات میں کیڑے نکالنے کے ماہر اسٹوڈیوز میں بیٹھے لوگوں کو اس کا خیال نہیں آیا، حالاں کہ ان کی کیڑے نکالنے کی مہارت تو اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے ایک کسان دوست کہتے ہیں اگر آپ میڈیا والوں کی خدمات محکمہ زراعت کو مل جائیں تو کیڑے مار ادویات کی ملک میں ضرورت ختم ہو سکتی ہے، کیوں کہ میڈیا والے کیڑے نکالنے کے اتنے ماہر ہیں کہ سارے کیڑے انہیں دیکھتے ہی فصلوں سے غائب ہو جائیں گے۔ میڈیا نے تو جو کچھ کیا، وہ کیا، لیکن حیرت سندھ پولیس کی قیادت پر بھی ہوتی ہے کہ اس نے بھی اپنے شہید اہلکاروں کے بجائے خاتون افسر کو ہیرو بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا، حقیقی ہیرو موجود ہوتے ہوئے بھی مصنوعی ہیرو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ شہید اہلکاروں کے لئے میڈل کی سفارش کے بجائے خاتون افسر کو قائد اعظم میڈل کے لئے نامزد کرنے کا اعلان سامنے آگیا۔ خاتون افسر جس طرح ویڈیو بنواتے ہوئے چینی قونصل خانے پر انٹری ڈال رہی تھیں، اسے وہاں کی پولیس قیادت نے قبول کر لیا ہے تو پھر تو انہیں اب اپنے محکمے میں مووی میکرز کی اسامیاں بھی پیدا کرنی پڑیں گی، جو اس طرح کے مقابلوں کے بعد وہاں پہنچنے والے افسران کی ویڈیو بنا کر جاری کرتے رہیں اور یہ ہدایات بھی جاری کرنی پڑیں گی کہ کہیں ایسی صورت حال پید ا ہو جائے تو اور کوئی پہنچے نہ پہنچے یہ مووی بنانے والے اہلکار وہاں ضرور پہنچ جائیں۔ مووی میکرز تو ویسے ہی اس وقت آسانی سے دستیاب ہو جائیں گے، کیوں کہ ہمارے چینلز نے تھوک کے حساب سے کیمرہ مین فارغ کردئیے ہیں، اسی بہانے ان بے روزگاروں کو بھی روزگار مل جائے گا۔ میڈیا اور پولیس کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہی اور وہ بھی چینی قونصل خانے پر حملہ ناکام بنانے والے اصل ہیروز کی جگہ خاتون افسر کی ستائش میں ہی مصروف نظر آئی، اس اقدام سے ہمیں پی پی پی کا وفاقی حکومت کا دور یاد آگیا، جب ایک شخص نے یہ محیر العقول دعویٰ کر دیا تھا کہ اس نے ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کرلی ہے، جس کے ذریعے وہ پانی سے گاڑی چلا سکتا ہے، اس وقت خورشید شاہ سینئر وفاقی وزیر ہوا کرتے تھے، وہ فوراً اس پر ایمان لے آئے اور یہ دعویٰ کرنے والے کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا، دو چار اینکرز نے فرمائشی پروگرام بھی کر ڈالے، معاملہ کابینہ تک میں لے گئے، منصوبے کے لئے متعلقہ شخص کو فنڈز دلانے کی باقاعدہ کوششیں شروع ہوگئیں، وہ تو شکر ہے معاملہ کوششوں تک ہی رہا، ورنہ گاڑیاں تو پانی سے کیا چلنی تھیں، فنڈز ضرور پانی میں بہا دئیے جاتے۔ ویسے خورشید شاہ نے پانی سے گاڑی چلانے والے فارمولے پر کوئی یوٹرن نہیں لیا تو انہیں یہ فارمولا سامنے لانے کے لئے دوبارہ کوشش کرنی چاہئے، اس فارمولے کے موجد سے تو ان کا رابطہ ہوگا ہی، آج کل تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے گاڑیوں والے پریشان بھی ہیں، اگر پانی سے گاڑی چلنے لگ جائے تو ان کی بلے بلے ہو جائے گی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment